۱۰۴۔ واقعہ فدک کیا ہے؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
110 سوال اور جواب
۱۰۵۔ کیا جناب ابوطالب مومن تھے؟ ۱۰۳۔ مسلمانوں کی پسماندگی کے اسباب کیا ہیں؟

”فدک “ اطراف مدینہ میں تقریباً ایک سو چالیس کلو میٹر کے فاصلہ پر خیبر کے نزدیک ایک آباد قصبہ تھا۔
جب سات ہجری میں خیبر کے قلعے یکے بعد دیگرے اسلامی فو جو ں نے فتح کرلئے اور یہودیوں کی مرکزی قوت ٹوٹ گئی تو فدک کے رہنے والے یہودی صلح کے خیال سے خدمتِ پیغمبر میں سرتسلیم خم کرتے ہوئے آئے اور انہوں نے اپنی نصف زمینیں اور باغات آنحضرت (ص) کے سپرد کردئیے اور نصف اپنے پاس رکھے رہے۔
اس کے علاوہ انہوں نے پیغمبر اسلام کے حصہ کی زمینوں کی کاشتکاری بھی اپنے ذمہ لی، اپنی کاشتکاری کی زحمت کی اجرت وہ پیغمبر اسلام سے وصول کرتے تھے،(سورہٴ حشر ، آیت ۷)کے پیش نظر یہ زمینیں پیغمبر اسلام (ص) کی ملکیت تھیں ، ان کی آمدنی کو آپ اپنے مصرف میں لاتے تھے یا ان مقامات میں خرچ کرتے تھے جن کی طرف سورہ حشر ، آیت نمبر۷ میں اشارہ ہوا ہے ۔
پیغمبر اسلام (ص)نے یہ ساری زمینیں اپنی بیٹی حضرت فاطمة الزہرا سلام اللہ علیہا کوعنایت فرمادیں، یہ ایسی حقیقت ہے جسے بہت سے شیعہ اور اہل سنت مفسرین نے صراحتکے ساتھ تحریر کیا ہے، منجملہ دیگر مفسرین کے تفسیر در منثور میں ابن عباسۻ سے مروی ہے
جس وقت آیت (فاتِ ذَا القُربیٰ حَقّہُ)(1) نازل ہوئی تو پیغمبر نے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کو فدک عنایت فرمایا:(اقطَعَ رَسُول الله فا طمةَ فَدَکاً)(2)
کتا ب کنزالعمال، جو مسند احمد کے حاشیہ پر لکھی گئی ہے،میں صلہ رحم کے عنوان کے تحت ابوسعید خدری سے منقول ہے کہ جس وقت مذکورہ بالاآیت نازل ہوئی تو پیغمبر (ص) نے فاطمہ سلام اللہ علیہا کو طلب کیا اور فرمایا: ” یا فاطمة لکِ فدک“”اے فاطمہ فدک تمہاری ملکیت ہے“۔ (3)
حاکم نیشاپوری نے بھی اپنی تاریخ میں اس حقیقت کو تحریرکیا ہے۔(4)
ابن ابی الحدید معتزلی نے بھی نہج البلاغہ کی شرح میں داستان فدک تفصیل کے ساتھ بیان کی ہے اور اسی طرح بہت سے دیگر مورخین نے بھی۔
لیکن وہ افراد جو اس اقتصادی قوت کو حضرت علی علیہ السلام کی زوجہ محترمہ کے قبضہ میں رہنے دینا اپنی سیاسی قوت کے لئے مضر سمجھتے تھے،انہوں نے مصمم ارادہ کیا کہ حضرت علی علیہ السلام کے یاور وانصار کو ہر لحاظ سے کمزور اور گوشہ نشیں کردیں، جعلی حدیث (نَحْنُ مُعَاشَرَ الاٴنْبِیَاءِ لَا نُورِّث) (ہم گروہ انبیاء میراث نہیں چھوڑتے) کے بہانے انہوں نے اسے اپنے قبضہ میں لے لیا اور باوجود یکہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا قانونی طور پر اس پر متصرف تھیں اور کوئی شخص ”ذوالید“(جس کے قبضہ میں مال ہو)سے گواہ کا مطالبہ نہیں کرتا،جناب سیدہ سلام اللہ علیہا سے گواہ طلب کئے گئے ، بی بی نے گواہ پیش کئے کہ پیغمبر اسلام (ص) نے خود انہیں فدک عطا فرمایا ہے لیکن انہوں نے ان تمام چیزوں کی کوئی پرواہ نہیں کی، بعد میں آنے والے خلفا میں سے جو کوئی اہل بیت علیہم السلام سے محبت کا اظہار کرتا تو وہ فدک انہیں لوٹا دیتا تھا لیکن زیادہ دیر نہیں گزرتی تھی کہ دوسرے خلیفہ اسے چھین لیتا تھا اور دوبارہ اس پر قبضہ کرلیتا تھا، خلفائے بنی امیہ اور خلفائے بنی عباس نے بارہا ایسا ہی کیا ۔
واقعہ فدک اور اس سے متعلق مختلف واقعات جو صدر اسلام میں اور بعد میں پیش آئے،زیادہ دردناک اورغم انگیز ہیں اور وہ تاریخ اسلام کا ایک عبرت انگیز حصہ بھی ہیں جو محققانہ طور پر مستقل مطالعہ کا متقاضی ہے تا کہ تاریخ اسلام کے مختلف واقعات نگاہوں کے سامنے آسکیں۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ اہل سنت کے نامور محدث مسلم بن حجاج نیشاپوری نے اپنی مشہور و معروف کتاب ”صحیح مسلم“ میں جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کا خلیفہ اول سے فدک کے مطالبہ کا واقعہ تفصیل سے بیان کیا ہے، اور جناب عائشہ کی زبانی نقل کیا ہے کہ جب خلیفہٴ اول نے جناب فاطمہ کو فدک نہیں دیا تو بی بی ان سے ناراض ہوگئیں اور آخر عمر تک ان سے کوئی گفتگو نہیں کی۔ (صحیح مسلم، کتاب جہاد ، جلد ۳ ص۱۳۸۰ حدیث .5)(6)


(1)سورہٴ روم ، آیت ۳۸
(2)در منثور ، جلد ۴صفحہ ۱۷۷
(3)کنز العمال ، جلد ۲صفحہ ۱۵۸
(4) دیکھئے: کتاب فدک صفحہ ۴۹ کی طرف
(5)شرح ابن ابی الحدید ، جلد ۱۶، صفحہ ۲۰۹ /اور اس کے بعد
(6) تفسیر نمونہ ، جلد ۲۳، صفحہ ۵۱۰
۱۰۵۔ کیا جناب ابوطالب مومن تھے؟ ۱۰۳۔ مسلمانوں کی پسماندگی کے اسباب کیا ہیں؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma