وہ دستور العمل جو تمام آسمانی کتب میں آیاہے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونه جلد 27
حب الدنیا راٴس کل خطیئة کی تحلیل ہم تجھے ہر اچھے کام کے لئے آمادہ کریں گے

 
گزشتہ آیات میں کفار اور دشمنان ِ حق کے بارے میں سخت سزا کا اشارہ ہوا ہے ، زیر بحث آیات میں اہل ایمان کی نجات اور اس نجات کے اسباب و عوامل کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ پہلے فرماتاہے :
” یقینا وہ شخص فلاح پائے گا جو اپنا تزکیہ کرے “ ( قد افلح من تزکیّٰ) ۔ اور اپنے پروردگار کے نام کا ذکر کرے اور اس کے بعد نماز پڑھے ( وذکراسم ربہ فصلی) اس طرح فلاح و رستگاری اور کامیابی و نجات کے عوامل ان تین چیزوں کو بتایا ہے ، تزکیہ، نام خداکا ذکر اور اس کے بعد نماز پڑھنا ۔
تزکیہ سے مراد کیاہے ؟ اس سلسلہ میں علماء نے مختلف تفسیریں کی ہیں ۔ پہلی روح کو نجاستِ شرک سے پاک کرنا ہے ، گزشتہ آیات کے قرینہ سے ، نیز اس قرین سے بھی کہ اہم ترین تطہیر شرک سے تطہیر ہے ۔
دوسری یہ کہ تزکیہ سے مراد دل کو اخلاقی رزائل سے پاک کرنا اور اعمال صالح بجا لانا ہے ۔ قرآن مجید میں آیات فلاح کے نقطہ نظر سے دوسری آیات کے علاوہ سورہٴ مومنین کے آغاز کی ا ٓیتیں ہیں جو فلاح کو اعمال صالح کی روح قرار دیتی ہےں اور سورہٴ شمس آیت ۹ کے حوالے سے جس میں تقویٰ اور فجور کے بیان کے بعد فرماتاہے : ( قد افلح من زکّٰھا) وہ فلاح پا گیا جس نے اپنے نفس کو فسق و فجور اور دوسرے برے اعمال سے پاک کیااور تقویٰ سے آرستہ کیا۔
تیسری تفسیر یہ ہے کہ زکیٰ سے مراد زکوٰة فطرہ دینا ہے ۔ عید فطرسے پہلے زکوٰة فطرہ ادا کی جائے ، پھر نماز عید پڑھی جائے ۔ جیساکہ متعدد روایات میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے ۔۱۔ اور یہی معانی منابع اہل سنت میں امیر المومنین علیہ السلام سے منقول ہیں ۔ ۲
یہاں سوال پید اہوتا ہے کہ سورہٴ اعلیٰ مکی ہے اور مکہ میں نہ زکوٰة فطرہ مقرر ہو ئی تھی ، نہ ماہ رمضان کے روزے ، نہ نمازِ عید ہی اور فطرہ کے مراسم ۔اس سوال کے جواب میں بعض مفسرین نے کہا ہے کہ کوئی مانع نہیں ہے کہ اس سورہ کا پہلا حصہ مکہ میں نازل ہوا ہو اور ذیلی حصہ مدینہ میں ۔ یہ احتمال بھی قوی طور پر موجود ہے کہ مندرجہ بالاتفسیر ایک واضح مصداق کے بیان کی قبیل سے ہو اور آیت کی تطبیق کسی واضح فرد پرہو ، بعض نے یہاں تزکیہ کو مالی صدقہ دینے کے معنی میں سمجھا ہے ۔ اہم بات یہ ہے کہ تزکیہ کے وسیع معانی ہیں ۔ یہ روح سے شرک کی آلود گی کو دور کرنے کے معنی میں بھی ہے، اخلاقِ رزیلہ سے خود کو پاک کرنے کے معنی میں بھی ، ہر قسم کے مکر و ریا سے پاک کرنے کے معنی میں بھی اور راہ خدا میں زکوٰة دے کر مال و جان کی تطہیر کے معنی میں بھی اس لئے کہ سورہ توبہ آیت ۱۰۳۔(خذ من اموالھم صدقة تطھر ھم و تزکییھم بھا) ”ان کے مال میں سے صدقہ ( زکوٰة ) لے تاکہ انہیں اس کے ذریعہ پا ک کرے اور ان کا تزکیہ کرے “ ۔ کے مطابق زکوٰة کا دینا روح و جان کی پاکیزگی کا سبب ہے ۔
اس بناپر تمام تفسیریں آیت کے وسیع معنی کے اعتبار سے ممکن ہے کہ ٹھیک ہوں ۔ قابل توجہ یہ بات ہے کہ مندرجہ بالا آیت میں پہلے تزکیہ ، اس کے بعد پروردگار کا ذکر اور پھر نماز کی بات ہوئی ہے ۔
بعض مفسرین کے بقول مکلف کے تین عملی مراحل ہیں ، پہلا دل سے فاسد عقیدہ کا ازالہ ، اس کے بعد اللہ کی معرفت اور اس کے صفات و اسماء کا دل میں حضور ، اور تیسرا مشغلہ ہے ” اشتغال بخدمت“ مندرجہ ذیل بالا آیت نے تین مختصر جملوں میں ان تینوں مرحلوں کی طرف اشارہ کیا ہے ۔

یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ نما زکا ذکر پر وردگا رکی فرع شمار کیا گیا ہے ۔ یہ اس بناء پر ہے کہ جب تک اس کی یاد میں محو نہ ہو اور نور ایمان دل میں سایہ فگن نہ ہو اس وقت تک بندہ نما زکے لئے کھڑا نہیں ہوتا ۔ علاوہ از این وہ نماز قدر و قیمت رکھتی ہے جس کے ساتھ اس کا ذکر بھی ہو اور وہ اس کی یاد کو ساتھ لئے ہوئے ہو اور یہ جو بعض لوگوں نے ذکر پروردگار سے مراد صرف اللہ اکبر یا بسم اللہ الرحمن الرحیم کو لیا ہے ، یہ در حقیقت اس کی بعض مصادیق کا بیان ہے ۔
اس کے بعد اس فلاح و رستگاری کے دستور العمل سے انحراف کے اصلی عامل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید فرماتا ہے :” بلکہ تم دنیاوی زندگی کو مقدم رکھتے ہو اور اسے ترجیح دیتے ہو“ (بل توٴثرون الحیٰوة الدنیا ) جبکہ آخرت بہتر اور زیادہ پائیدار ہے ( و الآخرة خیر و ابقیٰ ) ۔
یہ حقیقت میں وہی مفہوم ہے جو احادیث میں بھی آیاہے ( حب الدنیا راٴس کل خطئة) ” دنیا کی محبت ہر گناہ کا سر چشمہ ہے “۔ ۴
حالانکہ عقل کبھی اجازت نہیں دیتی کہ انسان سرائے باقی کو متاعِ فانی کے بدلے فروخت کرے اور اور ان مختصر سی لذتوں کو جو انواع و اقسام کے درد و رنج ساتھ لئے ہوئے ہیں ان تمام جاودانی اور ہر قسم کی تکالیف سے مبرانعمتوں پر مقدم سمجھے اور ان پر ترجیح دے ۔
انجام کار سورے کے آخر میں فرماتاہے :” یہ احکام جو بتائے گئے ہیں اس کتاب ِ آسمانی ہی میں محدود نہیں ہیں بلکہ پہلی کتب اور صحف میں بھی آچکے ہیں “۔ ( انّ ھٰذا الصحف الاولیٰ ) یعنی صحفِ و کتب ابراہیم و موسیٰ  میں ۔( صحف ابراہیم و موسیٰ ) ۔5
یہ بات کہ ھٰذا کامشارالیہ کیاہے اس سلسلہ میں کئی نظر یات موجود ہیں ۔ ایک جماعت نے کہا ہے کہ تزکیہ ، نماز اور حیاتِ دنیا کو آخرت پرترجیح نہ دینے کے آخری حکم کے سلسلہ میں اشارہ ہے ، اس لئے کہ یہی انبیاء کی سب سے اہم او ربنیادی تعلیمات تھیں اور نا کا بیاں تمام کتب آسمانی میں موجود ہے ۔
بعض دوسرے مفسرین اس کو ساری سورة کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں ، اس لئے کہ سورة توحید سے شروع ہوتی ہے اور نبوت کاتذکرہ جاری رکھتے ہوئے عملی دستور العمل پر ختم ہوجاتی ہے ۔ بہر حال یہ تعبیر بتاتی ہے کہ اس سورہ کا اہم مضمون ، بالخصوص آخری آیات عالم ادیان کے اصول اساسی میں سے ہے ۔ ، تمام انبیاء کی بنیادی تعلیمات میں سے ہے اور یہ خود اس سورة کی عظمت اور ان کی تعلیمات کی اہمیت کی نشانی ہے ۔
” صحف“ صحیفہ کی جمع ہے جو یہاں لوح تختی اور صفحہ کے معنی میں ، جس پر کوئی چیز لکھتے ہیں مندرجہ بالا آیات بتاتی ہیں کہ حضرت ابراہیم  اور حضرت موسیٰ  بھی آسمانی کتابوں کے حامل تھے ۔ ایک روایت حضرت ابو ذر غفاری ۻ سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے پیغمبر اکرم  کی خدمت میں عرض کیا کہ انبیاء کی تعداد کیا ہے ، تو آپ نے فرمایا ” ایک لاکھ چوبیس ہزار “ میں نے عرض کیا ” ان میں سے رسول کتنے تھے “؟ فرمایا: تین سو تیرہ اور باقی سب نبی تھے “۔ میں نے عرض کیا ” حضرت آدم  بنی تھے ؟ “ فرمایاہاں۔ خدا نے ان سے کلام کیا اور انہیں اپنے دست قدرت سے خلق فرمایا “۔
اس کے بعد پیغمبر اکرم  نے مزید فرمایا:” اے ابو ذر انبیاء میں سے چار افراد عرب تھے : ہود ، صالح ، شعیب ، اور تیرا پیغمبر “۔ میں نے کہا ” اے اللہ کے رسول ! خدا نے کتنی کتابیں نازل فرمائیں ہیں ؟ “ فرمایا: ایک سو چار کتابیں “ دس کتابیں آدم پر پچاس کتابیں شیث  پر اور تیس کتابیں اخنوخ پر ، جو ادریس  وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے قلم سے لکھا ۔ ابرہیم  پر دس کتابیں اور توریت ، انجیل ، زبور اور فرقان ، موسیٰ  ، عیسیٰ ، داوٴد  ،اور پیغمبر اسلام  پر نازل ہوئیں ۔ 6
( الصحف الاولیٰ)کی تعبیر ابراہیم  و موسیٰ  کی کتب کے بارے میں آخری صحف کے مقابل ہے جو حضرت عیسیٰ  اور پیغمبر اسلام پر نازل ہوئے ۔


 
 
1۔ نور الثقلین، جلد، ۵ ص ۵۵۶ حدیث۱۹تا ۲۱۔
۲۔ روح المعانی ، جلد ۳۰، ص ۱۱۰ اور تفسیر کشاف، جلد ۴، ص ۷۴۰۔
۳۔ تفسیر فخر رازی ، جلد ۳۱، ص ۱۴۷۔
۴۔ یہ حدیث مختلف عبارتوں کے ساتھ امام جعفر صادق علیہ السلام اور امام زین العابدین علیہ السلام سے ، بلکہ تمام انبیاء سے نقل ہوئی ہے اور یہ اس کی حد سے زیادہ اہمیت کی بناء پر ہے ۔ نور الثقلین ، جلد۵، ص ۵۵۶۔ ۵۵۷۔
5۔ ہوسکتا ہے کہ صحف ابراہیم و موسیٰ صحف الاولیٰ کی وضاحت ہو، یہ احتمال بھی ہے کہ اس کا بیان اور واضح مصداق ہو، پہلی صورت میں گزشتہ تمام انبیاء کی کتب پر حاوی ہوگا اور دوسری صورت میں صرف ابراہیم و موسیٰ کے صحیفے مراد ہوں گے ۔
6۔ مجمع البیان، جلد ۱۰، ص ۴۷۶۔

 
 

حب الدنیا راٴس کل خطیئة کی تحلیل ہم تجھے ہر اچھے کام کے لئے آمادہ کریں گے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma