فرعونیوں کے چنگل سے بنی اسرائیل کے نجات پانے کا ایک اجمالی اشارہ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 01
تاریخ بنی اسرائیل کے ایک بھر پور واقعے کے ایک پہلو کی طرف اشارہ کیا گیا ہے  قرآن نے بیٹیوں کو زندہ رکھنے اور بیٹوں کے سر کاٹنے کو عذاب قرار دیا ہے

گذشتہ آیت میں فرعونیوں کے چنگل سے بنی اسرائیل کے نجات پانے کا ایک اجمالی اشارہ موجود تھا اور محل بحث آیت در اصل اس کی وضاحت کرتی ہے کہ یہ نجات انہیں کس طرح ملی تھی جو خود ایک نشانی ہے اور پروردگا ر کی بنی اسرائیل پر عظیم نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔
فرمایا گیا ہے : یاد کرو اس وقت کو جب ہم نے تمہارے لئے دریا کو شق کیا( واذ فرقنا بکم البحر ) تمہیں نجات دی اور فرعونیوں کو غرق کیا جب کہ تم دیکھ رہے تھے ( فانجیناکم و اغرقنا اٰل فرعون وانتم تنظرون
فرعونیوں کی دریا میں غرقابی اور بنی ا سرائیل کی ان کے چنگل سے نجات کا ماجرا قرآن کی متعدد سورتوں میں ہے منجملہ ان کے اعراف آیہ ۱۳۶، انفال آیہ ۵۴ ، اسراء آیہ ۱۰۳ ، شعراء آیہ ۶۶ ، زخرف آیہ ۵۵ اور دخان آیہ ۱۷ سے بعد تک ۔
ان سورتوں میں اس واقعے کی تقریباََ تمام جزئیات کی تشریح کی گئی ہے لیکن مورد بحث آیت میں بنی اسرائیل پر خدا کی نظر رحمت و لطف کے لئے اور انہیں اسلام کی طرف دعوت دینے کے لئے جو نیا نجات بخش آئین ہے صرف اشارہ کیا گیا ہے ۱۔
جیسا کہ تفصیل کے ساتھ اس واقعہ کو آپ ان سورتوں میں پڑھیں گے کہ حضرت مو سٰی ایک مدت سے تبلیغ کرنے ، فرعون اور فرعونیوںکو دعوت دینے ، قسم قسم کے معجزات دکھانے اور ان کے قبول نہ کرنے پر مامور ہوئے کہ آدھی رات کے وقت بنی اسرائیل کو لے کر کوچ کر جائیں جب وہ عظیم دریائے نیل کے کنارے پہنچے تو اچانک دیکھا کہ فرعون اور اس کا لشکر ان کے پیچھے آرہا ہے ، بنی اسرائیل اضطراب و وحشت میں گھر گئے ۔ ان کے سامنے دریا اور غرقابی تھی اور پشت پر فرعون کا طاقت ور لشکر جس کے مقابلے کی ان میں طاقت نہ تھی ۔ یہ وہ مقام ہے جہاں حضرت موسٰی کو حکم ہوتا ہے کہ وہ عصا دریا پر ماریں ۔ دریا میں مختلف راستے پیدا ہوجاتے ہیں اور بنی اسرائیل کی جمعیت دریا کی دوسری طرف پہنچ جاتی ہے ۔ ادھر سے لشکر مخالف جو ان کا مسلسل پیچھا کر رہا تھا سارے کا سارا دریا میں داخل ہوجاتا ہے دریا کا پا نی مل جاتا ہے اور وہ سب کے سب ہلاک ہوجاتے ہیں لشکر فرعون کے مردوں کے بدن پانی پر تیرنے لگتے ہیں اور بنی اسرائیل اپنی آنکھون سے دیکھتے ہیں کہ دشمن پانی میں غرق ہوگیا
۔ وہ حالت اضطراب و وحشت وہی یہ نجات ہر دو  غور و طلب امور ہیں کہ انسان اس راحت و آرام کو جب اضطراب کے بعد دیکھے تو خدا کا شکر ادا کرے ۔
قرآن کہتا ہے کہ یہودیوں سے کہے کہ ہم نے جو تم پر اس قدر لطف وکرم کیا ہے اور تم کو اس وحشت و اضطراب سے رہائی بخشی ہے تو کیوں تم رسول اسلام اور ہمارے دستور احکام کی مخالفت کرتے ہو ۔
اس آیت میں انسانوں کے لئے درس ہے کہ وہ زندگی میں خد ا پر بھروسہ کریں اور اس قوت لازوال پر اعتماد رکھیں اور صراط مستقیم میں کسی سعی و جستجو سے پیچھے نہ رہیں تو سخت ترین مواقع اور مشکلات میں خدا وند عالم ان کا یارومددگار ہوگا اور انہیں نجات دے گا ۔
۵۱۔ و اذ وٰعدنا موسٰی ا ربعین لیلة ثم اتخذ تم العجل من بعد ہ و انتم ظٰلمون
۵۲ ۔ثم عفونا عنکم من بعد ذٰلک لعلکم تشکرون
۵۳۔ و اذاٰتینا موسی الکتاب والفرقان لعلکم تھتدون
۵۴۔ و اذ قال موسی لقومہ یٰقوم انکم ظلمتم انفسکم باتخاذکم العجل فتوبو ا الی بارئکم فاقتلو ا انفسکم ط ذٰلکم خیر لکم عند بارئکم ط فتاب علیکم ط انہ ھو التواب الرحیم
ترجمہ
۵۱۔اور (یاد کرو اس وقت کو جب ہم نے موسٰی سے چالیس را توں کا وعدہ کیا ( اور وہ تم سے جدا ہوکر چالیس راتوں کے لئے وعدہ گاہ پر احکام لینے کے لئے آیا ) پس تم نے بچھڑے کو اپنے معبود کی حیثیت سے ) منتخب کرلیا ۔ حالانکہ اس کام سے تم اپنے ہی اوپر ظلم کر رہے تھے ۔
۵۲۔ پھر ہم نے اس کام کے بعد تمہیں بخش دیا کہ شاید تم اس نعمت کا شکر کرو ۔
۵۳۔ نیز ( یاد کرو اس وقت کو ) جب ہم نے موسٰی کو کتاب دی جو حق و باطل کی تشخیص کا ذریعہ تھی کہ شاید تم ہدایت حاصل کرو ۔
۵۴۔ اور( وہ وقت بھی جب ) موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اے قوم تم نے بچھڑے کا انتخاب کرکے اپنے اوپر ظلم کیا ہے ۔
توبہ کرو اور اپنے پیدا کرنے والے کی طرف لوٹ آؤ اور اپنے نفسوں کو قتل کرو ۔تمہارے پروردگار کی بارگاہ میں یہ کام تمہارے لئے بہتر ہے پھر خدا نے تمہاری توبہ قبول کرلی ۔ کیونکہ وہ تواب و رحیم ہے۔

 


 

۱ مزید شرح تفسیر نمونہ کی جلد ۷ ، سورہ طٰہ اایت ۷۷ کے ذیل میں مطالعہ کریں ۔

 

تاریخ بنی اسرائیل کے ایک بھر پور واقعے کے ایک پہلو کی طرف اشارہ کیا گیا ہے  قرآن نے بیٹیوں کو زندہ رکھنے اور بیٹوں کے سر کاٹنے کو عذاب قرار دیا ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma