کیا تجھے معلوم نہیں کہ خدا تیرے تمام اعمال کو دیکھتا ہے ؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونه جلد 27
عالم ہستی محضر خدا میں ہے ۲۔ ہرحال میں ذکرِ خدا

گزشتہ آیات کے بعد جن میں انسان کے لیے پروردگار کی مادی و معنوی نعمتوں کی طرف اشارہ ہوا تھا، اور ایسی وسیع نعمتوں کا لازمہ یہ ہے کہ انسان شکر ادا کرے اور خدا کے سامنے سر تسلیم خم کردے، لہٰذا زیر بحث آیات میں فرماتا ہے: ایسا نہیں ہے کہ خدا ئی نعمتیں ہمیشہ ہی انسان میں شکر گزاری کی روح بیدار کرتی ہوں بلکہ وہ یقینی طور پر طغیان و سر کشی کرتا ہے “۔ ( کلّا ان الانسان لیطغیٰ)۔۱
” اور اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو بے نیاز سمجھنے لگ جاتا ہے “۔ ( ان رٰاہ استغنیٰ
یہ عام لوگوں کی فطرت ہوتی ہے ، ان لوگوں کی فطرت اور عادت جنہوں نے عقل و وحی کے مکتب میں پرورش نہ پائی ہو، چنانچہ جب وہ اپنے آپ کو بے نیاز سمجھنے لگ جاتے ہیں تو سر کشی و طغیان شروع کردیتے ہیں ۔
نہ تو خدا کا بندہ بنتے ہیں ، نہ اس کے احکام کو قبول کرتے ہیں، نہ وجدان کی پکار پر کان دھرتے ہیںاور نہ ہی حق و عدالت کا خیال کرتے ہیں ۔
انسان اور کوئی بھی دوسری مخلوق ہر گز بے نیاز اور مستغنی نہیں ہو سکتی۔ بلکہ تمام ممکن موجودات ہمیشہ خدا کے لطف اور نعمتوں کے محتاج اور نیاز مند رہتے ہیں ۔اور اگر ایک لمحہ بھی اس کافیض و کرم منقطع ہو جائے تو ٹھیک اسی لمحہ سب کے سب نابودو فنا ہو جائیں۔ البتہ انسان بعض اوقات غلطی سے اپنے آپ کو بے نیاز سمجھنے لگ جاتا ہے ، اور آیت کی تعبیر لطیف بھی اسی معنی کی طرف اشارہ ہے، جو یہ کہتی ہے کہ :” وہ خود کو بے نیاز سمجھنے لگ جاتا ہے“۔ یہ نہیں کہتی کہ وہ بے نیاز ہو جاتا ہے“۔
بعض کا نظریہ یہ ہے کہ زیر بحث آیت میں ” انسان “ سے مراد خصوصیت کے ساتھ ” ابو جہل “ ہے ، جو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوت کے آغاز ہی سے مخالفت کے لیے کھڑا ہو گیا تھا۔ لیکن مسلّمہ طور پر یہاں ’ ’ انسان“ ایک مفہوم کلی رکھتا ہے اور ” ابو جہل“ جیسے افراد اس کے مصادیق ہیں۔
بہر حال ایسامعلوم ہوتا ہے کہ آیت کا ہدف اور مقصد یہ ہے کہ پیغمبر  کو یہ توقع رکھنی چاہئیے کہ لوگ فوراًہی ان کی دعوت قبول کرلیں گے۔ بلکہ انہیں چاہئیے کہ وہ خود کو سر کش مستکبرین کے انکار اور مخالفت کے لیے آمادہ تیارو رکھیں اور یہ جان لیں کہ ایک نشیب و فراز سے بھراہوا راستہ ان کے سامنے ہے ۔
اس کے بعد ان مستکبر سر کشوںکو تہدید کرتے ہوئے فرماتاہے : یقینا سب کی باز شگت تیرے پروردگار کی طرف ہے “۔ ( ان الیٰ ربک الرجعیٰ
اور وہی سر کشوں کو ان کے کیفر کردار تک پہنچا تا ہے ۔
اصولی طور پر جس طرح کہ ہر چیز کی باز گشت اس کی طرف ہے اور سب مرجائیں گے ، اور آسمان و زمین کی میراث اس کی پاک ذا ت کے لیے رہ جائے گی: و للہ میراث السماوات و الارض( آل عمران۔ ۱۸۰)ابتداء میں بھی تمام چیزیں اسی کی طرف سے تھیں، اور اس با ت کی گنجائش نہیں ہے کہ انسان خود کو بے نیاز سمجھنے لگ جائے ، اور مغرور ہوکر سر کش بن جائے۔
اس کے بعد مغرور سر کشوں کے کاموں کے ایک حصہ، یعنی راہ حق پر چلنے اور ہدایت و تقویٰ کے طریق کو طے کرنے سے روکنے کو بیان کرتے ہوئے مزید فرماتا ہے : ” مجھے بتا کیا وہ شخص جو منع کرتا ہے “۔ (ارئت الذی ینھیٰ)
”بندہ کو جب کہ وہ نماز پڑھتا ہے “۔ ( عبداً اذا صلّٰی
کیا ایسا آدمی عذاب الٰہی کا مستحق نہیں ہے ؟ !
احادیث میں آیا ہے کہ ” ابو جہل“ نے اپنے اطرافیوں سے سوال کیا! کیا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، تمہارے سامنے بھی ( سجدہ کے لئے ) مٹی پر چہرے کو رکھتا ہے ؟ انہوں نے کہا: ہاں ! اس نے کہا : قسم ہے اس کی جس کی ہم قسم کھاتے ہیں ، اگر میں اسے اس حالت میں دیکھوں گا تو اپنے پاوٴں سے اس کی گردن کو کچل کر رکھ دوں گا۔ انہوں نے اس سے کہا : وہ دیکھوں! وہ اس جگہ نماز پڑھنے میں مشغول ہے۔
ابو جہل چلا تاکہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی گردن کو اپنے پاوٴں کے نیچے کچلے۔ لیکن جب وہ قریب پہنچا تو پیچھے ہٹ گیا اور ایسا معلوم دیتاتھا جیسے کہ وہ کسی چیز کو اپنے ہاتھ سے ہٹا رہا ہے ۔ان لوگوں نے اس سے کہا ، ہم تیری یہ حالت کیا دیکھ رہے ہیں ؟
اس نے کہا: میں نے اچانک اپنے اور اس کے درمیان آگ کی ایک خندق دیکھی ہے ، اور ایک وحشت ناک منظر اور کچھ پر و بال مشاہدہ کیے ہیں !
اس موقع پر پیغمبر  نے فرمایا: قسم ہے اس کی جس کے قبضہٴ قدرت میں میری جان ہے ، اگر وہ میرے قریب آجاتا تو خدا کے فرشتے اس کے بدن کو ٹکڑے ٹکڑے کردیتے اور ا س کے ایک ایک عضو کو اچک کرلے جاتے“!
اس موقع پر اوپر والی آیات نازل ہوئیں ، 3
ان روایات کے مطابق اوپر والی آیات آغازِ بعثت میں نازل ہوئیں ، بلکہ اس وقت نازل ہوئیں جب اسلام کی دعوت برملا ہو چکی تھی۔ اسی لیے ایک گروہ کا نظریہ یہ ہے کہ اس سورت کی پہلی پانچ آیات ہی آغازِ بعثت میں نازل ہوئی تھیں، اور باقی کافی مدت کے بعد نازل ہوئیں ۔
لیکن بہر حال یہ شانِ نزول آیت کے مفہوم کی وسعت سے مانع ہے ۔
بعد والی آیت میں اور زیادہ تاکید کے لئے مزید کہتا ہے :” مجھے بتا اگر نماز گزار بندہ طریق ہدایت پر ہو “۔ ( ارء یت ان کان علی الھدٰی
” یا لوگوں کو تقویٰ کا حکم دے “۔ ( او امر بالتقویٰ)۔ کیا منع کرنا مناسب ہے ، اور کیا اس قسم کے شخص کی سزا جہنم کی آگ کے علاوہ کچھ اور ہوسکتی ہے ؟ !
” کیاوہ نہیں جانتا کہ خدا اس کے تمام اعمال کو دیکھتا ہے ، اور ان سب کو حساب و کتاب اور جزا و سزا کے لیے ثبت و ضبط کررہا ہے “۔ ( الم یعلم بان اللہ یرٰی
اوپر والی آیات میں قضیہ شرطیہ کی تعبیر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس مغرور سرکش کو کم از کم یہ احتمال تودینا چاہئیے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم طریقِ ہدایت پر ہیں ، اور ان کی دعوت تقویٰ کی طرف دعوت ہے ، یہی احتمال اس کی سر کشی کو روکنے کے لیے کافی ہے ۔
اس بناء پر ان آیات کا مفہوم ، پیغمبر  کی تقویٰ کی طرف دعوت، اور ہدایت میں تردید نہیں ہوگا ، بلکہ یہ اوپر والے باریک نکتہ کی طرف اشارہ ہے ۔
بعض مفسرین نے ” کان“ و ”مر“ کی ضمیر کو اسی نہی کرنے والے شخص کی طرف لوٹا یا ہے ، جیسا کہ ”ابو جہل“ تھا۔ اس بناء پر آیات کا مفہوم اس طرح ہوجائے گا، اگر وہ ہدایت کو قبول کرلے اور نماز سے منع کرنے کی بجائے تقویٰ کی دعوت کرے تو اس کی حالت کے لئے یہ کتنا مفید ہوگا؟
لیکن پہلی تفسیر زیادہ مناسب نظر آتی ہے ۔


 

۱۔ جو کچھ ہم نے اوپر بیان کیا ہے ” کلا“ اس چیز کو روکنے کے لیے ہے جو گزشتہ آیات کے مضمون کالازمہ ہے، اور بعض نے اسے ’ ’ حقاً“کے معنی میں بھی لیا ہے جو تاکید کے لئے ہے۔
۲۔ ”ان رٰاہ استغنی“کا جملہ مفعول لاجلہ ہے اور تقدیر میں لان ہے اور روٴیت یہاں علم کے معنی میں ہے ، لہٰذا اس کے دو مفعول ہوئے ۔ یہ احتمال بھی ہے کہ روئیت حِسی کے معنی میں ہو اور ” استغنیٰ“ بمنزلہ ” حال“ کے ہو۔
3۔ تفسیر ” مجمع البیان “ جلد۱۰ ص ۵۱۵۔
عالم ہستی محضر خدا میں ہے ۲۔ ہرحال میں ذکرِ خدا
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma