۱۔ لڑکیوں کو زندہ در گور کرنا

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونه جلد 27
اس دن معلوم ہو گاکہ ہم کتنے پانی میں ہیں ۔جس دن کائنات کے دفتر کو لپیٹ دیاجائے گا

عربوں کے زمانہٴ جاہلیت کے درد ناک ترین اور نہایت وحشیانہ مظاہر میں سے ایک مظہر لڑکی کا زندہ در گور کردینا ہے جس کی طرف قرآن مجید میں بارہا اشارہ ہوا ہے ۔ اگر بعض مفسرین کا نظریہ یہ ہے کہ یہ قبیح رسم عربوں میں عام تھی۔ صرف قبیلہ کندہ یا بعض دوسرے قبائل میں تھی۔ لیکن ظاہر ہے کہ یہ اقدام کچھ عجیب نہیں سمجھا جاتا تھا ۔ ورنہ قرآن اس بارے میں اتنی تاکید کے ساتھ بار بار گفتگو نہ کرتا۔
بہر حال یہ کام اس قدر وحشت ناک تھا کہ اس کا کبھی کبھی ہو نا بھی نہایت قبیح امر ہے ۔ مفسرین نے کہا ہے کہ عربوں کے زمانہٴ جاہلیت میں جس وقت عورت کے وضع حمل کا وقت قریب آتا تو زمین میںایک گڑھا کھود دیتے اور اس کے اوپر بیٹھ جاتے اگر نوزائیدہ بچہ لڑکی ہوتو اس کواس گڑھے میں پھینک دیتے اور اگر لڑکا ہوتا تو اسے زندہ رہنے دیتے ۔ اسی لئے ان کے شعراء میں سے ایک شاعر اس سلسلہ میں فخر یہ لہجہ میں کہتا ہے :
سمیتھا اذا ولدت تموت و القبرصھو ضامن ذمیت
میں نے اس نو زائید لڑکی کا نام اس کی ولادت کے وقت تموت رکھا ( جس کے معنی مر جائے گی ) اور قبر میرا داماد ہے جس نے اسے اپنی بغل میں لے لیا اور اسے خاموش کردیا ۔ ۱
اس جرم کے مختلف اسباب و عوامل تھے
زمانہٴ جاہلیت میں عورت کا ایک انسان کے لحاظ سے بے قدر و قیمت ہونا اس شدید فقر و فاقہ کی کیفیت کا نتیجہ تھا جو اس معاشرہ میں مسلط تھا ۔ لڑکیاں نہ تو کچھ کماکر دے دسکتی تھی نہ ڈاکہ ڈالنے میں شرکت کر سکتی تھیں۔
ایک سبب اور بھی اور وہ یہ کہ اس بات کا امکان تھاکہ مختلف جنگوں میں گرفتار ہو کر لڑکیاں قید ہو جائیں اور ان کی عزت و ناموس دوسروںکے قبضہ میں چلی جائے گی جس کے نتیجہ میں بے غیرتی کا دھبہ متعلقین کے دامن پر لگ جائے گا۔
یہ چند عوامل لڑکیوں کے زندہ در گور کرنے کا سبب بنے ، انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ زمانہٴ موجود میں بھی یہ رسم کسی نہ کسی صورت میں موجو دہے ۔ اور کچھ نہیں تو اسقاط حمل کی آزادی کی صور ت میں بہت سے متمدن ممالک میں رواج پائے ہوئے ۔ اگر زمانہٴ جاہلیت کے عرب نو زائیدہ بچیوںکو زندہ در گور کر دیتے تھے تو ہمارے زمانہ متمدن انسان انھیں شکم مادر میں قتل کردیتے ہیں اس کی مزید تشریح جلد ۶ ص ۳۷۲ پر سورہ نحل کی آیت ۵۹ کے ذیل میں ہم لکھ چکے ہیں ۔
۲۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ قرآن مجید نے اس اقدام کو اس قدر قبیح اور قابل ِ نفرت قرار دیاہے کہ روز ِ قیامت دوسرے اعمال کی پر سش سے پہلے اس داد خواہی کا تذکرہ کیا ہے ۔ یہ چیز اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ قانون ِ اسلام کی رو سے عام انسانوں خصوصاً بے گناہ انسانوں کے خون کی بہت شدید گرفت کی گئی ہے ۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اسلام کی نگاہ میں عورت کی کتنی قدر و منزلت ہے ۔
۳۔ ایک اور نکتہ جس کی طرف یہاں توجہ ضروری ہے وہ یہ ہے کہ قرآن میں نہیں کہا کہ قاتلوں سے سوال کریں گے بلکہ کہتا ہے کہ ان معصوم بچیوں سے سوال ہو گا کہ تمہارا کیا گناہ تھا کہ اس بے رحمانہ طریقہ پر تم کو قتل کیا گیا ۔ گو یا قاتل اس قابل بھی نہیں ہیں کہ ان سے ان کے جرم کے بارے میں پر سش بھی کی جائے بلکہ تنہا ان مقتولین کی گواہی کا فی ہے ۔
۱۰۔ و اذا الصحف نشرت
۱۱۔ و اذا السمآء کشطت
۱۲۔ و اذاالجحیم سعرت
۱۳۔ و اذاالجنة ازلفت
۱۴۔ علمت نفسٌ مّآ احضرت

ترجمہ
۱۰۔ جس وقت اعمال نامہ کھول دیئے جائیں گے ۔
۱۱۔اور جس وقت آسمان سے پردہ ہٹا دیا جائے گا۔
۱۲۔ اور جس وقت دوزخ دہک اٹھے گا ۔
۱۳۔ اور جس وقت جنت قریب کردی جائے گی ۔
۱۴۔ اس وقت ہر انسان جان لے گا کہ اس نے کیا کیا ہے ۔


۱۔ مجمع البیان ، جلد ۱۰ ، ص ۴۴۴
اس دن معلوم ہو گاکہ ہم کتنے پانی میں ہیں ۔جس دن کائنات کے دفتر کو لپیٹ دیاجائے گا
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma