۱۔ تفاخرکا سر چشمہ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونه جلد 27
۲۔ یقین اور اس کے مراحل تکاثر و تفاخر کی مصیبت

اوپر والی آیات سے معلوم ہوتاہے کہ تفاخر او رایک دوسرے پر فخر و مباھات کرنے کے عوامل اصل میں ایک ، وہی خدائی جزاء و سزا کے بارے میں جہالت و نادانی او رمعاد کے بارے میں ایمان کا نہ ہونا ہے
اس کے علاوہ انسان کا اپنی پیدا ئش کے آغاز سے لے کر انجام تک ہی کمزوریوں اور مصیبتوں سے بے خبر رہنا بھی کبر و غرور او رتفاخر کے عوامل میں سے ایک عامل ہے ۔ اسی بناء پر قرآن مجید اس تفاخر و تکا ثر کو توڑنے کے لیے گزشتہ اقوال کی سر گزشت کو مختلف آیات میں بیان کرتا ہے کہ یہ قومیں اتنے امکانات اور فراوان قدرت رکھنے کے باوجود اتنے سادہ عام قسم کے وسائل کے ذیعے کس طرح سے نابود ہو گئیں ۔
ہواوٴں کے چلنے سے آسمانی بجلی( صاعقہ) کے کوند نے سے ، زمین کے ایک زلزلہ سے ، حد سے زیادہ بارش کے برسنے سے ، خلاصہ یہ ہے کہ پانی ، ہوا اور مٹی سے او ربعض اوقات ” سجیل“  (کنکریوں) اور چھوٹے چھوٹے پرندوں کے ذریعے نابود ہو گئے۔
ان حالات میں یہ سب تفاخر و غرور کس لیے ہے ؟
اس بات کے لیے دوسرا عامل وہی ضعف و حقارت کا احساس ہے جو ناکامیوں اور شکستوں سے پیدا ہوتا ہے کہ کچھ افراد اپنی شکستوں کی پر دہ پوشی کے لیے تفاخر ومباھات کی پناہ لیتے ہیں ۔ اسی لیے ایک حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے آیا ہے :
مارجل تکبّر او تجبّر الا لذتہ وجد ھا فی نفسہ
” کو ئی شخص تکبر اور فخر و مباھات نہیں کرتا مگر اس ذلت کی وجہ سے جسے وہ اپنے نفس کے ا ندر پاتا ہے “۔ ۱
لہٰذا جب وہ یہ احساس کرتا ہے کہ وہ حد کمال کو پہنچ گیاہے ، تو پھر وہ تفاخر کی کوئی ضرورت نہیں سمجھتا۔
ایک اور حدیث میں امام محمد باقر علیہ السلام سے آیا ہے :
ثلاثة من عمل الجاہلیة، الفخر بالانساب، و الطعن فی الاحساب و الاستسقاءُ بالانواء
”تین چیزیں ایسی ہےں جو زمانہٴ جاہلیت کے عمل میں سے ہیں ، نسب پرفخر کرنا ، لوگوں کی شخصیت اور خاندانی شرافت میں طعن کرنا ستاروں کے ذریعے بارش طلب کرنا۲
ایک اور حدیث میں امیر المومنین علیہ السلام سے آیا ہے :
اھلک الناس اثنان: خوف الفقر، و طلب الفخر“دو چیزوں نے لوگوں کو ہلاک کیا : فقر و فاقہ کا خوف( جو انسان کو ہر طریقہ اور ہر ذریعہ سے مال جمع کرنے پر ابھارتا ہے )اور ایک دوسرے پر فخر کرنا۔3
اور حقیقتا ً حرص بخل، دنیا پرستی اور تباہ کرنے والی رقابتوں اور بہت سے اجتماعی مفاسد کے اہم ترین عوامل میں سے ایک یہی فقر و فاقہ کا بلا وجہ خوف او رافراد و قبائل او رامتوںکے درمیان ایک دوسرے پر فخر و مباہات کرنا اور برتری کا اظہار کرنا ہے اسی لیے ایک حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے آیاہے کہ آپ نے فرمایا:
ما اخشی علیکم الفقر، ولکن اخشی علیکم التکاثر“ ” میں تم پر فقر و فاقہ سے نہیں ڈرتا ، لیکن میں تمہارے تکاثر و تفاخر سے ڈرتا ہوں “ 4
” تکا ثر“ جیسا کہ ہم نے پہلے بھی تذکرہ کیا ہے اصل میں تفاخر کے معنی میں ہے ، لیکن بعض اوقات یہ زیادہ طلب اور مال جمع کرنے کے معنی میں بھی آیاہے چنانچہ ایک حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے آیاہے :
التکاثر، ( فی ) الاموال جمعھا من غیر حقھا، و منھا من حقھا، و شدّھا فی الاوعیة
” تکاثر، غیر شر عی طریقہ سے مال جمع کرنا ، اور اس کا حق ادا نہ کرنا اور اسے صندوقوں اور خزانوں میں جمع کرنا۔5
ہم اس وسیع بحث کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ایک پر معنی حدیث پر ختم کرتے ہیں ، جو آپ نے ” الھاکم التکاثر“کی تفسیر میں بیان فرمائی ہے :
یقول ابن اٰدم مالی مالی ، ومالک من مالک الامااکلت فافنیت او لبست فابلیت او تصدقت فامضیت۔
” انسان کہتا ہے : میرا مال ، میرا مال ، حالانکہ تیرا مال تو صرف وہ غذا ہے جو تو کھاتا ہے ، وہ لباس جو تُو پہنتا ہے اور وہ صدقات ہیں جو تو راہ خدا میں دیتا ہے“۔6
اور یہ ایک بہت ہی عمدہ نکتہ ہے کہ اس فراوان مال میں سے ہر شخص کا حصہ ، جسے وہ جمع کرتا ہے ، اور اس کے حلال و حرام ہونے کے بارے میں کبھی تھوڑی سی دیر کے لیے بھی غور و فکر نہیں کرتا ، اس تھوڑے سے کھانے پینے اور راہ خدا میں خرچ کرنے کے سوا اور کچھ نہیں ہے ، او رہم جانتے ہیں کہ وہ جو کچھ اپنی ذات پر خرچ کرتا ہے وہ بہت ہی کم ، حقیر اور نہ ہونے کے برابرہے ۔ اور کیا ہی اچھا ہو کہ وہ راہ خدا میں خرچ کرنے میں اپنا حصہ زیادہ کرے ۔



  ۱” اصول کافی“ جلد ۲ ص ۲۳۶ باب الکبر حدیث ۱۷۔
۲۔” بحار الانوار“جلد ۷۳ ص ۲۹۱ ۔
3۔”بحار الانوار“ جلد ۷۳ ص ۲۹۰ حدیث ۱۲۔
4۔ ” الدر المنثور“ جلد ۶ ص ۳۸۷۔
5۔ ” نو ر الثقلین “ جلد ۵ ص۶۶۲ حدیث۸
6۔ ” صحیح مسلم “ ( مطابق نقل مجمع البیان جلد ۱۰ ص ۵۳۴)

 

۲۔ یقین اور اس کے مراحل تکاثر و تفاخر کی مصیبت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma