من وسلوی ٰکیاہے :

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 01
 ”انزلنا“کیوں کہا گیا :آزاد ماحو ل کی زندگی:

مفسرین نے ان دو الفاظ کی تفسیر میں بہت سی باتیں کہی ہیں جن سب کے ذکر کر نے کی یہاں ضرورت نہیں ہے بہتر یہ ہے کہ پہلے ان کے لغوی معنی اور وہ تفسیر جو زیادہ فصیح نظر آتی ہے اور آیات کے قرئن سے زیادہ ہم آہنگ ہے بیان کریں ۔بعض کے بقول لغت میں ”من “شبنم کی طرح کے ان چھوٹے چھوٹے قطرات کو کہتے ہیں جو درختوں پر گرتے ہیں اورمیٹھا ذائقہ رکھتے ہیں ۱ یابعض کے بقول ایک قسم کا صمغ (درخت کا شیرہ )ہے جس کاذائقہ میٹھا ہوتا ہے اور بعض کہتے ہیںکہ اس کاذائقہ میٹھا لیکن ترشی سے ملا ہو تا ہے
ّ(سلویٰ)کے اصل معنی تو ہیں اطمینا ن اورتسلی ۔بعض ارباب لغت اور بہت سے مفسرین نے اسے ایک قسم کا پرندہ (بٹیر یاتیتر )قراردیاہے ۔
لیکن نبی اکرم سے منقول ایک روایت کے مطابق ، آپ نے فرمایا:
الکماةمن المن
کھمبی کی ایک قسم کی ایک چیز تھی جو اس زمین میں اگتی تھی
بعض نے کہاہے کہ من سے مراد ہے وہ تمام نعمتیں جوخدا نے بنی ا سرائیل کو عطا فرمائی تھیں اور سلوی وہ تمام عطیات ہیں جو ان کی راحت وآرام اور اطمینان کاسبب تھے
تورات میں ہے کہ ”من“دھنیے کے د انوںجیسی کوئی چیزہے جو رات کو اس زمین پر آگر تی ہے ۔بنی اسرا ئیل اسے اکٹھا کرکے پیس لیتے اور اس سے روٹی پکا تے تھے جس کا ذائقہ روغنی روٹی جیسا ہو تا تھا ۔
ایک احتما ل اور بھی ہے کہ بنی اسرایئل کی سر گر د انی کے زمانے میں خدا کے لطف وکرم سے جو نفع بخش بارشیں برستی تھیں ان کے نتیجے میں درختوں سے کوئی خاص قسم کا صمغ اور شیرہ نکلتاتھااور بنی اسرایئل اس سے مستفید ہوتے تھے ۔
بعض دیگرگ حضرات کے نزدیک ”من“ایک قسم کا طبعی شہد ہے اور بنی اسرائیل اس بیابان میں اس طویل مدت تک چلتے پھرتے رہنے سے شہد کے مخزنوں تک پہنچ جاتے تھے کیونکہ بیابان تیہ کے کناروںپرپہاڑ اورسنگلاخ علاقہ تھا جس میں کافی طبعی شہد نظر آجاتا تھا ۔
عہدین (توریت اور انجیل ) پرلکھی گئی تفسیر سے اس تفسیر کی تائید ہو تی ہے جس میںہے کہ مقدس سر زمین قسم قسم کے پھولوں اور شگوفوں کی وجہ سے مشہور ہے اسی لئے شہد کی مکھیو ں کے جتھے ہمیشہ پتھروں کے سوراخوں، درختوں کی شاخوں اور لوگو ں کے گھر وں پر جا بیٹھے ہیں اس طرح سے بہت فقیر ومسکین لوگ بھی شہد کھا سکتے ہیں ۔ 2
اب ہم سلویٰ کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں۔
اگرچہ مفسرین نے اسے شہد کے ہم معنی لیا ہے لیکن دوسر ے تقریبا مفسرین نے اسے پرندہ کی ایک قسم قرا ر دیاہے ۔ یہ پرندہ اطراف اور مختلف علاقو ں سے کثرت سے اس علاقے میں آتا ہے اور بنی اسرائیل اس کے گوشت سے استفادہ کرتے ہیں عہدین پرلکھی گئی تفسیر میں بھی اس نظریئے کی تائید دکھائی دیتی ہے اس میں لکھاہے ۔
معلوم ہونا چاہیئے کہ بہت بڑی تعداد میں سلو ی افریقہ سے چل کر شمال کو جاتے ہیں۔جزیرہ ٴکاپری میں ایک فصل میں ۱۶ہزار کی تعداد میں انکا شکار کیا گیا ۔یہ پرند ہ بحیرہٴ قلزم کے راستے سے آتاہے خلیج عقبہ اورسویز کو عبو رکرتا ہے ۔ ہفتے کو جزیرہ سینا میں داخل ہو تا ہے ا ور راستے میں اس قدر تکان وتکلیف جھیلنے کی و جہ سے آسانی سے ہاتھ پکڑا جاسکتا ہے اور جب پرواز کرتا ہے توزیادہ تر زمین کے قریب ہوتاہے اس حصے کے متعلق ( تورات کے)سفرا خروج اور سفراعداد میں گفتگو ہو ئی ہے 3
اس تحریر سے بھی واضح ہوتا ہے کہ سلوی سے مراد وہی پرگوشت پرندہ ہے جو کبو تر کے مشابہ اور اس کے ہم وزن ہوتاہے اوریہ پرند ہ اس سرزمین میں مشہور ہے ۔البتہ بنی اسرائیل کی سرگردانی کے دنو ں میں ان پر یہ خداکا خاص لطف وکرم تھا کہ یہ پرند ہ وہا ںکثرت سے ہو تا تھا تا کہ و ہ اس سے استفادہ کرسکیں


 

۱مفرد ات را غب مادہ من
2-قامو س کتاب مقدس ص ،۶۱۲
3- قاموس کتاب مقدس ،ص۴۸۳

 ”انزلنا“کیوں کہا گیا :آزاد ماحو ل کی زندگی:
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma