خوش بختی کا چار نکاتی پروگرام

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونه جلد 27
 سورہٴ ھمزة نجات کی صرف ایک راہ

قابل توجہ بات یہ ہے کہ قرآن نے اس عظیم خسارت کے لیے ایک جامع پروگرام پیش کیا ہے ، جس میں چار اصولوں پرتکیہ ہوا ہے ۔
پہلی اصل: اس پروگرام میں مسئلہ ” ایمان “ ہے جو انسان کی تمام کارکردگیوں کی بنیاد ہے ، کیونکہ انسان کی عملی جد و جہد اس کی فکری و اعتقادی بنیادوں سے سر چشمہ حاصل کرتی ہے ۔ وہ حیوانات کے افعال کی طرح نہیں ہوتیں جن کی حرکات فطری و طبعی اسباب کی بناء پر ہوتی ہیں ۔
دوسرے لفظوں میں انسان کے اعمال اس کے عقائد و افکار کی ایک مجسم صورت ہوتے ہیں ، اور اسی بناء پر خدا کے تمام انبیاء ہر چیز سے پہلے امتوں کی اعتقادی بنیادوں کی اصلاح کیا کرتے تھے ۔ اور وہ خصوصیت کے ساتھ شرک سے جو انواع و اقسام کے رذائیل ، بد بختیوں اور پراگندگیوں کا سر چشمہ ہے  مبارزہ کرتے تھے۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ ” ایمان “ یہاں مطلق طور پر ذکر ہوا ہے تاکہ ایمان کے تمام کے تمام پہلووٴں کو شامل کیا جائے یعنی خدا اور اس کی صفات پر ایمان سے لے کر قیامت و حساب و کتاب ، جزا و سزا ، کتب آسمانی ، خدا کے انبیاء اور ان کے اوصیا ء کے ایمان تک ۔
دوسری اصل : میں ایمان کے بار آور اور پر ثمر درخت کے پھل اور نتیجہ کو پیش کرتے ہوئے ”اعمال صالح“ کی بات کرتا ے ۔ کیسی وسیع اور مطالب سے پر تعبیر ہے ، ہاں !” صالحات“ وہی سار ے کے سارے شائستہ اعمال ، نہ صرف عبادات ، نہ صرف انفاق فی سبیل اللہ ، نہ صرف راہِ خدا میں جہاد، نہ صرف علم و دانش کا حصول ، بلکہ ہر وہ شائستہ کام جو تمام میدانوں میں نفوس کے تکامل و ارتقاء ، اخلاق کی پرورش ، قرب الیٰ اللہ اور انسانی معاشرے کی پیش رفت کا وسیلہ ہو۔
یہ تعبیر چھوٹے سے چھوٹے کاموں سے لے کر ۔ جیسے لوگوں کے راستہ سے ایک رکاوٹ ڈالنے والے پتھر کو ہٹا نا ۔ کروڑوں انسانوں کو گمراہی و ضلالت سے نجات دلانے اور دین حق و عدالت کی سارے جہان میں نشرو اشاعت کرنے تک کو شامل ہے ۔
اور اگر ایک حدیث میں ” اعمال صالح“ کی امام جعفر صادق علیہ السلام ، ” مواسات اور دینی بھائیوں سے مساوات کرنے “ سے تفسیر ہوئی ہے ، تو وہ واضح و روشن مصداق کے قبیل سے ہے ۔
ممکن ہے بعض اوقات اعمال صالح بعض غیر مومن انسانوں سے بھی سر زد ہوں ، لیکن مسلمہ طور پر وہ مضبوط و پائیدار اور وسعت رکھنے والے نہیں ہوتے، کیونکہ وہ خدا ئی عمیق اور گہرے اسباب سے سر چشمہ حاصل نہیں کرتے۔ لہٰذا ان میں جامعیت نہیں ہوتی۔
قرآن نے یہاں ” صالحات“ کو خصوصیت کے ساتھ جمع کی صورت میں بیان کیا ہے ، ایسی جمع ہو جو ” الف و لام“کے ساتھ ہے ، اور عموم کے معنی رکھتی ہے ۔ اور یہ اس حقیقت کو بیان کررہی ہے کہ ایمان کے بعد اس طبعی و قہری خسارے سے روکنے والا راستہ تمام اعمال صالح کو انجام دیتا ہے نہ صرف ایک یاچند اعمال صالح پر قناعت کرنا، اور واقعاً اگر ایمان عمیق اور گہرے طور پر انسان کے دل میں جاگزیں ہو جائے تو وہ ایسے ہی آثار ظاہر کیا کرتا ہے ۔
ایمان کوئی فکر اور اعتقاد نہیں ہوتا ، جو روح کے گوشوں میں تو موجود ہو لیکن اس میں کسی قسم کی تاثیر موجود نہ ہو ۔ ایمان تو انسان کے سارے وجود کو اپنے رنگ میں رنگ دیتا ہے ۔
ایمان اس پر نور چراغ کے مانند ہے جو کسی کمرے کے اندر روشن ہے ، جو نہ صرف اس کمرے کی فضا کو روشن کرتا ہے بلکہ اس کی روشنی اس کمرے کے تمام دریچوں سے باہر نکلتی ہے اور جو شخص اس کے باہرسے گزرے وہ اچھی طرح سے سمجھ لیتا ہے کہ اس میں ایک پر نور چراغ روشن ہے ۔
اسی طرح سے جب ایمان کا چراغ انسان کے دل کی سرائے میں روشن ہوتا ہے تو اس کا نور انسان کی زبان ، آنکھ ، کان اور ہاتھ پاوٴں سے منعکس ہوتا ہے ، ان میں سے ہر ایک کی حرکت بتاتی ہےں کہ دل میں ایک نور موجودہے جس کی شعاعیں با ہر نکل رہی ہیں ۔
اسی بناء پر قرآن کی آیات میں عام طور پر ” عمل صالح“ ” ایمان “کے ساتھ ” لازم و ملزوم “ کے عنوان سے آیا ہے ۔
سورہٴ نحل کی آیہ ۹۷میں آیاہے : من عمل صالحاً من ذکر او انثیٰ وھو موٴمن فلنحیینہ حیٰوة طیبة“جو بھی عمل صالح انجام دے ، مردہو یا عورت، لیکن ہوہ صاحبِ ایمان ، تو ہم اسے پاکیزہ حیات کے ساتھ زندہ کریں گے ۔
اور سورہٴ مومنون کی آیہ ۹۹۔ ۱۰۰ میں آیا ہے ، اس عالم سے جدائی کے بعد بدکاروں کو اس بات پر افسوس ہو گا کہ انہوں نے اعمال صالح کیوں انجام نہیں دیے ۔ لہٰذا بہت ہی زیادہ امداد کے ساتھ عملِ صالح کو انجام دینے کے لئے باز گشت کا تقاضا کریں گے: رب ارجعون لعلی اعمل صالحاً فیماترکت “ اور سورہٴ مومنون کی آیہ ۵۱ میں آیاہے کہ خدا اپنے رسولوں کو یہ حکم دیتا ہے کہ ” پاک و پاکیزہ چیزیں کھاوٴ اور عمل صالح بجالاوٴ ”یاایھا الرسول کلوا من الطیبات و اعملوا صالحاً
اور چونکہ ایمان و عمل ِ صالح سوائے اس صورت کے ہرگز جاری نہیں رہتے کہ ایک طرف تو معاشرے میں حق کی طرف دعوت اور اس کی معرفت کے لیے کام کیاجائے اور دوسری طرف سے اس دعوت کی انجام دہی کی راہ میں صبر و استقامت کی دعوت ہو، اس لیے ان دونوں اصولوں کے بعد دوسرے اصولوں کی طرف اشارہ فرماتا ہے ، جو حقیقت میں دو بنیادی اصولوں ” ایمان “اور ” عملِ صالح“ کے اجراء کے ضامن ہیں ۔
تیسری فصل : میں ” تواصی بہ حق “ کے مسئلہ یعنی حق کی طرف سب کو عمومی دعوت دینے کی طرف اشارہ کرتا ہے تاکہ سب لوگ حق کو باطل سے اچھی طرح پہچان لیں اور ہر گز اسے فراموش نہ کریں اور زندگی کی راہ میں اس سے منحرف نہ ہوں ۔
تواصوا“ ” توا صی “ کے مادہ سے ، جیسا کہ ” راغب“ نے ” مفردات“ میں بیان کیا ہے ، اس معنی میں ہے کہ بعض افراد دوسرے بعض افراد کو نصیحت کریں ۔
اور ”حق “ ” واقعیت“ یا واقعیت سے مطابقت کے معنی میں ہے ۔ کتاب” وجوہ قرآن“ میں قرآن مجید میں اس لفظ کے بارہ معانی اور موارد استعمال ذکر ہوائے ہیں ، مثلاً خدا، قرآن، اسلام ، توحید، عدل ، آشکارہونا، اورواجب ہوناوغیرہ، لیکن وہ سب ہی اسی ریشہ اور جڑ کی طرف لوٹتے ہیں جو ہم نے اوپر بیان کی ہے ۔
بہر حال ” تواصوا بالحق “کا جملہ بہت ہی وسیع معنی رکھتا ہے ، جو امر بہ معروف اور نہی از منکر کو بھی شامل ہے ، اور جاہل کو تعلیم دینے اور اس کو ہدایت کرنے ، غافل کو تنبیہ کرنے ، شوق دلانے اور ایمان و عمل صالح کی تبلیغ کرنے کو بھی ۔
یہ بات ظاہر و واضح ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کرتے ہیں انہیں خود بھی حق کا طرفدار اور اس کا عامل ہونا چاہئیے۔
چوتھی اصل : میں ” صبر “ و استقامت اور اس کی نصیحت و وصیت کرنے کا مسئلہ پیش ہوا ہے ، کیونکہ معرفت اور ٓگاہی کے بعد ہر شخص عمل کی راہ میں ہر قدم پر موانع سے روبرو ہوتا ہے ۔ اگر استقامت اور صبر نہ ہوتو وہ ہرگز احقاقِ حق نہیں کرسکتااور کوئی عمل صالح انجام نہیں دے سکتا ، یا اپنے ایمان کی حفاظت نہیں کرسکتا۔
ہاں ! احقاقِ حق ، اور اجراء حق اور معاشرے میں حق کی ادائیگی، ایک عمومی فعالیت اور پختہ و عظیم استقامت یعنی موانع کے مقابلہ میں ڈٹ جانے کے سوا ممکن نہیںہے ۔
” صبر“ بھی یہاں ایک وسیع معنی رکھتا ہے جو اطاعت پر صبر کرنے کو بھی شامل ہے ، گناہ پر ابھارنے والی چیزوں پر صبر کرنے ، اور مصائب اور ناگوار حوادث پر صبر کرنے اور توانائیوں ، سر مایوں اور ثمرات کو کھو بیٹھنے کے مقابلہ میں صبر کرنے کو بھی۔ ۱
ان چار اصولوں کے بارے میں جو کچھ اوپر بیان کیا گیا ہے اور جو حقیقت میں انسانوں کی زندگی اور سعادت کاجامع ترین پروگرام ہے  اس کی طرف توجہ کرنے سے واضح ہو جاتاہے کہ روایات میں یہ کیوں آیا ہے کہ ” جنب اصحابِ پیغمبر ایک دوسرے کے پاس جاتے تھے ، تو ایک دوسرے سے جدا ہونے سے پہلے سورہٴ ” و العصر“ کی تلاوت کیا کرتے تھے، اور اس چھوٹی سی سورت کے عظیم مطالب کو بیان کیا کرتے تھے اور پھر ایک دوسرے کو خدا حافظ کہتے ہو ئے اپنے اپنے کاموں میں لگ جاتے تھے۔ ۲
اور حقیقتاً اگر مسلمان آج بھی اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں ان چار اصولوں پر عمل پیراہو جائیں ، اور دنیا جہاں کے شریروں کے شر ان سے منقطع ہو جائیں ۔
خدا وندا ! ہمیں صبر و استقامت اور حق و صبر کی ایک دوسرے کو وصیت کرنے کی توفیق مرحمت فرما۔
پروردگارا ! ہم سب خسارے میں ہیں اورا س خسارے کی تلافی تیرے لطف و کرم کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔
بار الٰہا ! ہم چاروں احکام پر ، جو تونے اس سورہ میں دیے ہیں ، عمل کرنا چاہتے ہیں ۔ تو ہمیں اس کی توفیق عطا فرما۔
آمین یا رب العالمین


 

۱۔ ہم نے ” صبر کی حقیقت اور اس کے مراحل اور شعبوں کے بارے میں جلد اول میں سورہ بقرہ کی آیہ۱۵۳ کے ذیل میں مفصل بحث کی ہے ۔
۲۔ ” در المنثور“ جلد ص ۳۹۲۔

 

 سورہٴ ھمزة نجات کی صرف ایک راہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma