۳۔ نجدین کی طرف ہدایت

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونه جلد 27
دشوار گزار گھاٹی ۲۔ زبان کی حیرت انگیزیاں

نجد“ جیساکہ ہم نے بیان کیا ہے ، بلندی یابلند سر زمین کے معنی میں ہے اور یہاں ” خیر “ و ” شر “ کی راہ مراد ہے ۔ ایک حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے آیا ہے کہ آپ نے فرمایا :
’ ’ یا ایھا ا لناس ! ھما نجدان : نجد الخیر و نجد الشر فما جعل نجد الشر احب الیکم من نجد الخیر “۔
” اے لوگو! دو بلند سر زمینیں موجود ہیں ، خیر کی سر زمین اور شر کی سر زمین ، اور شر کی سر زمین تمہارے لئے خیر کی سر زمین سے ہر گز زیادہ محبوب قرار دی گئی ۔ ۱
اس میں شک نہیں کہ” تکلیف “ او رمسئولیت ، معرفت و آگاہی کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ اور اوپر والی آیت کے مطابق خدا نے یہ آگاہی انسانوں کے اختیار میں دے دی ہے ۔
یہ آگاہی تین طریقوں کے انجام پاتی ہے :
۱۔ عقلی اسراکات اور استدلال کے طریق سے ۔
۲۔ فطرت و وجدان کے طریق سے ، جس میں استدلال کی ضررت نہیں ہوتی ۔
۳۔ روح اور انبیاء و اوصیاء کی تعلیمات کے طریق سے اور تکامل کی راہ کو طے کرنے کے لئے انسان کو جن جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ان کی خدا نے ان تین طریقوں میں سے کسی ایک سے یابہت سے موارد میں ان تینوں ہی طریقوں سے اسے تعلیم دی ہے ۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس حدیث میں اس بات کی تصریح ہوئی ہے کہ ان دونوں راستوں میں کسی ایک کا طے کرنا انسان کی طبیعت او رمزاج کے لئے دوسرے سے زیادہ آسان نہیں ہے اور یہ بات حقیقت میں اس عمومی تصور کی کہ انسان برائیوں کی طرف زیادہ میلان رکھتا ہے اور شر کے راستے کو طے کرنا اس کے لئے زیادہ آسان ہے ، نفی کرتی ہے ۔
اور یہ سچی بات ہے کہ اگر غلط تربیتیں اور فاسد ماحول نہ ہو تو انسان کو نیکیوں کے ساتھ لگاوٴ اور محبت زیادہ ہوتی ہے ۔ اور شاید ” ننجد“ ( بلند سر زمین ) کی تعبیر نیکیوں کے بارے میں اسی بناء پر ہے ، کیونکہ بلند زمینیں بہتر اور زیادہ عمدہ فضا رکھتی ہیں ، اور شرور کے بارے میں تغلیب کی بناء پر ہے ۔
بعض نے یہ بھی کہاہے کہ یہ تعبیر خیر و شر کے راستہ کے ظاہر ، نمایاں اور آشکار ہونے کی طرف اشارہ ہے ، جس طرح سے مرتفع اور بلند سر زمین مکمل او رپورے طور پر نمایا ں ہوتی ہے ۔ ۲

۱۱۔ فلا اقتحم العقبة ۔ ۱۲۔ وما ادراک مالعقبة۔ ۱۳۔ فکُّ رقبةٍ ۔ ۱۴۔ اواطعام فی یوم ذی مسغبةٍ۔
۱۵۔ یتیماً ذا مقربةٍ ۔ ۱۶۔ او مسکیناً ذا متربةً
۱۷۔ ثم کان من الذین اٰمنوا و توصوا بالصبر و تواصوا بالمرحمةِ۔
۱۸۔ اولٰئِک اصھاب المیمنةِ۔ ۱۹۔ و الذین کفروا باٰیاتنا ھم اصحاب المشئمةِ ۔ ۲۰۔ علیہم نارٌ موٴصدةٌ۔
تر جمہ
۱۱۔ لیکن وہ ( ناشکرا انسان ) اس اہم گھاٹی سے اوپر نہیں گیا ۔
۱۲۔ اور تجھے کیا معلوم کہ وہ گھاٹی کیا ہے ؟ ۱۳۔ غلام کو آزاد کرناہے ۔ ۱۴۔ یا بھوک کے دن کھانا کھلانا ہے ۔
۱۵۔ رشتہ داروں میں کسی یتیم کو ۔ ۱۶۔ یا خاک پر پڑے ہوئے مسکین کو ۔
۱۷۔ پھر اسے ایسے لوگوں میں سے ہونا چاہئیے جو ایمان لائے ہیں او رجو ایک دوسرے کو صبر و شکیبائی اور رحم کرنے کی وصیت کرتے ہیں۔
۱۸۔ وہ اصحاب الیمین ہیں ( اور ان کے نامہٴ اعمال کو ان کے دائیں ہاتھ میں دیں گے )۔
۱۹۔ اور جن لوگوں نے ہماری آیات کا انکار کردیا ، وہ شوم او ربد بخت لوگ ہیں اور ان کا نامہٴ اعمال ان کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔
۲۰۔ ان کو آگ نے ہر طرف سے گھیررکھا ہے ،( جس سے بھاگنے کی کوئی راہ نہیں ہے )۔


 

۱۔ ” مجمع البیان “ جلد ۱۰ ص ۴۹۴ و تفسیر قرطبی جلد ۱ ص ۷۱۵۵۔
۲۔ جیسا کہ چاند اور سورج کو ” قمران “ ( دوچاند) کہا جاتا ہے ۔

دشوار گزار گھاٹی ۲۔ زبان کی حیرت انگیزیاں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma