ہٹ دھرم حاسد

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 01
یہودی و نصاری کے علاوہ ہرگز کوئی شخص جنت میں داخلبے بنیاد بہانے

بہت سے اہل کتاب ایسے تھے کہ صرف اس پر بس نہ کرتے تھے کہ خود دین اسلام قبول نہ کریں بلکہ انہیں اصرار تھا کہ مومنین بھی اپنے ایمان سے پلٹ آئیں اور اس سبب حسد کے سوا کچھ نہ تھا۔
قرآن مجید کی مندرجہ بالا آیات میں اس امر کی طرف اشارہ کیا گیاہے۔ فرمایا: بہت سے اہل کتاب حسد کی وجہ سے چاہتے ہیں کہ تمہیں اسلام پر ایمان لانے کے بعد کفر کی طرف پلٹادیں حالانکہ ان پر حق مکمل طور پر واضح ہوچکا ہے (وهو کثیر من اھل الکتاب لو یرد و نکم من بعد ایمانکم کفارا حسدا من عندا انفسہم من بعد ما تبین لھم الحق)۔اس مقام پر قرآن مجید مسلمانوں کو حکم دیتاہے کہ ایسے کجر و اور تباہ کن تقاضوں کے مقابلے میں تم انہیں معاف کر دو اور ان سے درگذر کرو یہاں تک کہ خدا خود اپنا فرمان بھیجے کیونکہ خدا ہرچیز پرقدرت رکھتاہے (فاعفوا وا صفحوا حتی یاتی اللہ بامرہ ان اللہ علی کل شی قدیر
حقیقت میں مسلمانوں کو ایک تکنیکی حکم دیاگیاہے کہ ان مخصوص حالات میں عفو و گذر کے ہتھیارسے استفادہ کریں اور اپنی اور اپنے معاشرے کی اصلاح میں لگے رہیں اور فرمان خدا کا انتظار کرتے رہیں۔
بہت سے مفسرین کے بقول یہاں فرمان خدا سے مراد فرمان جہاد ہے جو اس وقت تک نازل نہیں ہواتھا ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ لوگ ابھی ہر پہلو سے اس کے لئے تیارنہ ہوں۔ اسی لئے تو بہت سے لوگوں کا نظریہ ہے کہ یہ آیت جہاد کی آیات کی وجہ سے منسوخ ہوگئی۔ جن کی طرف بعد میں اشارہ ہوگا۔لیکن اسے نسخ قرار دینا شاید صحیح نہ ہو کیونکہ نسخ کا معنی ہے کہ ظاہرا تھوڑی مدت کے لئے کوئی حکم جاری ہوتاہے اور شریعت قرار پاتاہے۔ لیکن باطنا موقت ہوتاہے جب کہ یہاں آیت میں عفو و در گذر کا حکم ایک محدود شکل میں آیاہےوہ اس زمانے تک محدود ہے جب تک جہاد کے متعلق فرمان الہی نہیں آیا۔ بعد کی آیت جس میں مومنین کو دو اہم اصلاحی احکام دیئے گئے ہیں، ایک نماز جو انسان اور خدا کے در میان مضبوط ربط پیدا کرتی ہے اور دوسرا زکوة جو معاشرے کے افراد کے لئے ایک دوسرے سے وابستگی کی رمز ہے اور یہ دونوں امور دشمن پر کامیابی کے لئے ضروری ہیں۔ فرمایا: نماز قائم کرو اور زکوة ادا کرو اور ان دو ذرائع سے اپنی روح اور جسم کو طاقت بخشو ( و اقیموا الصلوة و اتوا الزکوة)۔مزید فرمایا: یہ خیال نہ کرو کہ جو نیکی کا تم کرتے ہو اور جو مال راہ خدا میں خرچ کرتے ہو وہ ختم ہوجاتا ہیں۔
نہیں ایسا بلکہ جو نیکیاں تم آگے بھیجتے ہو انہیں خدا کے ہاں (دار آخرت میں) موجود پاوگے (و ما تقد ہوا الا نفسکم من خیر تجدوہ عند اللہ)۔ خدا تمہارے تمام اعمال کو دیکھتا ہے (ان اللہ بما تعملون بصیر) وہ پورے طور پر جانتا ہے کہ کون سا عمل تم نے خدا کے لئے انجام دیاہے اور کون سا اس کے غیر کے لیے۔
چند اہم نکات
(!) (فاعفوا) اور (اصفحوا) : اصفحو کا مادہ (صفح) ہے اس کا معنی ہے دامن کوہ ، تلوار کا عرض اور رخسار اور یہ لفظ عموما پھیرنے اور صرف نظر کرنے کے مفہوم میں استعمال ہوتاہے۔
لفظ: (فاعفوا) کے قرینے سے معلوم ہوتاہے کہ یہ روگردانی، غصہ اور بے اعتنائی کے لئے نہیں بلکہ بزرگانہ در گزر کے طور پرہے۔ یہ دو تعبیریں ضمنا نشاندہی کرتی ہیں کہ مسلمان اس وقت بھی اس قدر قدرت و طاقت رکھتے تھے کہ عفو و گزر نہ کرتے اور دشمن کو ضروری سزا دیتے لیکن خدا وندتعالی نے ان کو پہلے عفو و در گزر کا حکم دیاہے تا کہ وہ ہر لحاظ سے تیاری کرلیں یا اس لئے کہ دشمن اگر قابل اصلاح ہیں تو ان کی اصلاح ہوجائے۔ دوسرے لفظوں میں دشمن کے مقابلے میں شروع میں کبھی خشونت اور سخت گیری نہیں ہونی چاہئیے۔ بلکہ یہ اخلاق اسلامی کا ضروری حصہ ہے کہ پہلے عفو در گزر سے کام لیاجائے اگر وہ موثر نہ ہو تو پھر سختی کو بروئے کار لایاجائے۔
(!!) ان اللہ علی کل شیء قدیر کا جملہ: ہوسکتا ہے یہ جملہ اس مقام پر اس طرف اشارہ ہو کہ خدا ایسا کرسکتاہے کہ غیر عادی طریقوں سے تمہیں ان پر کامیابی دیدے لیکن انسانی زندگی کا مزاج اور عالم آفرینش کی طبیعت مقتضی ہیں کہ ہر کام تدریجا اور مقدمات فراہم ہونے پر انجام پذیر ہو۔
(!!!) حسد من عند انفسہم کا مفہوم : (یعنی اس کا سبب وہ حسد ہے جو ان کی اپنی طرح سے ہے) ممکن ہے اس طرف اشارہ ہو کہ بعض اوقات حسد کا مقصد تو ذاتی غرض ہوتی ہے لیکن اسے دین کا رنگ دے دیاجاتاہے یہاں جو حسد ہے اس میں تو یہ پہلو بھی نہیں بلکہ فقط ذاتی غرض پرمبنی ہے۔۱

۱۱۱۔ وَقَالُوا لَنْ یَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلاَّ مَنْ کَانَ ہُودًا اٴَوْ نَصَارَی تِلْکَ اٴَمَانِیُّہُمْ قُلْ ہَاتُوا بُرْہَانَکُمْ إِنْ کُنتُمْ صَادِقِین
۱۱۲۔بَلَی مَنْ اٴَسْلَمَ وَجْہَہُ لِلَّہِ وَہُوَ مُحْسِنٌ فَلَہُ اٴَجْرُہُ عِنْدَ رَبِّہِ وَلاَخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَہُمْ یَحْزَنُونَ
ترجمہ
۱۱۱۔ وہ کہتے ہیں یہودیوں اور عیسائیوں کے علاوہ ہرگز کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ یہ تو صرف ان کی تمنا ہے کہیے کہ اگر سچے ہو تو (اس دعوی پر) اپنی دلیل پیش کرو۔
۱۱۲۔ جی ہاں! جو بھی خدا کے سامنے سر تسلیم خم کرلے اور نیکوکار ہو تو اس کا اجر اس کے پروردگار کے پاس مسلم ہے۔ ان کے لئے کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے (لہذا جنت اور سعادت کسی خاص گروہ سے مخصوص نہیں ہے)۔


 

۱ تفسیر المنار ،زیر بحث آیہ کے ذیل میں۔

یہودی و نصاری کے علاوہ ہرگز کوئی شخص جنت میں داخلبے بنیاد بہانے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma