تہذیب نفس کے بغیر نجات ممکن نہیں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونه جلد 27
۱۔ قرآنی قسموں کا ان کے نتائج کے ساتھ ربط فضیلت تلاوت

وہ پے در پے او راہم قسمیں جو اس سورہ کے آغاز میں آئی ہیں ایک حساب سے ” گیارہ “ قسمیں ہیں اور دوسرے حساب سے ”سات“ قسمیں ہیں ، اور قرآن کی بیشتر قسموں کو اپنے اندر سمویا ہواہے ۔ یہ چیز اس بات کی اچھی طرح سے نشان دہی کرتی ہے کہ یہاں کوئی بہت اہم مطلب در پیش ہے ، ایسا مطلب جو آسمانوں ، زمین اور چاند کی عظمت کے برابر ہے اور ایک ایسا مطلب ہے جو سر نوشت ساز اور حیات بخش ہے ۔
پہلے ضروری ہے کہ ہم ان قسموں کی تشریح و تفسیر بیان کریں اور اس کے بعد اس نہایت اہم مطلب پر غور کریں جس کے لئے یہ سب قسمیں کھائی گئی ہیں ۔
پہلے فرماتاہے : ” سورج کی روشنی کی قسم “ : ( و الشمس و ضحاھا
جیساکہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں قرآن کی قسموں کے عام ہر دو مقصد ہوتے ہیں ، پہلا مقصد اس مطلب کی اہمیت جس کے لئے قسم کھائی گئی ہے اور دوسرا ان امور کی اہمیت جن کی قسم کھائی گئی ہے کیونکہ قسم ہمیشہ اہم موضوعات کی کھائی جاتی ہے ، اسی بناء پر یہ قسمیں انسان کو غور و فکر کی طرف مائل کردیتی ہیں تاکہ وہ عالم خلقت کے ان اہم موضوعات کے بارے میں غور و فکر کریں ،اور ان سے خدا کی طرف راستہ نکالیں۔
” سورج“ کا انسان اور تمام زندہ زمینی موجودات کی زندگی میں اہم ترین اور پائندہ ترین نقش و اثر ہے ، کیونکہ اس بات کے علاوہ کہ وہ نور و روشنی اور حرارت کا منبع ہے، اور یہ دونوں انسانی زندگی کے اصلی عوامل میں سے شمار ہوتے ہیں ۔ دوسرے حیاتی منابع بھی اسی کے سبب سے وجود میں آتے ہیں ، ہواوٴں کا چلنا ، بارش کا برسنا ، نباتات کی پرورش ، دریاوٴں اور آبشار کا چلنا ، یہاں تک کہ قوت پید اکرنے والے منابع کا ظاہر ہونا ، جیسا کہ تیل و پیٹرول اور پتھر کا کوئلہ وغیرہ ،اگر ہم صحیح طور پر غور کریں تو ان میں سے ہر ایک کسی نہ کسی صورت میں سورج کی روانی سے ارتباط رکھتا ہے اس طرح سے کہ اگر کسی دن یہ حیات بخش چراغ خاموش ہو جائے توتاریکی و سکوت اور خاموشی و موت ہر جگہ کو گھیر لے ۔
” ضحٰی“ اصل میں سورج کی روشنی کے پھیلنے کے معنی میں ہے یہ اس وقت ہوتا ہے جب سورج افق سے اوپر آجائے اور اس کی روشنی ہر جگہ کو گھیر لے۔ اس کے بعد دن کے اس موقع پر بھی ” ضحٰی “ کا طلاق ہونے لگا ۔
خصوصیت کے ساتھ ” ضحی“ پر تکیہ اس کی اہمیت کی بناء پر کیونکہ وہ زمین پر سورج کی روشنی کے تسلط کا وقت ہوتا ہے ، اس کے بعد تیسری قسم کو پیش کرتے ہوئے فرماتا ہے :” قسم ہے چاند کی جب وہ سورج کے پیچھے پیچھے آئے “ ( و القمر اذا تلاھا) ۔
یہ تعبیر ۔ جیسا کہ مفسرین کی ایک جماعت نے کہا ہے ۔ حقیقت میں چاند کے بدر کامل ہونے یعنی چودھویں رات کی طرف اشارہ ہے ، کیونکہ چودھویں رات کا چاند غروب آفتاب کے ساتھ ہی افق پر مشرق سے نمودار ہوتا ہے اور اپنے روشن چہرے کوظاہر کرتے ہوئے اپنا تسلط آسمان پر جمالیتاہے ۔ اور چونکہ یہ اس وقت ہر زمانہ سے زیادہ عمدہ اور زیادہ پر شکوہ ہوتا ہے لہٰذا اس کی قسم کھائی ہے ۔
مفسرین نے یہ احتمال بھی دیا ہے اوپر والی تعبیر چاند کے دائمی طور پر سورج کے تابع ہونے اور اس منبع نور سے روشنی حاصل کرنے کی طرف اشارہ ہے ، لیکن اس صورت میں ” اذا تلاھا“ کا جملہ قیدِ توضیحی ہوگا ۔
بعض نے اس آیت کی تفسیر میں کچھ اور احتمال بھی دئے ہیں جو توجہ کے لائق نہیں ہیں ، لہٰذا ان کو ذکرنہیں کیا گیا ۔
چوتھی قسم میں مزید کہتا ہے : اور دن کی قسم جب وہ صفحہٴ زمین کو روشن کر دے “۔ ( و النھار اذا جلا ھا
جلاھا تجلیة“ کے مادہ سے ، اظہار و ابراز کے معنی میں ہے ۔
اس کے بارے میں کہ جلاھا کی ضمیر کس طرف لوٹتی ہے ، مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ، بہت سے اسے زمین یا دنیا کی طرف لوٹا تے ہیں ۔ ( جیساکہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے )۔ یہ ٹھیک ہے کہ گزشتہ آیات میں ” زمین “ کے بارے میں کوئی گفتگو نہیں تھی ، لیکن یہ بات قرینہٴ مقام سے واضح ہوجاتی ہے ۔
بعض کایہ بھی نظر یہ ہے کہ یہ ضمیر ” سورج“ کی طرف لوٹتی ہے ، یعنی قسم ہے دن کی کہ وہ سورج کو ظاہر کرتا ہے، لیکن پہلی تفسیر زیادہ مناسب نظر آتی ہے ۔
بہر حال اس اہم آسمانی مخلوق کی قسم اس کی نوع بشر اور تمام زندہ موجودات کی زندگی میں اس کی حد سے زیادہ تاثیر کی بناء پرہے ، کیونکہ دن حرکت ، جنبش اور حیات کا مظہر ہے، اور زندگی کی تمام جد و جہد ، کشش اور کو شش عام طور پر دن کی روشنی میں ہی صورت پذیر ہوتی ہے ۔
پانچویں قسم میں فرماتا ہے :” رات کی قسم جب وہ صفحہٴ زمین ( یا سورج ) کو ڈھانپ دیتی ہے “ ( و اللیل اذا یغشاھا)۔ ۱
رات اپنی تمام بر کات و آثار کے ساتھ ایک طرف تو سورج کی دن کی حرارت میں اعتدال پید اکرتی ہے اور دوسری طرف تمام زندہ موجودات کے آرام و سکون اور راحت پانے کا سبب بنتی ہے ۔ کیونکہ اگر رات کی تاریکی نہ ہوتی ، اور مسلسل سورج چمکتا رہتا تو آرام و سکون کا وجود ہی نہ ہوتا کیونکہ سورج جلانےو الی حرارت ہر چیز کو نابود کردیتی ہے ، یہاں تک کہ اگر شب و روز کا نظام موجودہ کیفیت کے بر خلاف ہوتا تو بھی یہی مشکل پیش آتی ، جیسا کہ چاند میں جس کی راتیں کرّہٴ زمین کے دو ہفتوں کے برابر ہوتی ہیں اور دن بھی ہفتے کے برابر ہوتے وہ حرارت تقریباً تین سو درجہ سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتی ہے، جس میں کوئی بھی زندہ موجود جسے ہم پہچانتے ہیں باقی نہیں رہ سکتا اور آدھی رات کے وقت اس کا درجہ حرارت صفر سے نیچے چلاجاتا کہ اگر وہاں پرکوئی زندہ موجود ہوتو یقینی طور پر برف ہوکر نابود ہوجائے ۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ گزشتہ آیا ت میں افعال ماضی کی صورت میں آئے تھے اور اس آیت میں مضارع کی صورت میں آئے ہیں ، تعبیر کا یہ فرق ممکن ہے ، اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ شب و روز کے ظہور مثلاً حوادث کسی زمانے کے ساتھ مخصوص نہیں ہوتے وہ گزشتہ اور آئندہ سب کو شامل ہوتے ہیں اس لئے بعض فعل ماضی کی صورت میں اور بعض مضارع کی صورت میں آئے ہیں ، تاکہ ان حوادث کی عمومیت کوزمانہ کے ضمن میں واضح کریں ۔
چھٹی اور ساتویں قسم میں آسمان او رخالق ِ آسمان کی طرف توجہ کرتا ہے اور مزید فرماتا ہے :” قسم ہے آسمان کی اور اس ذات کی جس نے آسمان کو بنایا “ (والسماء و ما بناہا
ایسی خیرہ کرنے والی عظمت کے ساتھ آسمان کی اصل خلقت ، عالم خلقت کے عظیم عجائبات میں سے ہے ، اور ان تمام ستاروں ، اجرامِ سماوی اور ان پر حاکم نظام ایک تعجب خیز چیز ہے ۔ اور ان سب سے زیادہ اہم اس آسمان کا خالق ہے۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ لفظ ”ما“کو مصدریہ “مراد لینے پر مجبور ہوئے ہیں نہ کہ ،مو صولہ“ اور اس صورت میں آیت کا مفہوم اس طرح ہوگا ،: قسم ہے آسمان کی اور اس کی بناکی “۔
لیکن آیات” ونفس وما سواھا فالھمھا فجورھا و تقواھا“ کی طرف توجہ کرتے ہوئے ، جن کی تفسیر عنقریب بیان کی جائے گی ، اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے کہ” ما“ ” موصولہ “ہو اور خدا کی ذات ِپاک کی طرف اشارہ ہو جو تمام آسمانوں کا خالق ہے ، اور عربی زبان میں افراد ذی العقول کے بارے میں بھی ” ما“ کا استعمال ہوتا رہتا ہے ، جیساکہ سورہٴ نساء کی آیت ۳ میں آیاہے : فانکحوا ماطاب لکم من النساء : جو عورتیں پسند آئیں ان سے نکا ح کرو۔
مفسرین کی ایک جماعت کا نظریہ ، یہ ہے کہ ” ما“ ( جس چیز) کی تعبیر یہاں اس بناء پرہے کہ مبداٴ جہان کو پہلے مبہم صورت میں ذکر کیا گیا ہو، تاکہ بعد میں غور و تحقیق اور مطالعہ کے ساتھ اس کے علم و حکمت سے آشنا ہوں ، اور ” جو چیز “ اس ذات “ کے ساتھ تبدیل ہوجائے ، لیکن تفسیر زیادہ مناسب ہے ۔
پھر آٹھویں اورنویں قسم میں ” زمین“ اور ” زمین کے خالق“ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فرماتا ہے : قسم ہے زمین کی اور اس کی جس نے زمین کو بچھایا “ ( و الارض وما طحاھا
زمین جو انسان اور تمام زندہ موجودات کی زندگی کا گہوارہ ہے۔
زمین جو اپنی تمام حیرت انگیز چیزوں : پہاڑوں ، سمندروں ، درّروں ، جنگلوں ، چشموں ، دریاوٴں ، معادن اور ا س کے گرانبہا منابع کے ساتھ ، کہ ان میں سے ہرایک اکیلا بھی حق تعالیٰ کی آیات میں سے ایک آیت اور اس کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ۔
اور اس سے بر تر و بالا اس زمین کا خالق اور وہ ذات ہے کہ جس نے اسے بجھا یا ہے ۔
طحاھا“ ” طحو“ ( بروز ن سھو) کے مادہ سے بچھانے اور پھیلانے کے معنی میں بھی آیاہے اور دھکیلنے ، اور دور کرنے اور ختم کرنے کے معنی میں بھی، اور یہاں بچھانے کے معنی میں ہے ، کیونکہ اولاً زمین ابتدامیں پانی کے نیچے غرق تھی ۔ بتدریج آہستہ آہستہ پانی زمین کے گڑھوں میں قرار پایا اور خشکیوںنے سر نکال لیا اور زمین پھیلتی چلی گئی اور اس کو ” دحو الارض “ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔
ثانیاً زمین ابتدا میں پستیوں اور بلندیوں او رناقابل ِ سکونت گڑھوں کی صورت میں تھی جس پر مسلسل موسلادھار بارشیں بر سیں جنہوں نے زمین کی بلندیوں کو دھو دیا اور گھاٹیوں میں پھیلادیا ۔ اور آہستہ آہستہ انسانی زندگی اور زراعت کے لئے قابلِ استفادہ ہموار زمینیں وجود میں آگئیں ۔
بعض مفسرین کا نظریہ یہ ہے کہ اس تعبیر مین زمین کی حرکت کی طرف ایک اجمالی اشارہ موجود ہ ، کیونکہ ” طحو“ کے معانی میں سے ایک معنی دھکیلنا بھی ، جو سورج کے گرد زمین کی انتقالی حرکت کی طرف اشارہ ہوسکتا ہے ، یا اس کی محوری حرکت، یا دونوں قسم کی حرکت بھی ہو سکتی ہے ۔
اور آخر میں ” دسویں “ اور ” گیارہویں “ قسم کوپیش کر تے ہوئے کو اس سلسلہ کی آخری قسم ہے ، فرماتا ہے : قسم ہے انسان کے نفس کی ، اور اس ذات کی ، جس نے اسے مرتب و منظم کیا ہے “ ( ونفس و ما سواھا
وہی انسان جو عالم خلقت کا خلاصہ جہانِ ملک و ملکوتکا نچوڑاور عالم ِ آفرینش کا گلِ سر سبد ہے :
یہ عجیب مخلوق جو عجائبات اور اسرار سے پر ہے اس قدر اہم ہے کہ خدا نے خود اس کی اور اس کے خالق کی ایک ہی جگہ قسم کھائی ہے ۔ اس بارے میں کہ یہاں “ نفس“ سے مراد انسان کی رو ح یا جسم و روح دونوں ؟ مفسرین نے کئی احتمال دیئے ہیں ۔
اگر مراد روح ہوتو پھر” سوّاھا“ سے مراد ( جو تسویہ کے مادہ سے ہے ) انسان کے روحی قویٰ اور استعدادوں کی ، حواس ظاہری سے لے کر ادراک ، حافظہ، انتقال ، تخیل ، ابتکار، عشق ،اور ارادہ ، تصمیم اور اسی قسم کے قوای، جو ” علم النفس“ کے مباحث میں بیان ہوئے ہیں ، تنظیم و تعدیل ہے ۔
اور اگر روح و جسم دونوں مراد ہوں تو پھر بدن کے تمام حیرت انگیز نظاموں اور ا سکے مختلف کار خانوں کو۔ جن کے بارے میں علم ” تشریح الاعضاء“ فزیالوجی “ ( فعال الاعضاء) میں تفصیل کے ساتھ بحث کی گئی ہے۔ شامل ہوگا ۔ البتہ قرآن مجید میں نفس کا دونوں معانی پر اطلاق ہو اہے :
روح کے بارے میں سورہ زمر کی آیت ۲۴ میں آیاہے : اللہ یتوفی الانفس حین موتھا:”خدا موت کے وقت ارواح کو لے لیتا ہے “۔
اور جسم کے بارے میں سورہٴ قصص کی آیت ۳۳ میں آیاہے کہ موسیٰ علیہ السلام کہتے ہیں : قال رب انی قتلت منھم نفساً فاخاف ان یقتلون: موسیٰ وعلیہ السلام نے کہا، میں نے ان ( ظالم فرعونیوں ) میں سے ایک کو قتل کردیا ہے ، مجھے ڈر ہے کہ وہ مجھے قتل کردیں گے ۔
لیکن یہاں مناسب یہ ہے کہ دونوں کو شامل ہو ، کیونکہ خدا کی قدرت کی حیرت انگیزیاں جسم میں بھی موجود ہیں اور روح میں بھی ، اور ان میں سے کسی ایک کے ساتھ اختصاص نہیں رکھتیں ۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہاں ”نفس“ نکرہ کی صورت میں بیان ہوا ہے ۔ ممکن ہے کہ یہ بات نفسِ انسانی کی اہمیت و عظمت کی طرف اشارہ ہو، ایسی عظمت جوتصور سے مافوق اور ابہام سے ملی ہوئی ہو ، جو اس کے انجانے موجود کی صورت میں تعارف کراتی ہے جیساکہ موجودہ زمانہ کے ایک عظیم ترین عالم نے انسان کو اسی عنوان سے تعبیر کیا ہے ، اور انسان کا ”موجودناشناختہ “نام رکھا ہے ۔
ہاں ! جب اس کی خلقت کی تکمیل ہوگئی اور اس کی” ہستی “وجود میں آگئی تو خدا نے اسے ” باید ھا و نباید ھا“( جوکام کرنے چاہئیں اور جو کام نہیں کرنے چاہئیں ) کی تعلیم دی ۔
اور اس طرح سے وہ ایک وجود بن گیا ،جو خلقت کے لحاظ سے ” سڑی ہوئی گیلی مٹی اور روحِ الہٰی کا مجموعہ ہے ، تعلیمات کے لحاظ سے ” فجور و تقویٰ سے آگاہ ہے “ اور نتیجہ کے لحاظ سے وہ ایک ایسا وجود ہے کہ جو قوسِ صعودی میں فرشتوںسے بر تر ہوسکتا ہے ، فرشتوں سے بھی آگے پرواز کرسکتا ہے ، اور جو بات وہم میں بھی نہ آئے وہ بھی بن سکتا ہے ، جب کہ قوس نزولی میں درندہ جانوروں سے بھی پست تر ہوجائے اور” بل ھم اضل “ کے مرحلہ تک جا پہنچے ، اور یہ چیز اس بات پرموقوف ہے کہ وہ اپنے ارادہ و اختیار کے ساتھ کونسی راہ اختیار کرتا ہے ۔
الھمھا“ ” الھام “ کے مادہ سے اصل میں تو کسی چیز کے نگلنے یا پینے کے معنی ہے ، اور اس کے بعد پروردگار کی طرف سے انسان کی روح میں کسی مطلب کے القاء کرے نے کے معنی میں آیاہے ۔ گویا انسان کی روح اس مطلب کو اس کے سارے وجود کے ساتھ پی لیتی ہے اور نگل جاتی ہے ۔ اور کبھی وحی کے معنی میں بھی آیاہے ۔ لیکن بعض مفسرین کانظر یہ یہ ہے کہ ” الہام “ اور ” وحی “ ،میں فرق یہ ہے کہ وہ شخص جسے الہام ہوتا ہے وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ مطلب اسے کہاں سے حاصل ہوا ہے ، جبکہ وحی کے وقت وہ جانتا ہوتا ہے کہ یہ اسے کہاں سے کس ذریعہ سے پہنچتی ہے ۔
” فجور“ ” فجر “ کے مادہ سے ۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بھی اشارہ کیا ہے ۔ وسیع شگاف کرنے کے معنی میں ہے ۔ اور چونکہ صبح کی سفیدی رات کے پردہ کو چاک کردیتی ہے ، لہٰذا اسے ” فجر “ کہا گیا ہے ۔ اور چونکہ گناہوں کا ار تکاب بھی دیانت کے پردہ کو چاک کردیتا لہٰذا اس پر” فجور “ کا اطلاق ہواہے ۔
البتہ زیر بحث آیت میں ” فجور“ سے مراد وہی اس کے اسباب ، عوامل اور طریقے ہیں ۔
اور ” تقویٰ “ سے مراد ، جو” وقایة“ کے مادہ سے نگہداری کے معنی میںہے ، یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو قباحتوں، برائیوں ، آلودگیوں اور گناہوں سے محفوظ اور دور رکھے ۔
یہ بات بھی یاد دلانا ضروری ہے کہ اس آیت(فالھھا فجورھا و تقواھا) کے معنی یہ ہیں ، کہ خدا نے فجور و تقویٰ کے عوامل انسان کی روح کے اندر ایجادکردیئے ہیں ، ایسے عوامل جو اسے فجور و آلودگی اور حیا کے پردوں کو چاک کرنے کی دعوت دیتے ہیں ، اور ایسے عوامل جو اسے خیرات اور نیکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں ، جیسا کہ بعض نے خیال کیا ہے اور آیت کو انسان کے وجود میں تضاد کے موجود ہونے کی دلیل سمجھا ہے ۔
بلکہ وہ کہتاہے کہ اس نے ان دوحقیقتوں کا اسے الہام کیا اور تعلیم دی ، یا زیادہ سادہ اور آسان زبان میں اس کو اور چاہ کی نشان دہی کر دی ، جیسا کہ سورہ بلد کی آیت ۱۰ میں آیا ہے : و ھدیناہ النجدین :“ ہم نے انسان کو خیر و شر کی ہدایت کردی ہے ۔
اور دوسرے لفظوں میں خدا نے اسے تشخیص کی ایسی قدرت اور بیدار عقل و وجدان عطا کیا ہے کہ وہ ” فجور و تقویٰ “ ”عقل “ و ” فطرت“ کے طریقہ سے معلوم کر لیتا ہے ۔
اسی لئے بعض مفسرین نے یہ کہا ہے کہ یہ آیت حقیقت میں ” حسن و قبح عقلی “ کے مسئلہ کی طرف ایک اشارہ ہے کہ خدا نے ادراک کی توانائی انسانوں کو عطاکی ہے ۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ خدا نے انسا ن کو بے شمار نعمتیں عطا کیں ہیں ، لیکن ان تمام نعمتوں میں سے یہاں مسئلہ فجور و تقویٰ اور حسن و قبح کے ادراک پر تکیہ کیا ہے کیونکہ یہ مسئلہ انسان کی زندگی کے مسائل میں سے زیادہ قسمت کو بنا نے یا بگاڑنے والا مسئلہ ہے ۔
انجام کار ان تمام اہم اور پے در پے قسموں کے بعد کے نتیجہ کو پیش نظر کرتے ہوئے فرماتاہے :” ان چیزوں کی قسم ہے کہ ” جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا وہ نجات پائے گا“۔ ( قد افلح من زکّٰھا
زکّٰھا“ ” تزکیة“ کے مادہ سے اصل میں ، جیسا کہ راغب نے منفردات میں بیان کیا ہے ، رشد و نمو کے معنی میں ہے اور زکوٰة بھی اصل میں نشو نما اور رشد کے معنی میں ہے ۔ اسی لئے ایک روایت میں حضرت علی علیہ السلام سے آیاہے :” المال تنقصہ النفقة و العلم یکوا علی الانفاق “۔ ”ما تو خرچ کرنے سے کم ہوتا ہے لیکن علم خر چ کرنے سے بڑھتا ہے اور نشو و نما پاتا ہے ، 2
اس کے بعد یہ لفظ طہارت اور پاک کرنے کے معنی میں بھی آیاہے ، شاید اس مناسبت سے کہ آلودگیوں سے پاک کرنا رشد و نمو کا سبب ہوتا ہے ، اور زیر بحث آیت میں دونوں معانی کا امکان ہے ۔
ہاں ! رست گاری اور نجات اس شخص کے لئے ہے جو اپنے نفس کی تربیت اور نشو و نما کرے اور اسے شیطانی اخلاق و عادات ، گناہ و عصیان اور کفر سے پاک رکھے ۔
حقیقت میں انسان کی زندگی کا اصلی مسئلہ بھی یہی ” تزکیہ“ ہی ہے کہ اگر ہوتو وہ سعادت مند ہے ورنہ بد بخت و بے نوا ہے اس کے بعد گروہ ِ مخالف کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے ،: ناامید و بد بخت ہو اوہ شخص جس نے اپنے نفس کو معصیت و گناہ سے آلودہ کیا ۔” ( و قدکاب من دسا ھا )۔” خاب“ ” خیبة“ کے مادہ سے ، اصل میں کسی چیز کو کراہیت و ناپسندیدگی کے ساتھ داخل کرنے کے معنی میں ہے ۔3
جیسا کہ قرآن مجید عرب جاہلوں کے اپنی لڑکیوں کے زندہ درگور کرنے کے بارے میں فرماتاہے : ام ید سہ فی التراب :” اسے کراہت و نفرت سے مٹی میں پنہاں کردیتا ہے “۔ ( نحل ۔ ۹۵)
” دسیسة“ نقصان دہ مخفی کاموں کے لئے بولا جاتا ہے ۔
زیر بحث آیت کے اس معنی کی مناسبت کے بارے میں مفسرین نے مختلف بیان دیئے ہیں ۔
کبھی تو یہ کہا گیا کہ یہ تعبیر گناہ اور فسق سے کنایہ ہے ، کیونکہ اہل تقویٰ و صلاح خود کو آشکار کرتے ہیں ، جب کہ آلودہ او رگنہگار لوگ خود کو چھپاتے ہیں ، جیسا کہ نقل ہوا ہے کہ عربوں میں جو گ زیادہ سخی ہوتے تھے وہ اپنے خیمے اونچی جگہ پر نصب کرتے تھے اور رات کو آگ جلا دیا کرتے تھے تاکہ حاجت مند رات میں جب چاہیں ان کے پاس آسکیں اور ان سے مانوس ہو سکیں ، لیکن بخیل اور کنجوس لوگ نشیبی زمینوں میں خیمے لگاتے تھے تاکہ کوئی شخص ان کے پاس نہ آسکے ۔
اور کبھی یہ کہا ہے کہ اس سے مراد ہے کہ گنہگار خود کو صالح لوگوں میں پنہاں کرلیتے ہیں ۔
یا اپنے نفس یا اپنی ہئیت ِ انسانی کو معاصی و گناہ میں چھپالیتے ہیں ۔
یا معاصی و گناہ کو اپنے نفس کے اندر چھپالیتے ہیں ۔
بہر حال یہ گانہ و معصیت اور شیطانی عادات سے آلودگی سے ایک کنایہ ہے ۔ اور یہ ٹھک تزکیہ کا نقطہ ٴ مقابل ہے ۔
اس آیت کے وسیع مفہوم میں ان تمام معانی کو جمع کرنے میں بھی کوئی مانع نہیں ہے ۔
اس طرح سے دنیا وی زندگی کے میدان میں کامیاب ہونے والے اور شکست کھانے والے مشخص ہوجاتے ہیں اور ان دونوں گروہوں کی قدرو قیمت کا معیار ” تزکیہ نفس اور روحِ تقویٰ و اطاعت خدا وندی نمود و رشد ” یا “ انواع و اقسام کے معصی اور گناہوں سے آلودگی“ کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔
اور اس سے وہ بات واضح ہو جاتی ہے ، جو امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس آیت کی تفسیر میں نقل ہوئی ہے ، کہ آپ نے فرمایا :
” قد افلح من اطاع و خاب من عصی “:
” جس نے اطاعت کی وہ نجات پاگیااور جس نے نافرمانی کی و ہ ناامید اور محروم ہوگیا“۔ 4
یہ حقیقت میں نتیجہ کا بیان اور مقصود کا ماحصل ہے ۔
ایک اور حدیث میں آیاہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جس وقت آیہ” قد افلح من زکّاھا“ کی تلاوت کی تو ” اللھم اٰت نفسی تقواھا، انت ولیھا و مولاھا ، و زکھاانت خیر من زکا ھا“
” خدا وندا ! میرے نفس کو اس کاتقویٰ عطا فرما، تو اس کا ولی و مولا ہے ، اور اس کا تزکیہ فرما ، کیونکہ تو بہترین تزکیہ کرنے والا ہے “۔ 5
یہ گفتگو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اس پر پیچ و خم راہ کو عبور کرنا اور اس دشوار گزار گھاٹی سے گزرنا پیغمبر اکرام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک کے لئے بھی توفیق الہٰی کے بغیر ممکن نہیں ہے ، یعنی بندوں کی طرف سے قدم اٹھانے اور خدا کی طرف سے تائیدات کے ذریعے لہٰذا ایک اور حدیث میں آیاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان دوآیات کی تفسیر میں فرمایا:
افلحت نفس زکاھا اللہ ، و خابت نفس خیبھا اللہ من کل خیر! “:” جس نفس کا خدا نے تزکیہ کیا وہ نجات پاگیا ، اور جس نفس کو خدا نے خیر سے محروم کردیا وہ نامید و محروم ہو گیا “۔ 6


 

۱۔ اس بارے میں کہ یغشاھا““ کی ضمیر کس چیز کی طرف لوٹتی ہے ؟ یہاں بھی دو نظر یے ہیں ، ایک تو یہ ہے کہ یہ ” زمین “ کی طرف لوٹتی ہے ، کیونکہ رات ایک پردہ کی مانند ہے جو صفحہٴ زمین پر گر تا ہے ، اور دوسرا یہ ہے کہ یہ ” سورج“ کی طرف لوٹتی ہے ، کیونکہ رات ایک پردہ کی مانند ہے جو سورج کے چہرے پر پڑتا ہے، البتہ اس صورت میں اس کا مفہوم مجازی ہوگا ، کیونکہ رات حقیقت میں سورج پر پردہ نہیں ڈالتی ۔ بلکہ سورج کے غروب ہونے کے بعد ظاہر ہوتی ہے ۔ حقیقت میں اگرگزشتہ آیت میں ضمیر ” ارض “ کی طرف لوٹے تو یہاں بھی ایسا ہی ہونا چاہئیے اور اگر ” شمس “ کی طرف لوٹے تو پھر یہاں بھی اسی طرح ہوگا ۔
2۔۔نہج البلاغہ کلمات قصار کلمہ ۱۴۷۔
3۔مفردات” راغب “و ” قاموس اللغہ“
4 ۔ ” مجمع البیان “ جلد ۱۰ ص ۴۹۸۔
5۔ ’ مجمع البیان “ جلد ۱۰ ص ۴۹۸۔
6۔ در المنثور جلد ۶ ص ۳۵۷۔

 

۱۔ قرآنی قسموں کا ان کے نتائج کے ساتھ ربط فضیلت تلاوت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma