جب اصلی کامیابی آن پہنچے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونه جلد 27
فتح مکہّ میں اسلام کی عظیم ترین فتح: اس سورہ کی تلاوت کی فضیلت

اس سورہ کی پہلی آیت جس میں فر ماتا ہے:”جس وقت خدا کی مدد اور کامیابی آن پہنچے“۔(اذا جاء نصر اللہ والفتح)”اور تو دیکھے گا کہ لوگ گروہ در گروہ خدا کے دین میں داخل ہو رہے ہیں“( و رایت الناس ید خلون فی دین اللہ افواجا)۔ تو اس عظیم نعمت اور اس کا میابی ااور نصرتِ الٰہی کے شکرانے کے طور پر اپنے پر ور دگار کی تسبیح اور حمد بجا لاوء اور اس سے بخشش طلب کرو کہ وہ بڑا ہی تو بہ قبول کرنے والا ہے۔
(فسبح بحمد ربک واستغفرہ انہ کان توابا)
ان تین مختصر اور پر معنی آیات میں بہت سے ایسے نکات ہیں جن میں غور کرنے سے اس سورہ کے اصلی ہدف کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے
۱۔پہلی آیت میں”نصرت“ کی اضافت”خدا “کی طرف ہوئی ہے(نصر اللہ) صرف یہی ایک جگہ نہیں ہے کہ جہاں یہ اضافت نظر آرہی ہے، بلکہ قرآن کی بہت سی آیات میں یہ معنیٰ منعکس ہے منجملہ ان کے سورہ بقرہ کی آیة۲۱۴ میں آیا ہے( الا ان نصراللہ قریب)” جان لو کہ خدا کی مدد قریب ہے“۔
اور سورہ آلِ عمران کی آیة۱۲۶ اور انفال کی آیة۱۰ میں آیا ہے۔(وما النصر الا من عند اللہ)” نصرت تو صرف خداہی کی طرف سے ہوتی ہے“۔
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نصرت و کامیابی ہر حال میں خدا کے ارادہ سے ہی ہو تی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ دشمن پر غلبہ حا صل کرنے کے لیے توا نا ئیوں کو مجتمع کرنا اورقدرت وطا قت مہیا کرنا ضروری ہے، لیکن ایک موّ حد آدمی نصرت کوخدا ہی کی طرف سے سمجھتا ہے اور اسی بناء پر کامیابی کی صورت میں مغرور نہیں ہوتا بلکہ اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے۔
۲۔اس سورہ میں پہلے نصرتِ الٰہی، پھر فتح و کامرانی اور اس کے بعد اسلام کے نفوذ ووسعت اور لوگوں کے خدا کے دین میں گروہ در گروہ داخل ہونے کی بات کی گئی ہے۔ یہ تینوں ایک دوسرے کی علّت ومعلول ہیں۔ جب تک خدا کی نصرت اور مدد نہ ہو، فتح و کامیابی حا صل نہیں ہوتی اور جب تک فتح و کامیابی حا صل نہ ہو اور راستہ کی رکاوٹیں دور نہ ہوں،لوگ گروہ در گروہ مسلمان نہیں ہوتے ۔البتہ ان تین مرحلوں کے بعد، جن میں سے ہر ایک بہت بڑی نعمت ہے،چو تھا مرحلہ شکر اور حمد وستا ئش الٰہی کا آتا ہے۔اور دوسری طرف سے خدائی نصرت اور کامیابی اس لیے ہے کہ اصل ہدف یعنی لوگوں کاخد ا کے دین میں داخل ہونا اور عمومی ہدا یت صورت پذیر ہو۔
۳۔”فتح“ یہاںمطلق صورت میں بیان ہوا ہے اور ا ن قرا ئن کی بناء پر جن کی طرف ہم نے پہلے اشارہ کیا ہے، اس سے مُرادفتح مکہّ ہے،جس کا ایسا ہی ردِّ عمل ہواتھا اور وا قعاََ فتح مکہّ نے تاریخ اسلام میں ایک نئی فصل کا اضافہ کیا، کیو نکہ اس سے شرک کا اصلی مرکز تباہ و بر باد ہو گیا، بت توڑ دیے گئے اور بت پرستو ں کی امید مایو سی اور نا امیدی میں تبدیل ہو گئی، او ر لوگوں کے لیے اسلام پر ایمان کے راستے میں جو رو کاوٹیں تھیں وہ ہٹ گئی اسی بنا ء پر فتح مکہّ کوجز یرہ العرب میں اور اس کے بعد ساری دنیا میں اسلام کے ثبات واستقرار کا مر حلہ سمجھنا چا ہیئے۔
اور اسی لیے مشرکین کی جا نب سے فتح مکہّ کے بعد( سوائے ایک مو قع کے جس کی جلدی ہی سر کو بی ہو گئی) کسی قسم کا مقا بلہ نظر نہیں آیا او ر لوگ تمام علا قوں سے اسلام قبول کر نے کے لیے پیغمبر کی خد مت میں آئے تھے
۴۔تیسری آیت کے ذیل میں پیغمبر اکرم کو (اور طبعاََ سب مومنین کو) تین اہم حکم دیتا ہے جو حقیقت میں اس عظیم کا میابی کاشکرانہ اور نصرتِ الٰہی کے مقابلہ میں ایک مناسب عکس العمل ہے اور اوہ تسبیح،حمد اور استغفار کا حکم ہے
”تسبیح“ کا معنی خدا کو ہر قسم کے عیب و نقص سے منزّ ّ ہ سمجھنا ہے”حمد“صفاتِ کما لیہ کے ساتھ اس کی تو صیف و تعریف کرنا ہے،اور”استغفار“ بندوں کی کو تا ہیوں اور تقصیروں کو ظاہرکرتا ہے۔ یہ عظیم کامیابی اس باتکا سبب بنی ہے کہ شرکاآلودہ افکار میں کمی ہو،خدا کا کمال و جمال زیادہ سے زیادہ ظاہر ہو اور راستہ سے بھٹکے ہوئے لوگ حق کی طرف لو ٹ آئیں۔
یہ فتح عظیم سبب بنی ہے کہ لوگ یہ گمان نہ کریں کہ خدا اپنے اولیاء اور دوستوں کو تنہا چھوڑ دیتا ہے
(اس نقص سے پا کیز گی) اور وہ یہ بھی جان لیں کہ خدا اپنے وعدوں کے انجام دینے پر توانا ہے(اس کمال سے مو صوف ہو نا) اور بندے بھی اس کی عظمت کے مقابلہ میں اپنے نقص کا اعتراف کریں۔
اس کے علاوہ ممکن ہے کہ انسان میں کامیابی کے وقت غیر مطلو ب ر دِّعمل پیدا ہو جائے اوروہ”غرور و تکبرّ اورخود کو برتر سمجھنے“ میں مبتلا ہو جائے یا دشمن سے”انتقام لینے اور ذاتی حساب چکانے“ کی طرف ہاتھ بڑھائے۔ یہ تینوں احکام ا سے ا س بات کی تعلیم دیتے ہیں کہ وہ کامیابی کے حساّس لمحات میں خدا کی صفاتِ جلال وجمال کی یاد میں رہیں،سب چیزوں کو اس کی طرف سے سمجھے اور استغفار میں مشغول ہو جائے تاکہ غرور و غفلت بھی اس سے زائل ہو اور وہ جذبہ انتقام سے بھی دور رہے
۵۔مسلمہ طور پر پیغمبر اسلام تمام انبیاء کی طرح” معصوم“تھے، پس یہ استغفار کا حکم کس لیے ہے؟
اس سوال کے جواب میں ہمیں یہ کہنا پڑے گا کہ یہ توساری امت کے یے ایک نمونہ و اسوہ اور دستور العمل ہے کیو نکہ:
اولاََ: اس طولانی مبارزہ کے طویل زمانہ میں، جو بہت زیادہ سالوں تک جاری رہا(تقریباََ بیس سال) اور مسلمانوں نے بہت سخت اور درد ناک دن گزارے،بعض اوقات تو حاد ثات ایسے پیچیدہ ہو جاتے تھے کہ جانیں لبوںتک پہنچ جاتی تھیں اور بعض لوگوں کے افکار میں خدائی وعدوں کے بارے میںبُرے گمان پیدا ہو جاتے تھے، جیسا کہ قرآن جنگ” احزاب“ کے بارے میں فرماتا ہے:وبلغت القلوب الحناجر وتظنون باللہ الظنون:”اور دل گلے تک آ گئے اور تم اللہ کے بارے میں(نا مناسب) گمان کر نے لگے۔(احزاب۱۰)
اب جب کہ کامیابی حاصل ہو گئی ہے تو وہ اس بات کو سمجھ گئے ہیں کہ وہ سب بد گما نیاں اور بے تا بیاں غلط تھیں، لہٰذا انہیں استغفار کر نا چا ہیئے
ثا نیاََ: انسان چا ہے جتنی بھی خدا کی حمدو ثنا کرے، پھر بھی وہ اس کے شکر کا حق ادا نہیں کر سکتا ، لہٰذا اُسے حمد و ثنا کے آخر میں اپنی تقصیر و کو تا ہی کی بناء پر” خدا کی بارگاہ میں“ استغفار کر نا چا ہیئے
ثا لثاََ: عام طور پرکا میابیوں کے بعد شیطانی وسوسے شروع ہو جاتے ہیںاور ایک طرف ” غرور“ اور دوسری طرف” تندورئی اور انتقام جوئی“ کی حالت پیدا ہو جاتی ہےلہٰذا اس موقع پر خدا کو یاد رکھنا چا ہیئے اور مسلسل استغفار کرتے رہنا چا ہیئے، تاکہ ان میں سے کوئی سی حالت بھی پیدا نہ ہو یا اگر پیدا بھی ہو تو بر طرف ہو جائے۔
رابعاََ: جیسا کہ ہم نے سورہ کے آغاز میں بیان کیا ہے اس کامیابی کا اعلان تقریباََ پیغمبر کی ما موریت کے اختتام اور آنحضرت کی عمر کے پورا ہونے اور لقائے محبوب کے لیے جانے کے اعلان کے معنی میں ہے اور یہ حالت”تسبیح و”حمد و”استغفار“ سے منا سبت رکھتی ہے اسی لیے روایات میں آیا ہے کہ اس سورہ کے نازل ہو نے کے بعدپیغمبر اکرم ا س جملہ کا بہت زیادہ تکرار فر ماتے تھے:
سبحانک اللھم وبحمدک، اللھم اغفرلی انک انت التواب الرحیم:”خدا وندا!تو پاک و منزّہ ہے ، اور میں تیری حمد و ثنا کرتا ہوں۔ خد وندا! مجھے بخش دے کہ تو بہت ہی تو بہ کو قبو ل کرنے والا اور مہر بان ہے
۶۔” انہ کان توابا“ کا جملہ مسئلہ استغفار کی علّت کا بیان ہے یعنی استغفار و تو بہ کر کیو نکہ خدا بہت ہی توبہ کو قبو ل کرنے والا ہے۔ ضمنی طور پر شاید اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ جب خدا تمہاری تو بہ کو قبول کر لیتا ہے تو تم بھی کا میابی کے بعد جہا ں تک ہو سکے کو تا ہی کرنے والو ں کی توبہ کو قبول کر لو۔ اور جب تک ان سے مخا لفت کا ارادہ یا سازش کے آثار ظاہر نہ ہوانہیں اپنے سے دور نہ کرولہٰذا۔ جیسا کہ ہم نے دیکھ لیا ہے۔ پیغمبر اکرم نے اس فتح مکہّ کے ما جرے میں شکست خوردہ کینہ ور دشمنوں کے مقا بلہ میں اسلامی رافت ورحمت کااعلیٰ ترین نمونہ پیش کیا ہے۔
یہ صرف پیغمبر اکرم ہی کی سیرت نہیں ہے کہ آپ دشمن پر آخری اور اصلی فتح حاصل کرنے کے مو قع پر تسبیح وحمد و استغفار میں مصروف ہو گئے، بلکہ سارے ہی انبیاء کی تا ریخ میں یہ مطلب اچھی طرح نمایاں ہے۔
مثلاََ حضرت ”یو سف“ علیہ السلام جب مصر کے تختِ حکو مت پر بیٹھے اور ایک طو یل جدائی کے بعد ان کے ماں باپ اور بھا ئی ان سے آکر ملے تو عرض کی: ربّ قد اتیتنی من الملک وعلمتی من تاویل الاحادیث فا طر السماوات والارض انت ولیّ فی الدنیا والآخرة تو فّنی مسلماَ والحقنی با لصالحین:
پرور دگار! تو نے حکومت کا ایک بڑا حصّہ مجھے دیا ہے اور تو نے مجھے خوا بوں کی تعبیر کا علم عطا کیاہے، تو ہی آسمان و زمین کو پیدا کر نے والا ہے اور تو ہی دنیا و آخرت میں میرا سر پرست ہے ۔ مجھے مسلمان کی حیثیت سے موت دینا اور صا لحین کے سا تھ ملحق کرنا“( یو سف۔۱۰۱)
پیغمبر خدا حضرت سلیمان علیہ السلام نے جب ملکہٴ سبا کے تخت کو اپنے سامنے حاضر دیکھا تو کہا:”ھذا من فضل ربیّ لیبلونی ء اشکرام اکفر“:”یہ میرے پرور دگار کے فضل سے ہے تا کہ وہ مجھے آزمائے کہ آیا میں اس کا شکر ادا کرتا ہوں یا کفرانِ نعمت کرتا ہوں“( نمل۔۴۰)
 

فتح مکہّ میں اسلام کی عظیم ترین فتح: اس سورہ کی تلاوت کی فضیلت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma