آنکھ ، زبان او رہدایت کی نعمت

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونه جلد 27
 ۱۔ آنکھ کی حیرت انگیز یاں اس شہر ِ مقدس کی قسم

گزشتہ آیات کے بعد، جن میں سر کشی کرنے والے انسانوں کے غرور و غفلت کے بارے میں گفتگو تھی ، زیر بحث آیات میں انسان پر خدا کی اہم ترین مادی و معنوی نعمتوں کا کچھ حصہ بیان کرتا ہے ،تاکہ ایک طرف تو اس کے غرور و غفلت کو توڑدے اور دوسری طرف اسے ان نعمتوں کوخلق کرنے والے میں تفکر اور غور و خوض کرنے پر آمادہ کرے اور اس کے دل و جان کے اندر شکر گذاری کے احساس کو بیدار کرکے اسے خالق کی معرفت کی طرف چلائے ۔
پہلے فرماتا ہے :” کیا ہم نے اس انسان کے لئے دو آنکھیں قرار نہیں دیں “۔ ( الم نجعل لہ عینین
” اور ایک زبان اور دو ہونٹ( نہیں دیئے )“؟! (و لسانا ً و شفتین)۔ اور ہم نے اسے اس کی بھلائی اور برائی کو دونوں راہیں دکھادیں “ ( و ھدینا النجدین )اس طرح ان چند مختصر جملوں میں تین اہم مادی نعمتوں اور ایک عظیم معنوی نعمت کی طرف ، جو سب کی سب خدا کی عظیم ترین نعمتیں ہیں ، اشارہ کیا ہے ۔ ایک طرف تو آنکھوں ، زبان اور لبوں کی نعمت ہے اور دوسری طرف خیر و شر کی معرفت وہدایت کی نعمت ہے ۔
( اس بات کی طرف توجہ رہے کہ ” نجد“ اصل میں مرتفع اور بلند مقام کے معنی میں ہے ،” تھامہ“ کے مقابلہ میںپست زمینوں پربولا جاتاہے ، یا دوسرے لفظوں میں ” بلند جگہ “ اور پست جگہ “ اور یہاں خیر و شر و شقاوت کی راہ سے کنایہ ہے ۔ ۱
اوپر والی نعمتوں کی اہمیت کے بارے میں بس اتنا کافی ہے کہ :
” آنکھ “ بیرونی دنیا سے انسان کے رابطہ کے لئے ایک اہم ترین ذریعہ ہے آنکھ کے عجائبات اس قدر ہیں کہ وہ واقعی طور پر انسان کو خالق کے مقابلہ میں خضوع کرنے پر آمادہ کر دیتے ہیں ، آنکھ کے سات طبقے ہیں جو صلبیہ ( قرنیہ ) مشیمیہ ، عیبیہ ،زلالیہ، زجاجیہ اور شبکیہ کے نام سے موسوم ہیں، ان میں سے ہر ایک عجیب و غریب اور عمدہ ساخت رکھتا ہے جن میں نور اور روشنی او رآئینوں سے مربوط طبیعاتی اور جسمانی قوانین کا بہت ہی باریک بینی کے ساتھ خیال رکھاگیا ہے ۔ اس طرح سے کہ تصویر کشی کی ترقی یافتہ دور بینیں بھی اس کے مقابلہ میں بے قدرو قیمت ہیں ، اور حقیقت یہ ہے کہ اگر ساری دنیا میں انسان کے سوا اور سارے وجودِ انسانی میں انکھ کے علاوہ اور کوئی چیز نہ ہوتی تو اس کی عجائبات کا مطالعہ پر وردگار کے عظیم علم قدرت کی شناخت کے لئے کافی تھا ۔
باقی رہی ” زبان “ تو وہ انسان کے لئے دوسرے انسانوں سے ارتباط، اور ایک قوم سے دوسری قوم ، اور ایک نسل سے دوسری نسل کی طرف اطلاعات ومعلومات کے نقل ہونے ، اور مبادلہ کا ایک اہم ترین ذریعہ ہے ، اور اگر یہ ارتباط کا ذریعہ نہ ہوتا تو انسان ہر گز کبھی بھی علم و دانش او رمادی تمدن او رمعنوی مسائل میں اس حد تک ترقی نہ کرسکتا ۔
باقی رہے ” لب“ تو ” اولاً“ بول چال میں ان کا بہت بڑا حصہ ہے کیونکہ بہت سے حروف لبوں ہی کے ذریعہ ادا ہوتے ہیں اس کے علاوہ ہونٹ کے چبانے ، اور منہ کی رطوبت کو محفوظ رکھنے اور پانی کے پینے میں بہت زیادہ مدد کرتے ہیں ، اور اگر یہ نہ ہوتے تو انسان کے کھانے پینے کا مسلہ ، یہاں تک کہ اس کے چہرے کامنظر ، اس کے لعاب دہن کے باہر کی طرف بہنے کی وجہ سے ، اور بہت سے حروف کی ادائیگی پر قدرت نہ رکھنے کی بناء پر افسوس ناک ہوتا۔
اور چونکہ حقائق کا ادراک پہلے درجہ میں آنکھ اور زبان سے ہوتا ہے ۔ ان کے بعد ” عقل “ اور فطری ہدایت آتی ہے ، یہاں تک کہ آیت کی تعبیر ” ہدایت تشریعی “ کو بھی جو انبیاء و اولیاء کے ذریعے ہوتی ہے شامل ہے ۔
ہاں !اس نے دیکھنے والی آنکھ اور زبان کو بھی انسان کے اختیار میں رکھا ہے ، اور” راہ اور چاہ “ کی بھی اسے نشاندھی کرادی ہے ” تا آدمی نگاہ کند پیش پائے خویش “ تاکہ انسان اپنے سامنے کی ہر چیز کو دیکھ لے ۔
لیکن ان روشن چراغوں کے باوجود ، جو اس کے راستے میں موجود ہیں ، اگر پھر بھی کو ئی راستہ سے ہٹ جاتا ہے تو پھر کہنا چاہئیے : ” بگذار تابیفتد و بیند سزای خویش “ ! اسے گرنے دو تاکہ وہ اپنی سزا پالے ۔
” و ھدینا ہ النجدین “۔ ( ہم نے اسے بھلائی اور برائی کے دونوں راستے دکھا دیئے ) کاجملہ علاوہ اس کے کہ وہ انسان کے ارادہ کی آزادی اور اختیار کے مسئلہ کو بیان کرتا ہے ، اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے ” نجد“ اونچی جگہ کو کہتے ہیں لہٰذا یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خیر اور بھلائی کی راہ کو طے کرنا مشکلات ، زحمت اور رنج سے خالی نہیں ہے ، جیساکہ اونچی زمینوں کی طرف جانا مشکل ہے یہاں تک کہ شراور برائی کی راہوں کا طے کرنا بھی مشکلات رکھتا ہے ۔ لہٰذا کیسی اچھی بات ہے کہ انسان سعی و کوشش سے خیر کی راہ کو اختیار کرے ۔
لیکن ا س کے باوجود راستہ کا انتخاب کرنا خود انسان کے اختیار میں ہے ۔ یہ وہی ہے جو اپنی آنکھ اور زبان کو حلال یا حرام کے راستہ میں گردش دے سکتا ہے اور خیر و شر کی دونوں راہوں میں جسے چاہے انتخاب کرسکتا ہے ۔
لہٰذا ایک حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی ہے خدا وند تعالیٰ آدم علیہ السلام کی اولاد سے کہتا ہے :
یابن اٰدم ! ان نازعک لسانک فیما حرمت علیک فقد اعنتک علیہ بطبقتین فاطبق، ان نازعک بصرک الیٰ بعض ماحرمت علیک فقد اعنتک علیہ بطقتین فاطبق
” اے اولاد آدم ! اگر تیری زبان تجھے کسی فعل ِ حرام پر ابھار نا چاہئیے، تو میں نے اسے روکنے کے لئے دو ہونٹ تیرے اختیار میں دئے ہیں ۔ پس تو ہونٹوکو بند کرے اور اگر تیری آنکھ تجھے حرام کی طرف لے جانا چاہے تو میں نے پلکیں تیرے اختیار میں دے دی ہیں تو انہیں بند کرلے “2
اس طرح سے خدا نے ان عظیم نعمتوں پر کنٹرول کے وسائل و ذرائع بھی انسا ن کے اختیار میں دیئے ہیں اور یہ ایک اور اس کا عظیم لطف ہے ۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ اوپر والی آیات میں زبان کے بارے تو لبوں کی طرف اشارہ ہواہے، لیکن آنکھوںکے بارے میں پلکوں کی طرف اشارہ نہیں ہوا۔ اس کے بظاہر دو اسباب ہیں ، ایک تو یہ ہے کہ کہ لبوں کاکام بات کرنے ، کھانے اور تمام پہلووٴں میں پلکوں کی نسبت آنکھوں کے لئے کام کرنے سے کئی گناہ زیادہ ہے ، اور دوسرا سبب یہ ہے کہ زبان کاکنٹرول کرنا آنکھ کے کنٹرول سے کئی درجے زیادہ اہم ہے ، اور زیادہ بخت ساز ہے


 

۱۔ یہ تفسیر ایک حدیث میں امیر المومنین علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے ( مجمع البیان زیر بحث آیات کے ذیل میں ) اور یہ جو بعض نے ماں کے دو پستانوں سے جو سینہ پر ابھر ے ہوئے ہوتے ہیں تفسیر کی ہے بہت ہی بعید ہے ۔ ضمنی طور پر ” نجد“ کی تعبیر خیر کے بارے میں اس کی عظمت کی وجہ سے ہے اور شر کے بارے میں بابِ تغلب سے ہے ۔
2 ـ «نور الثقلین»، جلد 5، صفحه 581.


 

 ۱۔ آنکھ کی حیرت انگیز یاں اس شہر ِ مقدس کی قسم
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma