تفسیرابرھہ سے کہہ دو کہ وہ آنے میں جلدی نہ کرے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونه جلد 27
۱۔ ایک بے نظیر معجزہ ( اس گھر کا ایک مالک ہے )اصحاب فیل کی داستان

اس سورہ کی پہلی آیت میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے :”کیا تونے نہیں دیکھا کہ تیرے پروردگار نے اصحاب فیل کے ساتھ کیا سلوک کیا “؟ ( الم ترکیف فعل ربک باصحاب الفیل
وہ اپنی پوری قدرت و طاقت اور لشکر کے ساتھ آئے تاکہ خانہ خدا کو ویران و تباہ کردیں اور خدا نے ایک ایسے لشکر کے ساتھ، جو بظاہر بہت ہی چھوٹا اور بے حیثیت تھا، انہیں درہم بر ہم کردیا ۔ ہاتھیوں کو چھوٹے سے پرندوں کے ساتھ ، اور اس زمانہ کے ترقی یافتہ اسلحہ کو ” سجیل“ پتھریلی کنکریوں کے ساتھ بیکار کردیا تاکہ اس مغرور سر کش انسان کی کمزوری و ناتوانائی کو قدرتِ الٰہی کے مقابلہ میں ظاہر و آشکار کرے۔
الم تر ( کیا تونے نہیں دیکھا؟) کی تعبیر ، حالانکہ یہ حادثہ ایسے زمانہ میں رونما ہو اتھا کہ پیغمبر نے ابھی دنیا میں آنکھ نہیںکھولی تھی، یایہ آپ کی پیدائش سے قریب تر تھا، اسی وجہ سے مذکورہ حادثہ پیغمبر اکرم  کے زمانہ کے بہت ہی نزدیک تھا، اس کے علاوہ یہ اتنا مشہور اور متواتر تھا کہ گویا پیغمبر اپنے چشم مبارک سے اس کا مشاہدہ کیا ہوا تھا ، اور پیغمبر کے معاصرین میں سے ایک گروہ نے یقینی طور پر اسے اپنی آنکھ سے دیکھا تھا۔
” اصحاب الفیل “ کی تعبیر انہیں چند ہاتھیوں کی وجہ سے ہے جنہیں وہ اپنے ساتھ یمن سے لائے تھے تاکہ مخالفین کو مرعوب کریں ، او ر اونٹ اور گھوڑے انہیں دیکھ کر بدک جائیں اور میدان ِ جنگ میں نہ ٹھہر سکیں ۔ ۱
اس کے بعد مزیدیہ کہتاہے :کیا خدا نے ان کے منصوبہ کو خاک میں نہیں ملادیا“ ( الم یجعل کیدھم فی تضلیل
ان کا ارادہ یہ تھاکہ خانہ کعبہ کو تباہ کرڈالیں تاکہ یمن کے گرجے کو مرکزیت حاصل ہو اور قبائل عرب اس کی طرف متوجہ ہو جائیں ۔ لیکن وہ نہ صرف یہ کہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوئے تو بلکہ اس ماجرے نے جس کی شہرت تمام جزیرہ نمائے عرب میں پھیل گئی تھی۔ مکہ اور خانہ کعبہ کی عظمت کو اور چارچاندلگا دئے اور اس کے مشتاق دلوں کو پہلے سے بھی زیادہ اس کی طرف متوجہ کردیا اور شہر کو اور بھی زیادہ پر امن بنا دیا ۔
” تضلیل“ سے مراد ، جو وہی گمراہ کرنا ہے ، کہ وہ ہر گز اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوئے۔
اس کے بعد اس ماجرے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : ”خدانے گروہ درگروہ ہر طرف ہاتھیوں کے لشکر کی طرف آئے تھے۔
یہ لفظ جمع کے معنی دیتا ہے ، جس کا مفرد بعض نے ” ابابلہ“ یعنی پرندوں یاگھوڑوں یا اونٹوں کا گروہ سمجھا ہے اور بعض یہ کہتے ہیں کہ یہ ایک ایسی جمع ہے جس کی جنس کا مفرد نہیں ہے ۔
بہر حال ” طیر“ یہاں جمع کا معنی دیتا ہے، اور یہ دونوں الفاظ ” طیر “ و ابابیل“ مجموعی طور پر گروہ در گروہ پرندوں کے معنی میں ہے ( ایسا نہیں ہے کہ ابابیل ان پرندوں کا نام ہو)۔
اس بارے میںکہ یہ پرندہ کو ن سا پرندہ تھا  جیسا کہ ہم نے داستانوں کی تفصیل میں بیان کیا ہے  مشہور یہ ہے کہ وہ پرندے کوّے یا چیل کی طرح کے پرندے تھے جو بحر احمر کی راہ سے اٹھے تھے اور ہاتھیوںکے لشکر کی طرف آئے تھے۔
بعد والی آیت میں مزید فرماتا ہے : ” ان پرندوں نے اس لشکر کو سجیل ( پتھریلی مٹی) کے چھوٹے چھوٹے کنکروں سے نشانہ بنایا تھا“۔ (ترمیھم بحجارة من سجیل)۔ ۲
اور جیسا کہ اس ماجرے کی تفصیل میں ہم نے تواریخ ، تفاسیر اور روایات سے نقل کیا ہے ،ان چھوٹے چھوٹے پرندوں میں سے ہر ایک نے چنے کے دانے کے برابر ی ا س سے بھی چھوٹی چھوٹی کنکریاں اٹھائی تھیں ، ایک ایک کنکری چونچ میں اور دو دو اپنے پنجوں میں ۔ اور یہ چھوٹی چھوٹی کنکریاں جس پر بھی پڑتی تھیں ، اسی کو ٹکڑے ٹکڑے کردیتی تھیں ۔
جیسا کہ بعد والی آیت میں آیا ہے : ” انہیں کھائے ہوئے بھوسے کی مانند بنا دیا “ ( فجعلھم کعصف ماکول
” عصف “ ( بر وزن حذف) ان پتوں کو کہتے ہیں جو زراعت کی شاخ پر ہوتے ہیں اور پھر خشک ہوکرٹکڑے ٹکڑے ہو جاتے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں یہ” گھاس “کے معنی میں ہے ۔
اور بعض نے اس کی گندم کے اس چھلکے کے معنی میں تفسیر کی ہے ، جب کہ وہ خوشہ میں ہوتا ہے ۔
” ماٴکول “ کی تعبیر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ گھا س جانوروں کے دانتوں کے نیچے آکر دوبارہ پس جاتا ہے اور مکمل طور پر ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے ، پھر جانور کے معدے نے بھی اسے تیسری مرتبہ ریزہ ریزہ کیا ہے اور یہ چیز اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ یہ سنگریزے جس کسی کو بھی جاکر لگتے تھے، اس کو مکمل طورپر ریزہ ریزہ کردیتے تھے ۔
یہ تعبیر ان کے شدت کے ساتھ پارہ پارہ ہو نے کی دلیل قرار پانے کے علاوہ اس کے سر کش و مغرور اور ظاہراً طاقت ور گروہ اور جمیعت کے بے قدر و قیمت ہونے اوراس کے ضعف و ناتوانی کی طرف اشارہ ہے ۔


 

۱۔ ” فیل “ اگر چہ یہاں مفرد ہے ، لیکن جنس و جمع کا معنی رکھتا ہے
۲۔ ” سجیل “ فارسی کا لفظ ہے جو” سنگ“ ( پتھر) اور ” گل“ ( مٹی) سے لیا گیا ہے ، اسی بناء پر وہ ایک ایسی چیز ہوتی ہے جو نہ پتھر کی طرح سخت ہو اور نہ مٹی کی طرح نرم ۔

۱۔ ایک بے نظیر معجزہ ( اس گھر کا ایک مالک ہے )اصحاب فیل کی داستان
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma