شرائط شفاعت :

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 01
احادیث اسلامی اور شفاعت :مدارک شفاعت :

 خلاصہ یہ ہے کہ آیات شفاعت وضاحت سے نشان دہی کرتی ہیں کہ اسلام کی نظرمیں مسئلہ شفاعت کوئی بے ضابطہ اور بلا شرط موضوع نہیں ہے بلکہ اس کی قیود وشرئط ہیں ایک طرف یہ اس کے جرم کے لحاظ سے ہیں جس کے بارے میں شفاعت ہو نی ہے اور دوسری طرف اس شخص کے بارے میں جس کی شفاعت کی جانی ہے تیسر ے اس شخص کے بارے میں شرائط ہیںجس نے شفاعت کرنی ہے یہ سب چیزیں مل کر شفاعت کے اصلی رخ اور اس کے فلسفہ کو واضح کرتی ہیں ۔مثلاََ ظلم وستم جیسے گناہ شفاعت کے دائر ے سے بالکل خارج کر دیئے گئے ہیں ۔اور قر آن کہتا ہے کہ ظالمو ں کے لئے کو ئی شفیع مطاع نہیں ہے اب اگر ظلم اس کے وسیع معنی ٰکے لحاظ سے تفسیر کی جائے تو پھر شفاعت ان مجرمین کے لئے منحصر ہوگی جو اپنے جرم پر نادم وپشیمان ہوں اور اس کے ازالے اور اصلاح کی راہ پر گامزن ہوں جیسا کہ بعض احادیث کے حوالے سے بیان ہوگا ۔اس صورت میں شفاعت توبہ اور گناہ پر ندامت کے عمل میں ایک مدد گار کا کردار ادا کرے گی (اور یہ جو بعض تصور کر تے ہیں کہ ندا مت اور توبہ کے ہوتے ہو ئے شفاعت کی ضرورت نہیں یہ ان کا اشتبا ہ ہے جس کی وضاحت ہم عنقریب کریں گے )۔ایک سورہ انبیا ء آیہ ۲۸کے مطابق صرف وہ لوگ شفاعت کے ذریعہ بخشے جا ئیں گے جو مقام ارتضی تک پہنچے ہو ںگےاور دوسری طرف سورہ مریم آیہ ۸۷کے مطابق جو عہد الٰہی کے حامل ہوںگے۔یہ دوعناوین جیسا کہ ان کے لغوی مفہوم سے ا جما لاََاوراس سلسلے کی رو ا یت سے تفصیلاََظاہرہو تاہے یہ معنیٰ رکھتے ہیںکہ انسان کا خدا ، حساب ومیزان اور سزاوعذاب پر ایمان ہو ، نیک اعمال کو اچھااور برے اعمال کو برا سمجھتا ہو اور تمام کے درست یعنی من اللہ ہو نے کی گواہی دیتا ہو اگر ایسا ایمان انسان کی فکر ونظر اور زندگی سے ظاہر ہوتاہوجس کی نشانی یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو ان ظالمین اور سرکش لوگو ں سے ممتاز کرے جواسلام کی کسی مقدس اصل پرایمان نہیں رکھتے اور اپنے پروگراموں پر تجدید نظر کرے تو پھر وہ شفاعت کا اہل ہوتاہے
سورہ نساء کی ۶۴ میں شفاعت کرنے کے زیر سایہ گناہوں کی بخشش کے بارے میں یوںارشاد ہوتا ہے:
ولو انھم اذظلمواانفسھم جاء وک فاستغفرااللہ واستغفرلھم الرسول لوجدواللہ توابارحیما
اور اگر وہ اپنے آپ پر ظلم کر بیٹھے تھے تو آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے ،بارگاہ الٰہی میں توبہ واستغفار کرتے اورپھر ہمارا رسول بھی ان کے لئے عفو ودرگزرکی سفارش کرتا توو ہ دیکھتے کہ اللہ توبہ قبول کرکے رحم فرمانے والاہے
اس آیت میں خود مجرمین کی توبہ استغفار کو پیغمبرکی طرف سے مغفرت کی سفارش کا مقدمہ قراردیا گیاہے ۔
سورہ یوسف کی آیت ۹۷ و۹۸ میں ہے
قالویاابانااستغفرلناذنوبنااناکنا خاطئین قال سوف استغفرلکم ربی ط انہ ھو الغفورالرحیم
انہوں نے اپنے باپ کی خدمت میں عر ض کی کہ اللہ کے حضور ہماری مغفرت کی دعا کریں اور ہم اپنے خطاکار ہو نے کے معترف ہیں ۔انہوں نے کہا کہ میں جلدی ہی اپنے پروردگار سے تمہاری مغفرت طلب کروںگا بیشک وہ بخشنے والا مہربان ہے۔
ان آیات میں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ برادران یوسف نے باپ سے سفارش کے تقاضے سے قبل گناہ پر ندامت و پشیمانی کا اظہار کیا ۔
سورہ مومن ، آیہ ۷ فرشتوں کی شفاعت کے بارے میں ہے کہ ان کی استغفار اور شفاعت صرف با ایمان راہ خدا کے پیرو کار اور حق کی اتباع کرنے والے لوگوں کے لئے ہے:
و یستغفرون للذین آمنو ا ربنا وسعت کل شیء رحمة و علما فاغفر للذین تابو ا و اتبعوا سبیلک وقھم عذاب الجحیم
اب پھر یہاں یہ سوال پیدا ہوگا کہ توبہ کرنے ، سبیل الٰہی کی اتباع کرنے اور اس راہ پر قدم رکھنے کے باوجود شفاعت کی کیا ضرورت ہے ۔اس سوال کا جواب ہم حقیقت ِ شفاعت کی بحث میں دیں گے ۔
شفاعت کرنے والوں کے لئے بھی اس شرط کا ذکر کیا گیا ہے کہ وہ حق کے گواہ ہونے چاہیئیں :
الا من شھد بالحق (زخرف۔ ۸۶)
اس لحاظ سے ضروری ہے کہ جن کی شفاعت ہونا ہے وہ شفاعت کرنے والے سے ربط اور تعلق بر قرار رکھیں اور وہ ربط ہے قول و فعل سے حق کی طرف متوجہ ہونا جو خود اصلا َ اور راہ حق میں تمام صلاحیتیں صرف کرنے کے لئے ایک عامل ہے
 

احادیث اسلامی اور شفاعت :مدارک شفاعت :
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma