نجات کی صرف ایک راہ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونه جلد 27
خوش بختی کا چار نکاتی پروگرام اس سورہ کی فضیلت

اس سورہ کی ابتداء میں ہم ایک نئی قسم سے روبرو ہورہے ہیں ، فرماتا ہے : ” عصر کی قسم “ ( و العصر
” عصر “ کا لفظ اصل میں نچوڑ نے کے معنی میں ہے ، اس کے بعد اس کا وقت عصر پر اطلاق ہونے لگا کیونکہ اس میں زلزلہ کے پروگراموں کو لپیٹ کر مختصر کردیا جاتا ہے ۔
اس کے بعد یہ لفظ مطلق ” زمانہ “ اور تاریخ بشرکے دور یازمانے کے ایک حصہ ، جیسے ظہور اسلام اور پیغمبر اکرم کے قیام کے زمانے ، اور اسی قسم کے دوسرے زمانوں کے معنی میں استعمال ہواہے ، اسی لیے اس قسم کی تفسیر میں مفسرین نے بہت زیادہ احتمال دیے ہیں ۔
۱۔ بعض اس اسے اسی وقت ” عصر “ کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں ، اس قرینہ سے کہ قرآن کی بعض دوسری آیات میں دن کے آغاز کی قسم کھائی گئی ہے مثلاً: ”والضحیٰ“( ضحیٰ آیہ۱) یا ” و الصبح اذااسفر“ ( مدثر۔ ۳۴)
یہ قسم اس اہمیت کی بناء پر ہے جو دن کے اس موقع کو حاصل ہے کیونکہ یہ وقت انسانوں کی حیات اور نظام زندگی کے خاتمے کا وقت ہوتا ہے ، دن کے کام اپنے انجام کو پہنچتے ہیں ، پرند و چرند اپنے اپنے آشیانوں اور ٹھکانوں کو لوٹتے ہیں ، سورج افق مغرب میں اپنا سر چھپالیتا ہے اور فضا بتدریج تاریک ہوتی چلی جاتی ہے ۔
یہ اختتام اور تغیر انسان کو خدا کی لایزال قدر ت کی طرف جو اس نظام پر حاکم ہے متوجہ کرتا ہے اور حقیقت میں یہ توحید کی نشانیوں میں سے ایک نشانی اور پروردگار کی آیتوں میں سے ایک آیت ہے جو قسم کے لائق ہے ۔
۲۔بعض دوسروں نے اسے تمام زمانے اور تاریخ بشریت کی طرف اشارہ سمجھا ہے ، جو در سہا ئے عبرت، ہلادینے والے حوادث اور بیدار کرنے والے واقعات سے پر ہے ، اور اسی بناء پر ایسی عظمت رکھتا ہے کہ خدا کی قسم کے لائق ہے ۔
۳۔ اور بعض نے زمانہ کے ایک خاص حصہ کو ، جیسے پیغمبر اکرم کے قیام کا زمانہ یا مہدی علیہ السلام کے قیام کا زمانہ ، جو تاریخ بشر میں خصوصیت اور مخصوص عظمت کا حامل ہے ، مراد لیا ہے اورقسم کو اسی کے بارے میں سمجھے ہیں ۔ ۱
۴۔ اور بعض اس لفظ کے لغوی ریشہ اور جڑ بنیاد کی طرف بھی خصوصی توجہ دی ہے اور اس قسم کو ان مشکلات اور دشواریوں کے بارے میں سمجھتے ہیں جو انسانوں کی طویل زندگی میں رونما ہوتے ہیں ، انہیں خوابِ غفلت سے بیدار کرتے ہیں، انہیں خدا ئے عظیم کی یاد دلاتے ہیں اور روحِ استقامت کی پرورش کرتے ہیں ۔
۵۔ بعض اسے کامل انسانوں کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں ، جو عالم ہستی اور جہانِ خلقت کا نچوڑ ہیں ۔
۶۔ اور آخر میں بعض اسے ” نماز عصر“ کے بارے میں سمجھتے ہیں ، اسی خصوصی اہمیت کی بناء پر جو اسے باقی نمازوں میں حاصل ہے کیونکہ وہ ” صلاة وسطی“ جس کے لیے قرآن میں خاص قسم کی تاکید کی گئی ہے نماز عصر کو سمجھتے ہیں ۔
اگر چہ اوپر والی تفاسیر آپس میں ایک دوسرے سے کوئی تضاد نہیں رکھتیں، اور ممکن ہے کہ وہ سب ہی آیت کے معنی میں جمع ہوں ، اور ان تمام اہم امور کی قسم کھائی ہو ، لیکن ان سب میں ، سب سے زیادہ مناسب ، عصر کو زمانہ اور تاریخ بشرکے معنی لینا ہی نظر آتا ہے ۔
کیونکہ ہم نے بارہا کہا ہے کہ قرآن کی قسمیں ہمیشہ اس مطلب کے ساتھ مناسبت رکھتی ہیں جس کے لیے قسم کھائی گئی ہے اور مسلمہ طور سے انسانوں کی زندگی میں زیان و خسارہ ان کی عمر کے زمانے کے گزرنے کا نتیجہ ہے ، یا پیغمبر خاتم کے قیام کا زمانہ ، کیونکہ اس سورہ میں بیان کیے گئے چار اصولوں کا پروگرام اسی زمانہ میں نازل ہوا ہے ۔
جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس سے آیاتِ قرآنی کی عظمت اور اس کے مفاہیم کی وسعت اچھی طرح سے واضح ہو گئی ہے کہ ان میں سے ایک ہی لفظ کس حد تک پر معنی اور عمیق و گوناگوں تفاسیر کے لائق ہے ۔
بعد والی آیت میں اس چیز کی طرف اشارہ ہے جس کے لیے یہ اہم قسم کھائی گئی ہے ، فرماتا ہے :” یقینی طور پر تمام انسان خسارے میں ہیں “( انّ الانسان لفی خسر) ۔
وہ اپنے وجودی سرمائے کو، خواہ چاہیں یانہ چاہیں ، کھوبیٹھے ہیں ، عمر کی گھڑیاں ، دن ، مہینے اور سال تیزی کے ساتھ گزرتے چلے جاتے ہیں ، معنوی اور مادی قوتیںتحلیل ہوجاتی ہیں اور طاقت و قدرت گھٹتی چلی جاتی ہیں ۔
ہاں ! انسان اس شخص کے مانند ہے جس کے پاس عظیم سرمایہ ہو اور اس کی مرضی اور خواہش کے بغیر اس سرمایہ کا ایک حصہ ہر روز اس سے لے لیتے ہوں ۔ یہ دنیا کی زندگی معین کا مزاج ہے ، ہمیشہ کم ہوتے چلے جانے والا مزاج، ایک دل میں حرکت کرنے کی ایک میں استعداد ہوتی ہے اور جب وہ استعداد اور طاقت ختم ہ وجاتی ہے تو دل خود بخود رک جاتا ہے ، حالانکہ اس میں کوئی عجیب ، بیماری یا علت نہیں ہوتی ، اور یہ اس صورت میں ہوتا ہے جب کہ وہ کسی بیماری کی وجہ سے پہلے ہی فیل نہ ہو جائے۔ انسانی وجود کے باقی کار خانوں ، اور ا س کی مختلف استعدادوں کے سر مایوںکا بھی یہی حال ہے ۔
” خسر“ ( بر وزن عسر) اور خسران “‘ جیسا کہ ” راغب “ مفردات“ میں کہتا ہے : سرمایہ کے کم ہونے کے معنی میںہے ۔
کبھی تو اس کی انسان کی طرف نسبت دی جاتی ہے اور یہ کہتے ہیں کہ فلاں آدمی کو نقصان ہو گیا ، اور بعض اوقات خود عمل کی طرف نسبت دی جاتی ہے اور یہ کہتے ہیں کہ اس کی تجارت میں نقصان ہو گیا ۔ یہ لفظ عام طور پر خارجی سر مایوں مثلاً مال و مقام کے لیے استعمال ہوتا ہے ، اور بعض اوقات اندرونی سر مایوں ، مثلاً صحت و سلامتی ، عقل و ایمان اور ثواب کے لیے استعمال ہوتا ہے ، اور یہ وہی چیز ہے جسے خدا وندعالم نے ” خسران مبین“ (واضح خسارہ) کے عنوان سے ذکر کیا ہے ، جیساکہ فرماتاہے : ان الخاسرین الذین خسروا انفسھم و اہلیھم یوم القیامة الاذالک ھوالخسران المبین “واقعی زیاں کار لوگ تو وہ ہیں جو قیامت میں اپنے وجود اور اپنے گھروالوں کے وجود کا سرمایہ ہاتھ سے دے بیٹھیں گے۔ جان لو کہ خسران مبین ( واضح خسارہ) یہی ہے۔ ( زمر۔ ۱۵)۔ 2
فخر رازی اس آیات کی تفسیر میں ایک بات نقل کرتاہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ گزشتہ بزرگوں میں سے ایک کہتے ہیں کہ اس سورہ کا معنی میں نے ایک برف پوش شخص سے سیکھا ہے جو پکار پکار کر کہہ رہا تھا: ار حموا من یذوب راٴس مالہ ارحموا من یذوب راٴس مالہ!: اس شخص پر رحم کرو جس کا سرمایہ پگھلا جا رہا ہے ، اس شخص پر رحم کرو جس کی پونجی پگھل رہی ہے ۔ میں نے اپنے آپ سے یہ کہا ہے معنی ان الانسان لفی خسرکا:اس پر زمانہ گزرتا چلا جا تا ہے اور اسی عمر ختم ہو جاتی ہے ، اور وہ کوئی ثواب حاصل نہیں کرتا ، اور وہ اس حال میں خسارے میں ہے ۔ 3
بہر حال اسلام کی جہان بینی کے لحاظ سے دنیا ایک بازار، تجارت ہے ، جیسا کہ ایک حدیث میں امام ہادی علی بن محمد التقی علیہ السلام سے آیا ہے :
الدنیا سوق ربح فیھا قوم و خسرا ٰخرون
” دنیا ایک بازار ہے جس میں ایک گروہ نے نفع کمایا اور دوسری جماعت خسارے میں رہی“۔ 4
زیر بحث آیت کہتی ہے کہ اس عظیم بازار میں سبھی لوگ خسارے میں رہتے ہیں ، سوائے ایک گروہ کے جس کا پروگرام بعد والی آیت میں بیان ہوا ہے ۔
ہاں اس عظیم خسارے اور قہری اور جبری نقصان سے بچنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے ، صرف ایک ہی راہ ہے جس کی طرف اس سورہ کی آخری آیت میں اشارہ ہوا ہے ، فرماتا ہے : ” سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے ہیں اور انہوں نے اعمال صالح انجام دیے ہیں ، اور ایک دوسرے کو حق کی وصیت اور صبر و استقامت کی نصیحت کرتے ہیں “ ( الا الذین اٰمنوا و عملوا الصالحات و تواصوا بالحق و تواصوا ابالصبر
دوسرے لفظوں میں جو چیز اس عظیم نقصان کو روک سکتی ہے اور اسے عظیم نفع میں تبدیل کرسکتی ہے ، یہ ہے کہ اس سرمائے کو ہاتھ سے روک دینے کے مقابلہ میں زیادہ گراں بہا اور قیمتی سرمایہ حاصل کرے، جس سے نہ صرف اس سرمایہ کی خالی جگہ پر ہو گی بلکہ اس سے سینکڑوں اور ہزاروں گنا زیادہ اور بہتر ہوجائے گی ۔
ہر سانس جو انسان لیتا ہے اس سے موت کے زیادہ قریب ہو جاتا ہے ، جیسا کہ امیر المومنین علی علیہ السلام اپنی اس نورانی عبارت میں فرماتے ہیں : ” نفس المرء خطاہ الیٰ اجلہ“ ” انسان کا سانس موت کی طرف اس کا ایک قدم ہے “ 5
اس بناء پر انسان کے دل کی ہر حرکت اسے اختتام عمر سے ایک قدم اور زیادہ نزدیک کردیتی ہے۔ اس طرح سے اس قطعی نقصان کے مقابلہ میں کوئی ایسا کام کرنا چاہئیے جس سے خالی جگہ پر ہوجائے۔
ایک گروہ عمر اور زندگی کا نفیس سرمایہ ہاتھ سے دے دیتا ہے اور اس کے مقابلہ میں تھوڑا یا زیادہ مال ، معمولی گھر یا خوبصورت محل فراہم کرلیتا ہے ۔
ایک گروہ اس تمام سرمائے کو ، مقام و منصب تک پہچنے کے لیے ضائع کردیتا ہے ۔
اور کچھ لوگ اسے عیش و نوش اور جلدی گزرجانے والی لذتوں میں صرف کردیتے ہیں ۔
مسلمہ طور سے ان میں سے کوئی سی چیز بھی اس عظیم سر مایہ کی قیمت نہیں ہوسکتی ، اس کی قیمت صرف اور صرف خدا کی رضا اور اس مقام کاقرب ہے ۔
یا جیسا کہ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایاہے :
انہ لیس لانفسکم ثمن الاالجنة فلاتبیعوھا الا بھا“
”تمہار ے وجود کی قیمت جنت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اس کو اس سے کمتر کسی چیز کے بدلے میں بیچ دو“ 6
یاجیسا کہ ماہ رجب کی دعا میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے آیاہے :
خاب الوافدون علی غیرک و خسر المتعرضون الالک
جو تیرے غیر کے پاس جائیں گے وہ مایوس ہو جائیں گے اور تیرے سوا دوسروں کی طرف رجوع کرنے والے خسارے میں رہیں گے ۔
اور قیامت کے ناموں میں سے ایک نام ” یوم التغابن“ بلا وجہ نہیں ہے جیسا کہ سورہ ٴ تغابن کی آیہ۹ میں آیاہے :” ذالک یوم التغابن“اس دن پتہ چل جائے کہ گھاٹے میں کون لوگ ہیں “۔
حسن مطلب اور لطف مسئلہ یہ ہے کہ ایک طرف تو انسانی وجود کے سر مایوں کا خرید ار خدا وندِ عظیم ہے :” ان اللہ اشتری من المومنین “‘ ( توبہ۔ ۱۱۱)
دوسری طرف وہ تھوڑے سے سرمایوں کو بھی خرید لیتا ہے : فمن یعمل مثقال ذرة خیراً یرہ( زلزال ۔۷)
اور تیسری طرف اس کے مقابلہ میں وہ بہت زیادہ قیمت لگاتا ہے ۔ کبھی دس گناہ کبھی سات سو گنا اور کبھی اس سے بھی زیادہ ۔ ” فی کل سنبلة مائة حبة و اللہ یضاعف لمن یشاء“ ( بقرہ۔ ۲۶۱)
اور جیسا کہ دعا میں وارد ہوا ہے ، یا من یقبل الیسیر و یعفو عن الکثیر:” اے وہ خدا جو تھوڑے سے حسنات اور نیکیوں کو بھی قبول کرلیتا ہے اور بہت زیادہ گناہوں کو بخش دیتا ہے “۔
اور چوتھی طرف سے ، باوجود اس کے کہ یہ تمام سرمائے خود اسی انسان کو دیے جاتے ہیں ، وہ اس قدر بزرگوار ہے کہ پلٹ کر انہیں کو زیادہ گراں قیمت پر خرید لیتا ہے ۔


 
1۔ ایک حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے آیا ہے کہ و العصر ان الانسان لفی خسر کی تفسیر میں فرمایا: العصر عصر خروج القائم عصر سے مراد حضرت مہدی ( سلام اللہ علیہ ) کے قیام کا زمانہ ہے ۔ ( نور الثقلین جلد ۵۔ ۶۶۶ حدیث ۵)
2۔ ” مفرداتِ راغب“ مادہ ”خسر“
3۔ ” تفسیر فخر رازی“ جلد ۳۲ ص۸۵۔
4۔ ’ تحف العقول “ ص ۳۶۱( کلمات امام ہادی علیہ السلام )
5۔ ” نہج البلاغہ“ کلمات قصار جملہ ۷۴۔
6۔ ” نہج البلاغہ“ کلمات قصار جملہ ۴۵۶۔

 

خوش بختی کا چار نکاتی پروگرام اس سورہ کی فضیلت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma