بہشت کی نعمات کی خصوصیات

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 01
(۱)ایمان وعمل : یہاں ضروری ہے چند جملے بڑے لوگوں کے

چونکہ گذشتہ بحث کی آخری آیت میں کفار اور منکرین قرآن کو دردناک عذاب کی تہدید کی گئی ہے لہذا زیر نظر آیت میں مومنین کی سر نوشت کا تذکرہ ہے تاکہ قرآن کے روش اور طریقہ کے مطابق دونوں کے مدمقابل ہونے سے حقیقت زیادہ روشن ہو تی رہے۔
پہلے کہتا ہے کہ ان افراد کو جو ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے اعمال صالح انجام دیئے ہیں بشارت دے دو کہ ان کے لئے بہشت کے باغ ہیں جن کے درختون کے نیچے نہریں جاری ہیں (وبشر الذین امنو اوعملوا الصالحات ان لھم جنات تجری من تحتھا الانھار
ہم جا نتے ہیں کہ و ہ باغا ت جہاں ہمیشہ پانی نہیں ہوتا بلکہ باہر سے پانی لاکر انہیں سیراب کیا جاتا ہے ان میں زیادہ طراوت نہیں ہوتی ۔ ترو تازگی تو اس باغ میں ہو تی ہے جس کے لئے پانی کا اپنا انتظام ہو اور پانی اس سے کبھی منقطع نہ ہوتا ہو ،ایسے باغ کو خشک سالی اور پانی کی کمی کاخطرہ نہیں ہو تا اور بہشت کے باغات اسی طرح کے ہیں ۔
اس کے بعد باغوںکے گوناگوں پھلوںکے بارے میں کہا ہے ہر زمانے میں ان باغوںکے پھل انہیں دیئے جائیں گے تو وہ کہیں گے یہ تو و ہی ہے جو اس سے پہلے دیا گیا ہے (کلما رزقوا منھامن ثمرةرزقاََقالواھذاالذی رزقنامن قبل
مفسرین نے اس جملہ کی کئی تفسیریںبیان کی ہیں۔بعض کہتے ہیں اس کامقصد یہ ہے کہ نعمات ان اعمال کی جزاہیں جنہیں ہم پہلے دنیا میں انجام دیئے چکے ہیں اور موضوع پہلے سے فراہم شدہ ہے ۔
بعض کہتے ہیں کہ جس وقت جنت کے پھل دوبارہ ان کے لیئے لائیں جائیں گے تو وہ کہیں گے کہ یہ تو وہی میوہ ہیں جو ہم پہلے کھاچکے ہیں لیکن جب ا سے کھائیں گے تو وہ دیکھیں گے کہ ان کا ذائقہ نیا اور لذت تازہ ہے ۔مثلاََ سیب اور انگور جو اس دنیا میں کھاتے ہیں ہر دفعہ وہی پہلے والا ذائقہ محسو س کرتے ہیں لیکن جنت کے میوے جس قدربھی ظاہراََ ایک قسم کے ہو ں ہر دفعہ ایک نیا ذائقہ دیں گے اور یہ جہاںکی خصوصیات میں سے ہے ۔
کچھ اور حضرات کے نزدیک اسکا مقصد یہ ہے کہ جنت کے میووں کو دیکھیں گے تو انہیں دنیا کے میووںسے مشابہ پائیں گے تاکہ نامانوسی کا احساس نہ ہو لیکن جب کھائیں گے تو ان میں تازگی اور بہتر ین ذائقہ محسوس کریں گے ۔
بعید نہیں کہ آیت میں ان تمام مفاہیم تفاسیر کی طرف اشارہ ہو کیونکہ قرآ ن کے الفاظ بعض اوقات کئی معنی کے حامل ہو تے ہیں (۱)
اس کے بعد قرآن مزید کہتا ہے ان کے لئے ایسے پھل پیش کئے جائیں گے جو ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہو گے (واتوابہ متاشابہاََ) یعنی وہ سب خوبی اور زیبا ئی میں ایک جیسے ہو ں گے وہ ایسے اعلی درجہ کے ہو ں گے کہ انہیں ایک دوسرے پر ترجیح نہ دی جاسکے گی ۔یہ اس دنیا کے میووں سے بر عکس بات ہوگی جہاں بعض کچے ہوتے ہیں اور بعض زیادہ پک جاتے ہیں ۔بعض کم رنگ اور کم خو شبو ہو تے ہیں اور بعض خشبو رنگ ،خوشبو دار اور معطر ہو تے ہیں ۔لیکن جنت کے باغات کے میوے ایک سے بڑھ کر ایک خشبو دار ،ایک سے ایک میٹھا اور ایک سے ایک بڑھ کرجاذب نظر اورزیبا ہوگا ۔
اور آخر میں جنت کی جس نعمت کا ذکر کیا گیا ہے وہ پاک پاکیزہ بیویاں ہیں ۔فرمایا :ان کے لئے جنت میں مطہر وپاک بیویاں ہیں (ولہم فیھا ازواج مطھرہ )یہ ان تمام آلا ئشوں سے پاک ہو ں گی جو اس جہان میں ممکن ہے ان میں ہوں ۔گویا روح و دل پر نگاہ کریں تو پاک اور جسم وبدن پر نگاہ ڈالیںتو پاک ۔
دنیا کی نعمات جو مشکلا ت ہیں ان میںسے ایک یہ ہے کہ جس وقت انسان کسی نعمت سے سر فراز ہوتا ہے اس وقت اس کے زوال کی فکر بھی لاحق رہتی ہے اور اس کا دل پریشان ہو جاتا ہے ،اسی بناء پر یہ نعمتیں کبھی بھی اطمینان بخش نہیں رہتیں ۔لیکن جنت کی نعمتیں چونکہ ابدی اور جاودانی ہیں ان کے لئے فنا اور زوال نہیں ہے ۔لھٰذا وہ ہر جہت سے کامل اور اطمینان بخش ہیں اس کے آخر میںفرمایا ؛موٴمنین ہمیشہ ہمیشہ ان باغات بہشت میں رہیں گے ۔(وہم فیہا خلدون


 

(۱) لفظ کے ایک سے زیادہ معانی میں استعمال کی بحث میں ہم نے ثابت کیا ہے

(۱)ایمان وعمل : یہاں ضروری ہے چند جملے بڑے لوگوں کے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma