منافقین کے حالات واضح کرنے کے لئے دو مثالیں :

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 01
اس خدا کی عبادت کرو ۶۔ نقصان زدہ تجارت :

منافقین کی صفات و خصوصیات بیان کرنے کے بعد قرآن مجید کی کیفیت کی تصویر کشی کے لئے زیر نظر آیات میں دو واضح مثالیں اور تشبہیں بیان کرتا ہے :
۱۔ پہلی مثال میں ہے کہ وہ اس شخص کی مانند ہیں جس نے (سخت تاریک رات میں) آگ روشن کی ہو (تاکہ اس کی روشنی میں سیدھے اور ٹیڑھے راستے کی پہچان کرسکے اور منزل مقصود تک پہنچ جائے)( مثلھم کمثل الذین استوقد نارا) مگر جب آگ کے شعلوں نے گردوں پیش کو روشن کردیا تو خدا وند عالم نے اسے بجھا دیا اور انہیں تاریکیوں میں چھوڑ دیا اس عالم میں کہ وہ کسی چیز کو نہیں دیکھ سکتے (فَلَمَّا آضَائَتْ مَا حَوْلَہُ ذَہَبَ اللهُ بِنُورِہِمْ وَتَرَکَہُمْ فِی ظُلُمَاتٍ لاَیُبْصِرُونَ)وہ سمجھتے تھے کہ اس تھوڑی سی آگ اور اس کی روشنی سے تاریکیوں کے ساتھ بر سرپیکار رہ سکیں گے مگر اچانک آندھی اٹھی یا سخت بارش برسی یا ایندھن ختم ہو گیا اور آگ سردی اور خاموشی میں بدل گئی یوں وہ دوبارہ وحشت ناک تاریکی میں سر گرداں ہوگئے اس کے بعد قرآن کہتا ہے کہ وہ بہرے گونگے اور اندھے ہیں اور چونکہ ادراک حقائق کا کوئی وسیلہ ان کے پاس نہیں رہا لہذا وہ اپنے راستے سے پلٹیں گے نہیں (صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَہُمْ لاَیَرْجِعُونَ) یہ کس قدر باریک اور واضح مثال ہے۔ انسانی زندگی میں ٹیڑھے راستے تو بہت ہیں لیکن خط مستقیم جو منزل مقصود تک پہنچتا ہے وہ ایک سے زیادہ نہیں۔ لیکن ٹیڑھے خط تو بہت ہیں علاوہ از ایں اس راستے میں تاریکیوں کے پردے، وحشتناک طوفان اور قسم قسم کے حوادث ہیں لہذا ایک ایسے روشن چراغ کی ضرورت ہے جو ان حوادث سے محفوظ رہ سکے وہ تاریکی کے پردوں کو چاک کرسکے اور طوفانوں کا مقابلہ کرسکے اور ایسا چراغ سوائے چراغ عقل و ایمان اور خورشید وحی کے کوئی اور نہیں۔
مختصر شعلہ جو انسان وقتی طور پر روشن کرتا ہے وہ اس طویل مسافت میں جس میں طوفان ہی طوفان ہیں کیا کردار ادا کرسکتا ہے۔
منافقین نفاق کی راہ انتخاب کرکے یہ سمجھتے تھے کہ وہ ہر حال میںاپنی حیثیت و وجاہت کی حفاظت کرسکیں گے اور ہر احتمالی خطرے سے محفوظ رہ سکیں گے اور دونوں طرف سے منافع سمیٹ لیں گے اور جو گروہ بھی غالب ہوگا ہمیں اپنے میں سے سمجھے گا اگر مومن کامیاب ہوئے تو مومنین کی صف میں او راگر کافر غالب رہے تو ان کے ساتھ۔
وہ اپنے آپ کو چالاک اور ہوشیار سمجھتے تھے اور اس کمزور و ناپائیدار شعلے کی روشنی میں اپنی رہ حیات پر ہمیشہ کے لئے چلنا چاہتے تھے تاکہ خوشحالی تک جاپہنچیں لیکن قرآن نے انہیں بے نقاب کردیا اور ان کے جھوٹ کو آشکار کردیا۔ جیسا کہ قرآن میں ہے :
اذا جائک المنافقون قالوا نشھد انک لرسول اللہ و اللہ یعلم انک لرسولہ و اللہ یشھد ان المنافقین لکاذبون۔
جب منافق آپ کے پاس آتے ہیں تو کہنے لگتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ خدا کے بھیجے ہوئے پیغمبر ہیں۔ خدا جانتا ہے کہ آپ اسی کے بھیجے ہوئے ہیں مگر خدا جانتا ہے کہ منافق اپنے اظہارات میں جھوٹے ہیں(منافقون
۱
یہاں تک کہ قرآن کفار کو بھی واضح کرتا ہے کہ یہ لوگ تمہارے ساتھ بھی نہیں ہیں وہ جو بھی وعدے کرتے ہیں اس پر عمل پیرا نہیں ہوتے۔
 آلَمْ تَری إِلَی الَّذِینَ نَافَقُوا یَقُولُونَ لِإِخْوَانِہِمْ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْ آہْلِ الْکِتَابِ لَئِنْ آخْرِجْتُمْ لَنَخْرُجَنَّ مَعَکُمْ وَلاَنُطِیعُ فِیکُمْ آحَدًا آبَدًا وَإِنْ قُوتِلْتُمْ لَنَنْصُرَنَّکُمْ وَاللهُ یَشْہَدُ إِنَّہُمْ لَکَاذِبُونَ (۱۱) لَئِنْ آخْرِجُوا لاَیَخْرُجُونَ مَعَہُمْ وَلَئِنْ قُوتِلُوا لاَیَنْصُرُونَہُمْ وَلَئِنْ نَصَرُوہُمْ لَیُوَلُّنَّ الْآدْبَارَ ثُمَّ لاَیُنْصَرُونَ ۔
منافق اہل کتاب میں سے اپنے کافر بھائیوں سے وعدہ کرتے ہیں کہ اگر تمہیں مدینہ سے باہر نکالا گیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ نکلیں گے ۔ لیکن اور تمہارے بارے میں کسی بات پر کان نہیں دھریں گے او راگر تمہارے ساتھ جنگ ہوئی تو ہم تمہاری مدد کریں گے لیکن خدا گواہی دیتا ہے کہ منافق جھوٹ بولتے ہیں اگر انہیں باہر کیا گیا تو یہ ان کے ساتھ باہر نہیں جائیںگے۔ اور اگر ان (کافروں) سے جنگ ہوئی تو یہ ان کی مدد نہیں کریں گے یہ تو (محاذ جنگ سے) بھاگ جائیں گے اور ثابت قدم نہیں رہیں گے (حشر
۱۱، ۱۲
قابل غور بات یہ ہے کہ قرآن نے جملہ ”
استوقد نارا“ سے استفادہ کیا ہے یعنی وہ نور تک پہنچنے کے لئے نار کا سہارا لیں گے و ہ آگ کہ جس میں دھواں، خاکستراور سوزش ہے جب کہ مومنین خالص نور اور ایمان کے روشن و پرفروغ چراغ سے بہرہ ور ہیں۔
منافقین اگر چہ نور ایمان کا اظہار کرتے ہیں لیکن ان کا باطن نار سے پر ہے او راگر نور ہو بھی تو کمزور او رٹھوڑی مدت کا ہے یہ مختصر نور وجدان و فطرت توحیدی کی روشنی کی طرف اشارہ ہے یا ان کے ابتدائی ایمان کی طرف جو بعد میں کورانہ تقلید ، غلط تعصب، ڈھٹائی اور عدوات کے نتیجے میں تاریک پردوں کی اوٹ میں چھپ گیا قرآن کی نظروں میں یہ سیاہ پردے ظلمت نہیں بلکہ ظلمات ہیں۔
یہی چیزیں ہیں جو بالآخر ان سے دیکھنے والی آنکھ، سننے والا کان اور بولنے والی زبان چھین لیتی ہیں کیونکہ (جیسا پہلے بھی کہا جا چکا ہے) غلط راستے پر چلتے رہنا رفتہ رفتہ قوت تشخیص اور ادراک انسانی کو کمزور کردیتا ہے یہاں تک کہ بعض اوقات اسے حقائق الٹ نظر آتے ہیں اس کی نگاہ میں نیک بد ہوجاتا ہے۔ فرشتہ اسے جن نظر آنے لگتا ہے بہرحال یہ تشبیہ در حقیقت نفاق کے سلسلے میں ایک واقعیت کو واضح کرتی ہے اور وہ یہ کہ نفاق و دو رخی طویل مدت کے لئے موثر نہیں ہوسکتی۔ منافق تھوڑی مدت تک اسلام کی خوبیوں اور مومنین کی معنویت و حفاظت سے سرفراز رہیں اور کفار سے پوشیدہ دوستی بھی بہرہ مند ہوں لیکن یہ ایک شعلہ ضعیف کی طرح ہے جو بیابان تاریک اور ظلمانی طوفانوں کی رد میں ہے۔ زیادہ دیر نہیں لگتی کہ ان کا حقیقی چہرہ آشکار ہوجاتا ہے اور کسب مقام و محبوبیت کی بجائے لوگ ان سے نفرت کرتے ہیں اور انہیں دور پھینک دیتے ہیں اور ان کی حالت اس شخص کی سی ہوتی ہے جو سرگرداں ہو جس نے بیابان میں راستہ کھودیا ہو اور چراغ بھی اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا ہو۔
یہ نکتبہ بھی قابل توجہ ہے کہ آیہ
ھو الذی جعل الشمس ضیاء والقمر نورا ( وہ خدا ہے جس نے سورج کو روشنی اور چاند کو نور بخشا ہے) کی تفسیر میں امام باقر(ع) سے اس طرح منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:
اضاء ت الارض بنور محمد کما تضیئی الشمس فضرب اللہ مثل محمد الشمس و مثل الوصی القمر۔
خدا وند عالم نے روئے زمین کو محمد (ص) کے وجود سے روشنی بخشی جس طرح آفتار سے ۔ لہذا محمد(ص) کو آفتاب سے اور ان کے وصی (علی) کو چاند سے تشبیہ دی (
۱
یعنی نور ایمان وحی عالمگیر ہے جب کہ نفاق کا کوئی پرتو ہو بھی تو وہ اپنے گرد کے ایک چھوٹے سے دائرے میں اور بہت تھوڑی مدت کے لئے روشنی دیتا ہے (ماحولہ)۔
۲۔ دوسری مثال میں قرآن ان کی زندگی کو ایک دوسری شکل میں پیش کرتا ہے :
تاریک و سیاہ اور پرخوف و خطر رات ہے جس میں شدید بارش ہورہی ہے۔ افق کے کناروں سے پرنور بجلی چمکتی ہے بادلوں کی گرج اور بجلی کی کڑک اتنی وحشت ناک او رمہیب ہے کہ کانوں کے پردے چاک کئے دیتی ہے۔ وہ انسان جس کی کوئی پناہ گاہ نہیں وسیع و تاریک او رخطرناک دشت و بیابان کے وسط میں حیران و سرگرداں کھڑا ہے موسلا دھار بارش نے اس کی پشت کو تر کردیا ہے نہ کوئی جائے امان ہے اور نہ تاریکی چھٹتی ہے کہ قدم اٹھائے۔
مختصر سی عبارت میں قرآن یسے مسافر کی نقشہ کشی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ منافقین کی حالت یا ایسی ہے جیسے تاریک رات میں سخت باش گرج چمک اور بجلیوں کے ساتھ (رہگذروں کے سروں پر) برس رہی ہو (
او کصیب من السماء فیہ ظلمات و رعد و برق) اس کے بعد مزید کہتا ہے کہ وہ اپنے کانوں میں انگلیاں رکھ لیتے ہیں تاکہ وحشت ناک بجلیوں کی آواز نہ سنیں (یجعلون اصابعھم فی آذانھم من الصواعق حذر الموت
اور آخر میں فرماتا ہے : خدا وند عالم کی قدرت کافروں پر محیط ہے وہ جہاں جائیں اس کے قبضہ ٴ قدرت میں ہیں (
واللہ محیط بالکافرین)۔
پے در پے بجلیاں صفحہ ٴ آسمان پر کوندتی ہیں۔ بجلیوں کی روشنی آنکھوں کو یوں خیرہ کئے دیتی ہے کہ قریب ہے کہ آنکھوں کو اچک لے (
یکاد البرق یخطف ابصارھم
جب بجلی چمکتی ہے اور صفحہ بیابان روشن ہوجاتا ہے تو مسافر چند قدم چل لیتے ہیں لیکن فورا تاریکی ان پر مسلط ہوجاتی اور وہ اپنی جگہ پر رک جاتے ہیں (
کُلَّمَا آضَاءَ لَہُمْ مَشَوْا فِیہِ وَإِذَا آظْلَمَ عَلَیْہِمْ قَامُوا ۔)
وہ ہر لحظہ خطرہ محسوس کرتے ہیں کیونکہ اس وسط بیابان میں کوئی پہاڑ دکھائی دیتا ہے نہ درخت نظر پڑتا ہے جو رعد اور برق و صاعقہ کے خطرے کو روک سکے۔ ہر وقت یہ خطرہ ہے کہ بجلی ان پر گرے اور وہ فورا خاکستر ہو جائیں۔
ہم جانتے ہیں کہ صواعق (آسمانی بجلیاں)زمین سے ابھر ی ہوئی چیز پر جملہ کرتی ہیں لیکن وسط بیابان میں سوائے ان اشخاص کے کوئی ابھری ہوئی چیز بھی نہیں کہ بجلی اس طرف متوجہ ہو لہذا خطرہ یقینی اور حتمی ہے یہ ذہن میں رکھتے ہوئے کہ کوہستانی علاقوں کی نسبت حجاز کے بیابانوں میں آسمانی بجلی کے انسانوں پر گرنے کا خطرہ نسبتا کئی گنا زیادہ ہے اس مثال کی اہمیت اس علاقے کے لوگوں کے لئے زیادہ روشن ہوجاتی ہے۔
خلاصہ یہ کہ وہ ونہیں جانتے کہ کیا کریں مضطرب و پریشان اور حیران و سرگرداں اپنی جگہ کھرے ہیں۔ بیابان و ریگستان میں نہ راہ سمجھائی دیتی ہے نہ کوئی راہنما نظر آتاہے۔ جس کی راہنمائی میں قدم آگے بڑھا سکیں۔ یہ خطرہ بھی کہ بادلوں کی گرج ان کے کانوں کے پردے پھاڑ دے او رآنکھوں کو خیرہ کردینے والی بجلی بصارت چھین لے جائے او رہاں خدا چاہے تو ان کے کان اور آنکھ کو ختم کردے کیونکہ خدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے (
وَلَوْ شَاءَ اللهُ لَذَہَبَ بِسَمْعِہِمْ وَآبْصَارِہِمْ إِنَّ اللهَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیر
منافقین بعینہ ان مسافروں کی طرح ہیں۔ مومنین کی تعداد میں روزانہ اضافہ ہو رہا ہے اور وہ سخت سیلاب او رموسلا دھار بارش کی طرح ہر طرف سے آگے بڑھ رہے ہیں ان کے درمیان منافق موجود ہیں افسوس کہ انہوں نے قابل اطمینان پناہ گاہ ، ایمان، سے پناہ نہیں لی تاکہ عذاب الہی کی فنا کردینے والی بجلیوں سے نجات پاسکیں۔
مسلمانوں کا مسلح جہاد دشمنوں کے مقابلے میں رعد وصاعقہ کی سخت آواز کی طرح ان کی سر پر آپڑتا ہے کبھی کبھی راہ حق پیدا کرنے کے مواقع انہیں نصیب ہوتے ہیں کہ کچھ افکار بیدار ہوں مگر افسوس کہ یہ بیداری آسمانی بجلی کی طرح دیر پانہ رہتی چند ہی قدم چلتے تو بجھ جاتی اور غفلت کی تاریکی پھر توقف و سر گردانی کی جگہ لے لیتی۔
اسلام کی تیز پیش رفت آسمانی بجلی کی طرح ان کی آنکھوں کو خیرہ کر چکی تھی اور آیات قرآنی ان کے پوشیدرازوں سے پردہ اٹھا دیتی تھیں اور بجلیوں کی طرح انہیں اپنا ہدف بناتی تھیں۔ انہیں ہر وقت احتمال ہوتا کہ کہیں کوئی آیت نازل ہو کر ان کے کسی اور راز سے پردہ نہ اٹھا دے اور وہ زیادہ سوا نہ ہوجائیں۔
جیسا کہ قرآن سورہ توبہ، آیت
۶۴ میں فرماتا ہے :
یحذر المنافقون ان تنزل علیھم سورة تنبئھم بما فی قلوبھم قل استھزء و ا ان اللہ مخرج ما تحذرون۔
منافق اس سے ڈرتے ہیں کہ مبادہ کوئی سورہ ان کے برخلاف نازل ہو او رجو کچھ وہ اپنے اندر چھپائے ہوئے ہیں وہ فاش ہوجائے۔ کہیے جتنا چاہتے ہو استہزاء کرلو جس سے ڈرتے ہو خدا اسے ظاہر کر کے رہے گا۔
منافق اس سے بھی ترساں تھے کہ ان کے اسرار ظاہر ہوجانے کے بعد کہیں خدا کی طرف سے ان اندرونی خائن دشمنوں کے خلاف فرمان جنگ جاری نہ ہو جائے اور مسلمان جو اس وقت قوی اور طاقت ور ہو چکے ہیں ان پر حملہ نہ کردیں۔ جیسا کہ قرآن کہتا ہے :
لَئِنْ لَمْ یَنْتَہِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِینَ فِی قُلُوبِہِمْ مَرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِی الْمَدِینَةِ لَنُغْرِیَنَّکَ بِہِمْ ثُمَّ لاَیُجَاوِرُونَکَ فِیہَا إِلاَّ قَلِیلًا (۶۰) مَلْعُونِینَ آیْنَمَا ثُقِفُوا آخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِیلًا (۶۱)
اگر منافقین اور وہ جن کے دل بیمار ہیں ہیں اور جھوٹی خبریں اڑا کر خوف، دہشت اور مایوسی پیدا کرتے ہیں اپنے برے کردار سے باز نہ آئے تو ہم ضرور ان کے خلاف تمہیں قیام کا حکم دیں گے تاکہ وہ تمہارے پڑوس میں نہ رہ سکیں اور وہ جہاں مل جائیں انہیں قابل نفرت افراد کی طرح گرفتار کر کے قتل کردیا جائے۔(احزاب
۶۰، ۶۱
ان آیات سے واضح ہوتا ہے کہ منافق مدینہ میں انتہائی وحشت و سرگردانی میں مبتلا تھے۔ سخت لہجہ اور دو ٹوک آیات پے در پے رعد و برق آسمانی کی طرح ان کے خلاف نازل ہوتی تھیں اور انہیںہر وقت احتمال رہتا تھا کہ ان کی سرکوبی یا کم از کم انہیں مدینہ سے نکل جانے کا حکم صادر نہ ہوجائے۔ اگر چہ ان آیات کی شان نزول زمانہٴ پیغمبر کے منافقین سے متعلق ہے لیکن چونکہ منافقین ہر عہد کے سچے اور حقیقی انقلابوں کے مقابلے میں موجود رہتے ہیں اس لئے ہر عصر و قرن کے منافقین کے لئے یہ آیات وسعت رکھتی ہیں۔ ہم اپنی آنکھوں سے ایک ایک کرے یہ تمام نشانیاں سر مو فرق کے بغیر اپنے زمانے کے منافقین میں دیکھ رہے ہیں۔ ان کی سرگردانی ان کا اضطراب غرضیکہ ان کی بیچارگی، بدبختی اور رسوائی بالکل اس مسافر کی طرح نظر آتی ہے جس کی قرآن نے نہایت وضاحت اور خوبصورتی سے تصویر کشی کی ہے۔
دونوں مثالوں کا فرق : زیر نظر آیات میں پہلی او ردوسری مثال ایک دوسرے سے کیا فرق رکھتی ہے اس سلسلے میں دو تفسیریں موجو د ہیں :
الف : پہلی یہ کہ پہلی آیت (
مثلھم کمثل الذی) ان منافقین کی طرف اشارہ کرتی ہے جو ابتداء میں سچے مومنین کی صف میں داخل ہوئے اور حقیقتا ایمان لائے تھے لیکن یہ ایمان مستقر اور مستحکم نہ تھا لہذا وہ نفاق کی طرف جھک گئے۔
باقی رہی دوسری مثال (ا
و کصیب من السماء) تو وہ ان منافقین کی حالت بیان کرتی ہے جو ابتداء ہی سے منافقین کی صف میں تھے او رایک لحظہ کے لئے بھی ایمان نہیں لا ئے۔
ب : دوسری تفسیر یہ ہے کہ پہلی مثال افراد کی حالت کو واضح کرتی ہے اور دوسری مثال معاشرے کی کیفیت بیان کرتی ہے لہذا پہلی مثال میں ہے ” مثلھم کمثل الذی“ ان لوگوں کی مثال اس شخص جیسی ہے اور دوسری مثال میں ہے ” او کصیب من السماء فیہ ظلمت و رعد و برق“ یا ان کی مثال ایسی ہے کہ موسلا دھار بارش جو آسمان سے برستی ہے اور اس میں تاریکیاں ، رعد اور برق ہے جو وحشت نا ک ہے اور خوف و خطر سے بھر پور ہے کہ جس میں منافق زندگی گذارتے ہیں۔ 
 
یَااٴَیُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّکُمْ الَّذِی خَلَقَکُمْ وَالَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ (۲۱)
الَّذِی جَعَلَ لَکُمْ الْاٴَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَاٴَنْزَلَ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَاٴَخْرَجَ بِہِ مِنْ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَکُمْ فَلاَتَجْعَلُوا لِلَّہِ اٴَندَادًا وَاٴَنْتُمْ تَعْلَمُونَ (۲۲)
ترجمہ :
۱۲۔ اے لوگو ! اپنے پروردگار کی پرستش و عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔ اور اللہ کے لئے شریک قرار نہ دو او رتم جانتے ہی ہو۔
۲۲۔ وہ ذات جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا اور آسمان (فضائے زمین) کو تمہارے سروں پر چھت کی طرح قائم کیا، آسمان سے پانی برسایا اور اس کے ذریعہ میوہ جات کی پرورش کی تاکہ وہ تمہاری روزی بن جائیںجیسا کہ تم جانتے ہو(ان شرکاء اور بتوں میں سے نہ کسی نے تمہیں پیدا کیا اور نہ تمہیں روزی دی لہذا بس اس خدا کی عبادت کرو)۔


 
۱۔ نور الثقلین، جلد اول ص۳۶۔
اس خدا کی عبادت کرو ۶۔ نقصان زدہ تجارت :
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma