دوسروں کو نصیحت خود میاں فضیحت

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 01
(۱)  لقاء اللہ سے کیا مراد ہے اس کا جواب یہ ہے

اگرچہ مندرجہ بالا آیات اسی طرح گذشتہ اور آئندہ آیات میں روئے سخن بن اسرائیل کی طرف ہے لیکن مسلماََ اس کا مفہوم وسعت کے اعتبار سے دوسروں کے بھی شامل حال ہے۔
مشہور مفسر ۔ صاحب مجمع البیان ، طبرسی کے بقول یہود کے علماء و فضلاء حضرت محمد کی بعثت سے پہلے آپ پر ایمان لانے کی دعوت اور آپ کے ظہور کی بشارت دیا کرتے تھے لیکن خود انہی نے آنحضرت کے ظہور کے وقت ایمان لانے سے انکار کردیا ۔یہی عظیم مفسر نقل کرتے ہیں کہ علماء یہود اپنے ان وابستگان کو جو اسلام لاچکے تھے نصیحت کیا کرتے تھے کہ اپنے ایمان پر باقی اور ثابت قدم رہنا لیکن خود ایمان نہ لاتے تھے ۔
یہ وجہ ہے کہ زیر بحث آیات میں سے پہلی آیت میں ان کے اس طرز عمل کی مذمت کی گئی ہے کہا گیا ہے :کیا تم لوگوں کو نیکی کی دعوت دیتے ہو اور اپنے نفسوں کو بھول جاتے ہو ( اتا مرون الناس بالبر وتنسون انفسکم )
باوجود یکہ آسمانی کتاب ( تورات ) کا مطالعہ کرتے ہو لیکن کیا کچھ بھی عقل و فکر سے کام نہیں لیتے ہو ( و انتم تتلون الکتاب افلا تعقلون
اسی طرح قرآن انہیں سرزنش کرتا ہے دوسروں کو ایمان کی وصیت کیوں کرتے ہو جب خود ایمان نہیں لاتے ہو حالانکہ پیغمبر کی نشانیاں اور خوصوصیات توریت میں پڑھ چکے ہو ۔
علماء مبلغین اور راہ حق کی طرف دعوت دینے والون کے لئے خاص طور پر یہ بنیادی بات ہے کہ وہ باقی لوگوں کی نسبت زیادہ تر اپنے عمل سے تبلیغ کریں جیسے کہ حضرت ا،مام صادق سے ایک مشہور روایت ہے :
کونو ا دعاة الناس باعمالکم ولا تکونو ا دعاة بالسنتکم
لوگوں کو عمل سے دعوت دو نہ کہ زبان سے ۔ ۱
عملی دعوت کی گہری تاثیر کا سر چشمہ یہ ہے کہ اگر سننے والے کو معلوم ہوجائے کہ کہنے والا دل سے بات کر رہا ہے اور خود اپنے قول پر سو فی صد ایمان رکھتا ہے ، اس کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ خود اس پر دوسروں سے پہلے عمل کرتا ہے جیسے کہ حضرت علی فرماتے ہیں :
ایھا الناس انی واللہ ما احثکم علی طاعة الا و اسبقکم الیھا ولا انھا کم عن معصیتہ الا و اتنھا ھا قبلکم عنھا ۔
اے لوگوں ----!خدا کی قسم میں تمہیں کسی اطاعت کا شوق نہیں دلاتا جب تک پہلے خود اسے انجام نہ دے لوں اور کسی غلط کام سے تمہیں منع نہیں کرتا مگر یہ کہ پہلے خود اس سے روکتا ہوں ۔
امام صادق سے ایک روایت میں ہے :
من اشد الناس عذابا یوم القیامة من وصف عدلا و عمل بغیرہ
وہ لوگ جن پر قیامت کے دن سخت عذاب ہوگا ان میں سے ایک وہ ہوگا جو حق اور عدل کی بات کرتا ہے لیکن خود اس کے خلاف عمل کرتا ہے ۔2  
یہودی علماء اس بات سے ڈرتے تھے کہ اگر پیغمبر اسلام کی رسالت کا اعتراف کرلیں گے تو ان کی مادی امداد منقطع ہو جائے گی اور یہودی عوام ان کی پرواہ نہیں کریں گے لہذا تورات میں پیغمبر اسلام کی جو صفات آئی تھیں انہوں نے ان میں رد و بدل کردیا اس مقصد کے لئے کہ وہ اپنے دلی میلان کی طرف قدم بڑھا ئیں اور سر براہی و سرداری کو دماغ سے نکال دیں قرآن کہتا ہے :
صبر اور نماز سے استعانت حاصل کرو یعنی استقامت اور اپنی نفسانی خواہشات پر کنٹرول کے ذریعہ کامیابی حاصل کرو ( واستعینو بالصبر والصلوٰة
اس کے بعد کہتا ہے کہ یہ کام خاشعین کے علاوہ دوسروں پر گراں ہے ( و انھا لکبیرة الا علی الخاشعین
زیر بحث آیات میں سے آخری آیت خاشعین کا یوں تعارف کراتا ہے ( الذین یظنون انھم ملٰقو ا ربھم و انھم الیہ را جعون 3

  یظنون “جس کا مادہ ” ظن “ ہے کبھی ”گمان “اور کبھی یقین کے معنی میں آتا ہے ۔اس مقام پر یقینا ایمان اور قطعی یقین کے معنی میں ہے کیونکہ لقاء اللہ اور اس کی طرف باز گشت پر ایمان رکھناانسان کے دل میں خشوع ، خدا ترسی اور ذمہ داری کا احساس زندہ کردیتا ہے اور یہ ایک ایسے معاد پر ایمان رکھنے کا نتیجہ ہے جو تربیت اور نشو ونما کا باعث ہے جو ہر جگہ انسان کے سامنے اس بڑی عدالت کے دربار کی تصویر کشی کرتا ہے اور یہ ذ مہ داریوں کو ادا کرنے اور حق و عدالت کی راہ اختیار کرنے کی دعوت دیتا ہے ۔
یہ بھی احتمال ہے کہ یہاں ”ظن “ گمان کے معنی میں ہو اور در حقیقت ایک قسم کا مبالغہ اور تاکید ہو کہ اگر بالفرض انسان اس عدالت عظمٰی پر ایمان نہیں رکھتا اور صرف اس کے ہونے کا گمان رکھتا ہے تو بھی اس کے لئے کافی ہے کہ ہر قسم کی غلط کاری سے پرہیز کرے ۔ در حقیقت یہ علماء یہود کو ایک قسم کی سرزنش ہے کہ تمہارا ایمان صرف ظن و گمان کے درجہ تک بھی ہو پھر بھی تمہیں ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اس قسم کی تحریف سے دست کش ہوجانا چاہیئے ۔


 

۱ سفینہ ، مادہ ” عمل “ ۔(۲)نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۵۷
(2 ) تفسیر نور الثقلین ، ج۱، ص ۷۵
(3) راغب نے مفردات میں کہا ہے ”ظن “ نام ہے اس اعتقاد کا جو دلیل اور قرینہ سے حاصل ہو یہ اعتقاد کبھی قوی ہوتا ہے اور درجہ یقین تک پہنچ جاتا ہے اور کبھی کمزور ہوتا ہے جو گمان کی حد سے آگے نہیں بڑھتا۔’



 

(۱)  لقاء اللہ سے کیا مراد ہے اس کا جواب یہ ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma