(۳) بے خبر اور غلاف میں لپٹے دل:

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 01
ان آیات میں بھی یہودیوں اور روح القدس کے بارے میں عیسائیوں کا عقیدہ :

 مدینہ کے یہودی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تبلیغات کا پوری کوشش سے مقابلہ کرتے اور آپ کی دعوت قبول کرنے سے انکار کرتے اور جب بھی آپ کے بار دعوت سے بچنے کا کوئی بہا نہ ملتا اس سے پورا فائدہ اٹھاتے اس آیت میں ان کی ایک گفتگو کی طرف اشارہ کیاگیاہے وہ کہتے تھے ہمارے دل پردے اور غلاف میں لپٹے ہیں۔ آپ جو کچھ پڑھتے ہیں ہماری سمجھ میں نہیں آتا۔ یہ بات وہ تمسخر اور استہزاء کے طور پر کہتے لیکن قرآن کہتاہے: بات یہی ہے کہ جو وہ کہہ رہے ہیں کیونکہ کفر و نفاق کے باعث ان کے دل بے خبری، ظلمت، گناہ اور کفر کے پردوں میں لپیٹے جاچکے ہیں اور خدانے انہیں اپنی رحمت سے دور کردیاہے یہی وجہ ہے کہ ان میں سے بہت کم ایمان لاتے ہیں۔

سورہ نساء آیہ ۱۵۵ میں بھی یہی مفہوم مذکور ہے:

وَقَوْلِہِمْ قُلُوبُنَا غُلْفٌ بَلْ طَبَعَ اللهُ عَلَیْہَا بِکُفْرِہِمْ فَلاَیُؤْمِنُونَ إِلاَّ قَلِیلًا

اور ان کا کہنا ہے کہ ہمارے دل غلاف میں لپٹے ہیں اس لئے تمہاری بات سمجھ نہیں پاتے لیکن یہ تو اس بناء پرہے کہ خدانے ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگادی ہے لہذا ان میں سے چند ایک کے علاوہ ایمان نہیں لائیں گے۔

۸۹۔وَلَمَّا جَائَہُمْ کِتَابٌ مِنْ عِنْدِ اللهِ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَہُمْ وَکَانُوا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُونَ عَلَی الَّذِینَ کَفَرُوا فَلَمَّا جَائَہُمْ مَا عَرَفُوا کَفَرُوا بِہِ فَلَعْنَةُ اللهِ عَلَی الْکَافِرِینَ)

 ۹۰۔ بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِہِ اٴَنفُسَہُمْ اٴَنْ یَکْفُرُوا بِمَا اٴَنزَلَ اللهُ بَغْیًا اٴَنْ یُنَزِّلَ اللهُ مِنْ فَضْلِہِ عَلَی مَنْ یَشَاءُ مِنْ عِبَادِہِ فَبَائُوا بِغَضَبٍ عَلَی غَضَبٍ وَلِلْکَافِرِینَ عَذَابٌ مُہِینٌ )

ترجمہ

۸۹۔ اور جب خداکی طرف سے ان کے پاس ایک ایسی کتاب آئی ہے جو ان نشانیوں کے مطابق ہے۔ جو ان (یہودیوں) کے پاس ہیں۔ اس ماجرے سے پہلے (وہ خود اس پیغمبر اور اس کی کتاب کے ظہور کی بشارت دیتے تھے اس پیغمبر کی مددسے اپنے دشمنوں اور مشرکین پر فتحیاب ہوں گے ان سب امور کے با وجود) جب کتاب اور وہ پیغمبر جسے پہلے پہچان چکے تھے، ان کے پاس آئے تو اس سے کافر ہوگئے۔ پس خدا کی لعنت ہو ان کافروں پر۔

۹۰۔ انہوں نے اپنے  نفسوں کو بڑی قیمت پر بیچاہے کیونکہ غلط کاری کے مرتکب ہوتے ہوئے وہ ان آیات سے کافر ہوگئے ہیں جو خدا کی بھیجی ہوئی ہیں (چونکہ پیغمبر اسلام بنی اسرائیل میں سے نہیں ہیں) اور خدا اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتاہے اپنے فضل سے اپنی آیات نازل کرتاہے لہذا ان پریکے بعد دیگرے خدا کا غضب نازل ہوا اور کافروں کے لئے ذلیل و خوار کرنے والی سزا اور بدار ہے۔

شان نزول

زیر نظر آیت کے بارے میں امام صادق(ع) سے روایت ہے:

یہودیوں نے اپنی کتب میں دیکھ رکھاتھا کہ پیغمبر اسلام کا مقام ہجرت (عیر) اور احد کی پہاڑیوں کے در میان ہوگا۔ (یہ دونوں پہاڑ مدینہ کے ا ردگردہیں) یہودی اپنے علاقے چھوڑ کر رسول کی ہجرت کی سرزمین کی تلاش میں نکلے اس دوران وہ (حداد) نامی پہاڑ تک پہنچے اور کہنے لگے (حداد)یہی احد  ہے۔ وہیں سے وہ منتشر ہوگئے۔ ہر گروہ نے ایک جگہ کو اپنا مسکن بنالیا۔ کچھ سرزمین (تیما) ہیں جابسے بعض (فدک) میں قیام پذیر ہوئے اور  کچھ (خیبر)میں رہنے لگے۔ (کچھ مدت بعد) تیما کے رہنے والوں نے اپنے دوسرے بھائیوں سے ملنا چاہا۔ اس اثنا میں ایک عرب وہاں سے گذرا۔ اس سے انہوں نے سواریاں کرائے پرلیں۔ عرب کہنے لگا میں تمہیں (عیر) اور (احد) کی پہاڑیوں میں سے لے جاوں گا۔ اس سے کہنے لگے جب ان دو پہاڑوں کے در میان پہنچو تو ہمیں آگاہ کرنا۔ وہ عرب جب سرزمین مدینہ میں پہنچا تو اس نے انہیں بتایا کہ یہ جگہ ہی کوہ عیر اور کوہ احد کے در میان ہے۔ پھر اس نے اشارے سے بتایا کہ یہ (عیر) ہے اور یہ (احد) ہے۔ یہودی اس کی سواریوں سے اتر پڑے اور کہنے لگے ہم اپنے مقصد تک آپہنچے ہیں۔ اب ہمیں تیری سواریوں کی ضرورت نہیں، اب تو جہاں جانا چاہے جاسکتاہے۔

اس کے بعد انہوں نے اپنے بھائیوں کو خط لکھا کہ ہم نے وہ زمین تلاش کرلی ہے تم بھی ہماری طرح کوچ کرو۔ انہوں نے جواب میں لکھا کہ ہم چونکہ یہاں سکونت اختیار کرچکے ہیں۔ گھربار اور مال و منال کا اہتمام کرچکے ہیں اور یہاں سے اس سرزمین کا کوئی زیادہ فاصلہ بھی نہیں۔ جس وقت پیغمبر موعود ہجرت کرکے آئیں گے ہم بھی تمہارے پاس آجائیں گے۔

وہ سرزمین مدینہ ہی میں رہے اور بہت مال و دولت جمع کرلی یہ خبر (تبع) نامی ایک بادشاہ کو پہنچی۔ اس نے آکر ان سے جنگ کی یہودی اپنے قلعوں میں قلوبند ہوگئے۔اس نے ان سب کا محاصرہ کرلیا۔ پھر نہیں امان دے دی۔ وہ بادشاہ کے پاس آئے۔ (تبع) نے کہا مجھے یہ سرزمین پسند آئی ہے اور میں یہاں رہنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے جواب میں کہا:  ایسا نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ سرزمین ایک پیغمبر کا مقام ہجرت ہے۔ اس کے علاوہ کوئی شخص بادشاہ کی حیثیت سے نہیں رہ سکتا۔ تبع کہنے لگا کہ میں اپنے خاندان میں سے کچھ لوگ یہاں چھوڑدیتاہوں تا کہ جب وہ پیغمبر آئے یہ اس کی مدد کریں۔ لہذا اس نے دو مشہور قبائل (اوس) اور (خزرج) کو یہاں ٹھرا دیا۔ جب ان قبیلوں نے خوب مال و دولت جمع کرلیا۔ تو یہودیوں کے مال پرتجاوز کرنے لگے۔ یہودی ان سے کہا کرتے تھے جب محمد مبعوث ہوں گے تو تمیں ہمارے علاقے سے نکال دیں گے۔

جب حضرت محمد مبعوث ہوئے تو اوس اور خزرج آپ پر ایمان لے آئے جو انصار مشہور ہوئے مگر یہودیوں نے آپ  کا  انکار کیا۔ آیت ( وَکَانُوا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُونَ عَلَی الَّذِینَ کَفَرُوا)  کا یہی مفہوم ہے۔

وہی لوگ جو خاص عشق و محبت کی وجہ سے ، رسول اللہ پرایمان لانے کے لئے آئے تھے جو اوس و خزرج کے مقابلے میںفخر کرتے تھے کہ ایک رسول مبعوث ہوگا اور ہم اس کے یار و مددگار ہوں گے۔ جب رسول اللہ کی ہجرت ہوئی اور آپ نے ان کے سامنے قرآن کی تلاوت کی، وہی قرآن جو تورات کی تصدیق کرتاتھا، تو وہ اس سے کفر کرنے لگے-

 

ان آیات میں بھی یہودیوں اور روح القدس کے بارے میں عیسائیوں کا عقیدہ :
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma