سر کشوں کا ہلاکت خیز انجام

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونه جلد 27
۱۔ قوم ثمود کی سر گزشت کا خلاصہ ۲۔ سورج کا عالم ِ حیات میں نقش و اثر

اس تنبیہ کے بعد ، جو گزشتہ آیات میں ان لوگوں کے بارے میں آئی تھی ، جو اپنے نفس کو آلودہ کرتے ہیں ، ان آیات میں نمونہ کے طور پر اس مطلب کی ایک واضح تاریخی مثال کو پیش کیا ہے اور سرکش قوم (ثمود ) کی سر نوشت کوقاطع اور پر معنی عبارتوں کے ساتھ بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے :” قوم ثمود نے سرکشی کی وجہ سے ( اپنے پیغمبر کی ) تکذیب کی “۔ ( کذبت ثمود بطغواھا
طغوٰی“ اور طغیانی “ دونوں ایک ہی معنی میں ہیں ، اور وہ حد اور سر حد سے تجاوز کرنا ہے اور یہاں حدود الٰہی سے تجاوز کرنا اور ا سکے فرامین کے مقابلہ میں سر کشی مراد ہے۔ ۱
قوم ثمود، جن کے پیغمبر کانام ” صالح “ تھا قدیم ترین اقوام میں سے ہے ، جو ”حجاز “اور ”شام“ کے درمیان ایک کوہستانی علاقے میں رہتی تھی ۔ ان کی زندگی مرفہ الحال تھی ، زمینیں آباد ، ہموار میدان اور زراعت کے لئے عمدہ مٹی ، شان و شوکت والے محلات، اور مضبوط و مستحکم گھر رکھتے تھے ۔ لیکن نہ صرف یہ کہ ان سب نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتے تھے ، بلکہ سر کشی کرتے ہوئے اپنے پیغمبر صالح علیہ السلام کی تکذیب کے لئے کھڑے ہوگئے ، آیاتِ الٰہی کا مذاق اڑایا اور آخر کار خدا نے انہیں ایک آسمانی بجلی کے ذریعے نابود کردیا ۔
اس کے بعد اس قوم کی ایک ظاہری سر کشی کو پیش کرتے ہوئے مزید فرماتا ہے : جبکہ ان کا ایک شقی ترین آدمی اٹھ کھڑا ہوا “۔ ( اذا نبعث اشقاھا
اشقیٰ“اس قوم کے شقی ترین اور سنگ دل ترین آدمی کے معنی میں ہے جو اس شخص کی طرف اشارہ ہے جس نے ناقہٴ صالح علیہ السلام کو ہلاک کیا تھا، وہی اونٹنی ( ناقہ ) جو ایک معجزہ کے طور پر اس قوم کے درمیان ظاہر ہوئی تھی اور اس کو ہلاک کرنا اس پیغمبر الٰہی کے ساتھ اعلان جنگ تھا ۔
مفسرین اور مورخین کے قول کے مطابق اس شخص کانام ” قدار بن سالف“ تھا۔
بعض روایات میں آیاہے کہ پیغمبر اکرم اور حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: ” من اشقی الاولین “؟
” پہلی قوموں میں سب سے زیادہ شقی اور سنگ دل کون تھا“ علی علیہ السلام نے جواب میں عرض کیا : ” عاقر الناقة “ ” وہ جس نے ناقہ ثمود کی کونچیں کاٹ کر ہلاک کردیا تھا“
پیغمبر  نے فرمایا: ” صدقت ، فمن اشقی الاٰخرین ؟:
”تم نے سچ کہا ۔ آخری اقوام میں شقی ترین آدمی کون ہے ؟
علی علیہ السلام کہتے ہیں : میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مجھے معلوم نہیں ہے ، توپیغمبر  نے فرمایا: ” الذی یضرب علی ھٰذہ و اشارہ الیٰ یافوخہ“جو شخص سر کے اس مقام پر ضرب لگائے گا “ اور پیغمبر  نے آپ کی پیشانی کے اوپر والے حصہ کی طرف اشارہ کیا “2/3
بعد والی آیت میں قوم ثمود کی سر کشی کے بارے میں مزید تشریح پیش کرتے ہوئے فرماتاہے : ” اللہ کے رسول ( حضرت صالح ) نے ان سے کہا : خد ا کے ناقہ کو اس کا پانی پینے کے لئے آزاد چھوڑ دو اور اس کی مزاحمت نہ کرو“۔ ( فقال رسول اللہ ناقة و سقیاھا) ۔4
یہاں ” رسول اللہ“ سے مراد قوم ثمود کے پیغمبر ،حضرت صالح علیہ السلام ہیں ، اور ناقة اللہ ( وہ اونٹنی جو خدا کی طرف منسوب ہے )۔ کی تعبیر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ اونٹنی کوئی معمولی اونٹنی نہیں تھی بلکہ صالح علیہ السلام کی صداقت کی ایک گویا اور ناطق سند اور معجزہ کے عنوان سے بھیجی گئی تھی۔ مشہور روایت کے مطابق اس کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ مذکورہ اونٹنی پہاڑ کے ایک پتھر کے اندر سے نکلی تھی تاکہ وہ ہٹ دھرم منکرین کے لئے ایک گویا و ناطق معجزہ ہو۔
قرآن مجید کی دوسری آیات سے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صالح علیہ السلام نے انہیں یہ خبر دی تھی کہ بستی کے پینے کا پانی ان کے اور ناقہ کے درمیان تقسیم ہو۔ ایک دن ناقہ کے لئے ہوگا اور ایک بستی والوں کے لئے ہوگا ، اور ان میں سے ہر ایک اپنی باری پر پانی سے فائدہ اٹھا ئے گا ۔ اور ایک دوسرے کے لئے مزاحم نہیں ہوگا :
و نبئھم ان الماء قسمة بینھم کل شرب مختضر“ ( قمر۔ ۲۸)
اور انہیں خصوصیت کے ساتھ بتلادیا گیا: اگر تم نے اس ناقہ کو ہاتھ لگایا تو عذاب الٰہی تمہارے دامن گیر ہو جائے گا“: ” ولا تمسوھا بسوء فیاٴخذ کم عذاب یوم عظیم‘ ‘ ( شعراء۔ ۱۵۶)
اور بعد والی آیت میں فرماتا ہے :اس سر کش قوم نے اس عظیم پیغمبر کے کلمات اور اس کی تنبیہات کی کوئی پرواہ نہ کی ،اس کی تکذیب کی اور ناقہ کو ہلاک کردیا “ ( فکذبوہ فعقروھا
عقروھا“ ” عقر“کے مادہ سے ( جو ظلم کے وزن پر ہے ) کسی چیز کی اصل اور جڑ بنیاد کے معنی میں ، اور عقر ناقہ کا معنی اس کی جر کاٹنے اور ہلاک کرنے کے معنی میں ہے ۔
بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ اس سے مراد اس کی کونچیں یعنی اس جانور کے پاوٴں کے نچلے حصہ کو کاٹنا او راسے زمین پرپھینکنا ہے کہ اس کا نتیجہ بھی اس حیوان کی موت ہی ہے ۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ جس شخص نے ناقہ کو ہلاک کیا تھا وہ ایک ہی تھا جسے قرآن نے ” اشقی“ سے تعبیر کیاہے۔ لیکن اوپر والی آیت میں ہم دیکھتے ہیں کہ اس عمل کی قوم ثمود کے تمام سر کشوں اور طغیان گروں کی طرف نسبت دی گئی ہے ، اور ” عقروھا“ جمع کے صیغہ کی صورت میں آیا ہے : اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسرعے لوگ بھی اس طرح سے اس کام میں حصہ دار تھے ، کیونکہ اولا اس قسم کی سازشیں عموماً گروہ او رجمیعت کے توسط سے پیش ہوتی ہیں اس کے بعد معین آدمی یا چند افراد کے ہاتھوں پایہ تکمیل کو پہنچتی ہیں ۔ ثانیاً چونکہ دوسروں کی رضا اور خشنودی سے انجام پاتی ہیں تو وہ ان کی اس کام میں شر کت کاسبب بن جاتا ہے ، یعنی رضامندی نتیجہ میں شرکت کا سبب بنتی ہے۔
اسی لئے امیر المومنین علی علیہ السلام کے فصیح و بلیغ کلام میں آیا ہے :
” ناقہ ثمود کو صرف ایک ہی شخص نے ہلاک کیا تھا ، لیکن خد انے عذاب میں سب کو شامل کیاہے کیونکہ وہ سب اس امر پر راضی تھے ، اسی لئے فرماتا ہے :
” ان ( سب نے ) ناقہ کو ہلاک کیا ، اور اس کے بعد وہ سب اپنے کئے پر نادم ہوئے “۔ ( لیکن اس وقت جب پشیمانی کا کوئی فائدہ نہیں تھا ۔ 5
اس تکذیب اور شدید مخالفت کے بعد خدا نے انہیں ایسی سزادی کہ ان کانام و نشان تک باقی نہ رہا ، جیسا کہ اسی آیت کو جاری رکھتے ہوئے فرماتا ہے : ” ان کے پر ور دگار نے ان کے اس گناہ کی بنا ء پر جس کے وہ مرتکب ہوئے تھے سب کو نابود کردیا ، اور ان کی سر زمین کو صاف اور ہموار بنا دیا “ ( فدمدم علیھم ربھم بذنبھم فسواھا
صاعقہ یعنی اس عظیم آسمانی چیخ نے چند ہی لمحوں کے اندر اندر ان کی سر زمین کو ہلاک کر دیا اور ایسا زلزلہ پید اکیا کہ ان کے سارے کے سارے مکانات زمین بوس ہو گئے ، اور ان کے گھروں کو ان کی قبروں میں بدل کر رکھ دیا ۔
دمدم“ ” دمدمة“ کے مادہ سے ، کبھی ہلاک کرنے کے معنی میں آیا ہے ، اور کبھی عذاب اور نامکمل سزا کے معنی میں، بعض اوقات کوٹنے اور نرم کرنے کے معنی میں آیا ہے ، اور کبھی جڑ سے اکھاڑ نے کے معنی میں اور کبھی غضب ناک ہونے کے معنی میں یا احاطہ کرنے اور گھیر لینے کے معنی میں ،6
اور زیربحث میں یہ سب معانی صادق آتے ہیں کیونکہ اس وسیع عذاب کا سر چشمہ غضب الٰہی ہے ، اور ان سب کی اس نے سر کوبی کی، انہیں کمزور کیا اور انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکا ۔
سوّاھا“ ” تسویہ“ کے مادہ سے ، ممکن ہے کہ صیحہ عظیم اور صاعقہ و زلزلہ کی وجہ سے ان کے گھروں کا صفایا کرنے اور ان کی زمینوں کو صاف کرنے کے معنی میں ہو، یا اس گروہ کو ایک طرف ٹھکانے لگانے کے معنی میں ہو ، یا ان سب کی سزا و عذاب میں مساوات کے لئے ہو اس طرح کہ ا ن میں سے کوئی بھی اس ماجرے سے صحیح و سالم نہ بچا ۔
ان معانی کے درمیا ن بھی جمع ممکن ہے ۔
سوّاھا“ میں ضمیر “ قبیلہ “ ثمود کی طرف لوٹی ہے ، یاان کے شہروں اور آبادیوں کی طرف ، جنہیں خدا نے مٹی میںملا کر یکساں کردیا ۔
بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ ” دمدم“ کی طرف لوٹتی ہے جو بعد والے جملہ سے معلوم ہوتی ہے ، یعنی خدا نے اس خشم و غضب و ہلاکت کو ان کے درمیان یکساں قرارد یا۔ بعض نے یہ بھی کہا ہے یہ ” دمدم “ کی طرف لوٹتی ہے جو بعد والے جملہ سے معلوم ہوتی ہے ، یعنی خدا نے اس خشم و غضب و ہلاکت کو ان کے درمیان یکسان قرار دیا ، اور اس طرح سے کے تمام کو اس نے گھیر لیا ۔
لیکن پہلی تفسیرزیادہ مناسب نظر آتی ہے ۔
ضمنی طور پر اس آیت سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ ان کی سزا او ر عذاب ان کے گناہ کا نتیجہ ، اور اس کے ساتھ مناسبت رکھتا تھا اور یہ عین عدالت و حکمت ہے ۔
بہت سی اقوام کے بار ے میں ہم پڑھتے ہیں کہ وہ آثار عذاب کے ظہور کے وقت پشیمان ہو گئیں ، اور توبہ کی راہ اختیار کرلی، لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض روایات میں آیاہے کہ جس وقت صالح علیہ السلام کی قوم نے عذا ب کی نشانیاں دیکھیں تو وہ صالح علیہ السلام کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے کہ جہاں کہیں بھی وہ مل جائیں انہیں ہلاک کر دیں ۔ 7
 اور یہ خدا اور پیغمبر کے مقابلہ میں ان کے عصیان و سر کشی کے شدید ہونے کی دلیل ہے ۔ لیکن خدا نے صالح علیہ السلام کو نجات دی اور اس قوم کو ہلاک کردیا، اور ان کی زندگی کے دفتر کو کلی طور پر لپیٹ دیا۔
انجام کار آخری آیت میں ان تمام لوگوں کو جو اسی راستہ پر چلتے ہیں،سخت تنبیہ کرتے ہوئے فرماتا ہے : ” اور خدا کو اس کام کے انجام کا کوئی خوف نہیں ہے “۔ ( ولا یخاف عقباھا) ۔
بہت سے حاکم ہیں جو سزا دینے پر قدرت رکھتے ہیں ، لیکن وہ ہمیشہ اس کے نتیجہ اور انجام سے ڈرتے رہتے ہیں ، اس کے رد عمل اور عکس العمل سے خوف زدہ رہتے ہیں اور اسی بناء ر اپنی قدرت سے فائدہ اٹھاتے ، اور زیادہ صحیح تعبیر میں ان کی قدرت ضعف و ناتوانائی کے ساتھ اور ان کے علم و جہالت کےساتھ ملا ہواہوتا ہے وہ اس بات سے ڈر تے ہیں کہ کہیں ان میں اس کے برے نتائج کے مقابلہ کی طاقت نہ ہو۔
لیکن خدا وند قادر متعال جس کا علم ان تمام امور اور ان کے عواقب و آثار پر احاط رکھتا ہے ، اور اس کی قدرت میں حوادث کے برے نتائج کے مقابلہ میں کسی قسم کے ضعف و ناتوانی کی آمیزش نہیں ہوتی ۔ اور اسی بناء پر انتہائی قدرت اور قاطعیت کے ساتھ جس چیز کا ارادہ کرتا ہے اسے انجام دےتا ہے ۔
سر کشوں کو بھی اپنے کئے کی سز بھگتنی پڑے گی ، لہٰذا انہیںاپنے اعمال کی وجہ سے خدا کے خشم و غضب کا مشمول ہونے سے خود کو بچا ناچاہیئے ۔
عقبیٰ“ اختتام ، انتہا اور انجام کار کے معنی میں ہے اور ” عقباھا“ کی ضمیر ” دمدمہ “ اور ہلاکت کی طرف لوٹتی ہے ۔


 

۱۔بعض علماء لغت کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ ” طغیان“ ناقص وادی کی صورت میں بھی آیاہے اور ناقص پانی کی صورت میں بھی ۔ ” طغوی“ ناقص واوی کے مادہ سے لیا گیا ہے ، اور ” طغیان “ ناقص پانی سے ( غور کیجئے )
2۔ مجمع البیان جلد ۱۰ ص ۴۹۹، یہی معنی کچھ مختصر صورت میں تفسیر قرطبی میں بھی آیاہے ، جلد ۶ ص۷۱۶۸۔
3۔ ” یافوخ “ سر کے اس اگلے حصہ کو کہا جاتا ہے ، جو بچّوں میں بالکل نرم ہوتا ہے ، اور آہستہ آہستہ ہڈی کی صورت اختیار کرتا ہے ، اور مضبوط، اور وہ سر کا حساس ترین مقام ہے ۔
4۔” ناقة اللہ “ منصوب ہے ، ایک فعل محذوف سے اور تقدیر میں اس طرح ہے ، ذروا ناقة اللہ و سقیاھا ، اس کے مشابہ کو جو سورہ اعراف کی آیہ ۷۳ اور سورہ ہود کی آیہ۶۴ میں آیاہے ۔
5۔ نہج البلاغہ خطبہ ۲۰۱۔
6۔ مفرداتِ راغب، لسان العرب، مجمع البیان اور تفسیر کی دوسری کتابیں ۔
7۔ روح البیان ، جلد ۱۰ ، ص ۴۴۶۔

 

۱۔ قوم ثمود کی سر گزشت کا خلاصہ ۲۔ سورج کا عالم ِ حیات میں نقش و اثر
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma