اے غافلو!کہا جارہے ہو ؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونه جلد 27
سورہ انفطاررسول کی شائستگی کی شرطیںرسول کی شائستگی کی شرطیں

گذشتہ آیات میں یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ قرآن مجید خدا کا کلام ہے اس لئے کہ اس کے مضامین سے ہویدا ہے کہ یہ شیطانی کلام نہیں ہے بلکہ رحمن کا کلام ہے جو پیک وحی الہٰی کے ذریعہ ، قدرت و امانتِ کلی کے ساتھ اس پیغمبر پر ، جو انتہائی طور پر اعتدال عقلی کا حامل ہے ، نازل ہو اہے ، ایسا پیغمبر جس نے تبلیغ رسالت کے سلسلہ میں کبھی بخل سے کام نہیںلیا اور جو کچھ اسے تعلیم دی گئی ہے اس نے اسے بے کم و کاست بیان کیا ہے ۔
پروردگار عالم زیر بحث آیات میں مخالفین کو اس عظیم کلام کی پیروی نہ کرنے کی وجہ سے مستحق سرزنش قرار دیتا ہے اور ایک استفہام توبیخی کے ساتھ فرماتا ہے :
” ان حالات میں تم کہاں جا رہے ہو “ ( فاین تذھبون) ۔ کیوں راہ راست کو چھوڑ کر بے راہ روی اختیار کرتے ہو اور کیوں اس چراغ ِ فروزاں سے منہ موڑ کر تاریکی کی طرف روادواں ہو۔ کیا تم اس سعادت و سلامتی کے دشمن ہو ؟اس کے بعد مزید فرماتا ہے :
” یہ قرآن تمام لوگوں کے لئے نصیحت ہی نصیحت ہے “۔( اِنْ ھو الاذکر للعالمین
سب کو نصیحت کرتا ہے تاکہ وہ خواب غفلت سے بیدار ہوںاور چونکہ ہدایت و تربیت کے لئے فاعل کی صرف فاعلیت ہی کافی نہیں ہے بلکہ قابل کی قابلیت در کار ہے ، لہٰذا بعد میں آنے والی آیت میں مزیدفرماتا ہے :
” قرآن ان لوگوں کے لئے ہدایت کا باعث ہے جو تم میں سے چاہتے ہیں کہ صراط مستقیم اختیار کریں “
( لمن شاء منکم ان یستقیم )۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ گذشتہ آیت میں فرمایا ہے کہ قرآن تمام لوگوں کے لئے نصیحت و بیداری کا سبب ہے اور اس آیت میں صرف ایک گروہ کا ذکر کرتا ہے وہ لوگ جو ہدایت کو قبول کرنے اور راہ راست اختیار کرنے کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں ۔
یہ فرق اس بناپر ہے کہ گذشتہ آیت فیض الہٰی کی عمو میت کو بیان کرتی ہے اور یہ آیت اس فیض سے فائدہ اٹھانے کی شرط کو قبول کرتی ہے ، تمام مواہب اور نعمتیں اسی طرح ہیں کہ اصل فیض عام ہیں لیکن اس سے فائدہ اٹھانا ارادہ کی پختگی سے مشروط ہے ۔
انہی معانی کو لئے ہوئے سورہ بقرہ کی آیت ۲ بھی آئی ہے ( ذالک الکتاب لاریب فیہ ہدی للمتقین ) اس کتاب میں کوئی شک و تردد نہیں ہے اور یہ پر ہیز گار روں کے لئے سبب ہدایت ہے ۔
بہر حال یہ آیت ان آیات میں سے ہے جو بتاتی ہےں کہ خدا نے انسان کو آزاد و مختار پیدا کیا ہے اور راہ حق و باطل کو طے کرنے کا آخری فیصلہ اس کے اختیار میں ہے ۔
یستقیم کی تعبیر جاذبِ توجہ اور عمدہ ہے جو بتاتی ہے کہ اسے راہ مستقیم پر چلائیں اور اگر افراط و تفریط، شیطانی وسوسے اور گمراہ کرنے والے پروپیگنڈے درمیان میں نہ ہوں تو انسان ندائے فطرت کے ذریعہ اس صراط مستقیم پر قدم رکھ سکتاہے ۔
ہمیں معلوم ہے کہ خطِ مستقیم ہمیشہ مقصد کی نزدیک ترین راہ ہوتاہے لیکن چونکہ اس بات کا امکان ہے کہ انسان کا ارادہ یہ تو ہم پیدا کرے کہ آدمی اس طرح آزاد ہے کہ اس راستے کو طے کرنے میں الہٰی توفیق کی کوئی احتیاج نہیں رکھتا تو بعد میں آنے والی آیت میں ، جو اس سورہ کی آخری آیت ہے ، فرماتا ہے :
” ارادہ نہیں کرتے مگر یہ کہ عالمین اور تمام جہانوں کا پر وردگار ارادہ کرے “
( وماتشاء ون الاان یشاء اللہ رب العالمین )۔ در حقیقت ان دونوں آیات کا مجموعہ اس دقیق و ظریف مسئلہ امرٌ بین الامرین کو بیان کرتاہے ۔ ایک طرف کہتا ہے ارادہ کی پختگی تمہارے اپنے اختیار میںہے اور دوسری طرف کہتا ہے جب تک خدا نہ چاہے تم ارادہ نہیں کرسکتے ۔یعنی اگر تمہیں مختار و آزاد پیدا کیاگیا ہے تو یہ اختیار و آزادی بھی خدا کی جانب سے ہے ۔ اس نے چاہا ہے کہ تم ایسے رہو ۔
انسان اپنے اعمال میں نہ مجبور ہے نہ سو فیصدی آزاد ہے نہ طریقہٴ جبر صحیح ہے نہ طریقہٴ تفویض بلکہ جو کچھ انسان کے پاس ہے وہ جسم و ہوش ، عقل و تونائی، ارادہ کی پختگی کی قوت،وہ سب خدا کی جانب سے ہے اور یہی وہ حقیقت ہے جو ہمیشہ سے ایک طرف تو خالق کا محتاج ونیاز مندبناتی ہے اور دوسری طرف اس کی آزادی اور اختیار کے تقاضے کی بناپر اسے ذمہ داری سونپتی ہے ۔
رب العالمین “ کی تعبیر اچھی طرح بتاتی ہے کہ مشیت الہٰی بھی انسان اور تمام عالمین کی تربیت ، تکامل اور ارتقاء کی راہ میں دخل رکھتی ہے وہ کبھی بھی نہیں چاہتا کہ کوئی گمراہ ہو اور گناہ کر کے اس کے جوار رحمت سے دور ہو ۔ وہ اپنے ربوبیت کے تقاضے سے ان تمام لوگوں کی مدد کرنا چاہتاہے کہ راہ ارتقاء میں قدم رکھیں۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ مسلک جبرکی طرفدارصرف دوسری آیت سے چمٹے ہوئے ہیں جب کہ ممکن ہے کہ تفویض کے طرفدار بھی پہلی آیت سے متوسل ہوں ۔ آیات کو ایک دوسر ے سے جدا کرنا جو عام طورپر پہلے کئے ہوئے غلط فیصلوںکا معلول ہے گمراہی کا سبب ہے ۔
آیات قرآن کو ایک د وسرے کے ساتھ رکھ کر ان کے مجموعہ سے فائدہ اٹھانا چاہئیے۔ قابل توجہ یہ امر ہے کہ بعض مفسرین نے نقل کیا ہے کہ جب پہلی اآیت ”لمن شاء منکم ان یستقیم“ نازل ہوئی تو ابوجہل نے جو عملی طور پر نظریہ تفویض کا حامی تھا ، کہا بڑااچھا ہو اکہ تمام اختیارات ہمیں دےدئے گئے ہیں ۔ یہی موقع تھا کہ دوسری آیت نازل ہوئی ” وما تشاء ون الا ان یشاء اللہ رب العالمین “۔۱
خدا وندا ! ہم جانتے ہیں کہ راہ مستقیم کو طے کرنا تیری توفیق کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ ہمیں اس راہ کو طے کرنے کی توفیق عطا فرما۔
پر وردگارا ! ہماری خواہش ہے کہ ہم راہ ہدایت پر چلیں تو بھی ارادہ فرما کہ اس راہ میں ہماری دستگیری فرمائے ۔
بار الہٰا ! محشر کا منظر اور تیری داد گاہ عدل و انصاف بہت ہولناک ہے اور ہمارا نامہ اعمال حسنات سے خالی ہے ہمیں اپنے عضو و فضل کی پناہ میں جگہ دے ، نہ کہ میزان عدل و انصاف کے سامنے ۔ آمین یا رب العالمین ۔
سورہ تکویر کا اختتام


۱۔ روح المعانی ، جلد۳۰ص۶۲۔ اور روح البیان، جلد۱۰ ص۳۵۴۔
 
سورہ انفطاررسول کی شائستگی کی شرطیںرسول کی شائستگی کی شرطیں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma