۸۸۔ خلقت انسان کا مقصد کیا ہے؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
110 سوال اور جواب
۸۹۔ کیا انسان کی سعادت اور شقاوت ذاتی ہے؟ ۸۷۔ محارم سے شادی کی حرمت کا فلسفہ کیا ہے؟

یہ سوال اکثر افراد کے ذہن میں آتا ہے اور بہت سے لوگ یہ سوال کرتے بھی ہیں کہ ہماری خلقت کا مقصد کیا ہے؟ ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ دنیا میں پیدا ہوتے ہیں اور کچھ لوگ اس دنیا سے چل بستے ہیں اور ہمیشہ کے لئے خاموش ہوجاتے ہیں، تو پھر اس آمد و رفت کا مقصد کیا ہے؟۔
اور اگر ہم تمام انسان اس دنیا میں نہ آتے تو کیا خرابی پیش آتی؟ اور کیا مشکل ہوتی؟ ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ہم اس دنیا میں کیوں آئے ہیں؟ اور کیوں اس دنیا سے چل بسے ؟ اور اگر ہم اس مقصد کو سمجھنا چاہیں تو کیا ہم میں سمجھنے کی طاقت ہے؟ اس طرح اس سوال کے بعد انسان کے ذہن میں بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔
یہ سوال جب مادیوں کی طرف سے کیا جائے تو ظاہراً کوئی جواب نہیں دیا جاسکتا، کیونکہ ”مادہ“ عقل و شعور نہیں رکھتا اسی وجہ سے انھوں نے اپنے کو آسودہ خاطر کرلیا ہے اور اس بات کے قائل ہیں کہ ہماری خلقت کا کوئی مقصد نہیں ہے! اور واقعاً کس قدر تعجب کی بات ہے کہ انسان اپنی زندگی میں چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے ہدف او رمقصد معین کرے اور اپنی زندگی کے لئے منصوبہ بندی کرے مثال کے طور پر تعلیم، کاروبار، ورزش اور علاج وغیرہ کے لئے انسان کا ایک مقصد ہو، لیکن ان تمام کے مجموعہ کو بے ہدف اور بے معنی شمار کیا جائے!
لہٰذا جائے تعجب نہیں ہے کہ جب یہ لوگ اپنی بے معنی اور بے مقصد زندگی کے در پیش مشکلات پر غور کرتے ہیں تو اپنی زندگی سے سیر ہوجاتے ہیں اورخود کشی کرلیتے ہیں۔
لیکن جب ایک خدا پرست انسان یہی سوال خود اپنے سے کرتا ہے تو لاجواب نہیں ہوتا،کیونکہ ایک طرف تو وہ جانتا ہے کہ اس کائنات کا خالق حکیم ہے لہٰذا اس کی خلقت کا کوئی مقصد ضرور ہوگا اگرچہ ہمیں معلوم نہیں ہے، اور دوسری طرف جب انسان اپنے اعضا وجوارح کے بارے میں غور و فکر کرتا ہے تو ان میں سے ہر ایک کسی نہ کسی مقصد کے لئے خلق ہوا ہے، نہ صرف دل و دماغ اور اعصاب جیسے اعضا با مقصد خلق کئے گئے ہیں بلکہ ناخن، پلکیں اور انگلیوں کی لکیریں، ہتھیلی اور پیروں کی گہرائی وغیرہ ان سب کا ایک فلسفہ ہے جن کے بارے میں آج کل سائنس نے بھی تائیدکی ہے۔
کتنے سادہ فکر لوگ ہیں کہ ان سب چیزوں کے لئے تو ہدف او رمقصد کے قائل ہیں لیکن ان تمام کے مجموعہ کو بے ہدف تصور کرتے ہیں!
واقعاً کس قدر سادہ لوحی ہے کہ ہم ایک شہر کی عمارتوں کے لئے تو منصوبہ بندی اور ہدف کے قائل ہوں لیکن پوری دنیا کوبے مقصد تصور کریں!
کیا یہ ممکن ہے کہ ایک انجینئرکسی عمارت کے کمروں، دروازوں، کھڑکیوں ،ہال اور چمن کے لئے حساب و کتاب کے ساتھ اور خاص مقصد کے لئے بنائے، لیکن ان تمام کے مجموعہ کا کوئی ہدف اور مقصد نہ ہو؟!
یہی تمام چیزیں ایک خدا پرست اور مومن انسان کو اطمینان دلاتی ہیں کہ اس کی خلقت کا ایک عظیم مقصد ہے، جس کے سلسلہ میں کوشش کی جائے اور علم و عقل کے ذریعہ اس مقصد کو حاصل کیا جا ئے۔
عجیب بات تو یہ ہے کہ خلقت کو بے ہدف بتانے والے لوگ سائنس کے سلسلہ میں مختلف نئی چیزوں کے لئے ایک ہدف رکھتے ہیں اور جب تک اس مقصد تک نہیں پہنچ جاتے سکون سے نہیں بیٹھتے ،یہاں تک کہ بدن کے کسی حصے میں ایک غدے کو بے کار اور بے مقصد ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں، اور اس کے فلسفہ کے لئے برسوں تحقیق اور آزمائش کرتے ہیں، لیکن جس وقت انسان کی خلقت کی بات آتی ہے تو واضح طور پر کہتے ہیں کہ انسان کی خلقت کا کوئی مقصد نہیں ہے!
واقعاً ان باتوں میں کس قدر تضاد و اختلاف پایا جاتا ہے ؟!
بہر حال،ایک طرف حکمت خدا پر ایمان اور دوسری طرف انسان کے اعضا و جوارح کے فلسفہ پر توجہ، انسان کو یقین کی منزل تک پہنچا دیتی ہیں کہ انسان کی خلقت کا ایک عظیم مقصد ہے۔
اب ہمیں اس ہدف کو تلاش کرنا چاہئے اور جہاں تک ممکن ہو اس ہدف کو معین کریں اور اس راستہ میں قدم بڑھائیں۔
ایک بنیادی نکتہ پر توجہ کرنے سے ہمیں راستہ میں روشنی ملتی ہے ۔
ہم ہمیشہ اپنے کاموں میں ایک ہدف اور مقصد رکھتے ہیں،عام طور پر یہ ہدف ہماری کمیوں کو ختم اور ضرورتوں کو پورا کرتا ہے، یہاں تک کہ اگر کسی پریشاں حال کی مدد کرتے ہیں یا اس کو مشکلات سے نجات دلاتے ہیں یا اگر کسی کے لئے ایثار و قربانی کرتے ہیں تو یہ بھی ایک طرح سے معنوی خامیوں کو بر طرف کرنے کے لئے ہے،جن سے ہماری روحانی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں۔
اور چونکہ خداوندعالم کی صفات اور اس کے افعال کو معمولاًہم اپنے سے مو ازنہ کرتے ہیں ، جس کی وجہ سے یہ تصور ذہن میں آسکتا ہے کہ خدا کے پاس کیا چیز کم تھی جو انسان کی خلقت سے پوری ہوجاتی؟! اور اگر قرآنی آیات میں پڑھتے ہیں کہ انسان کی خلقت کا ہدف عبادت خداوندی ہے، تو اسے ہماری عبادت کی کیا ضرورت تھی؟
حالانکہ یہ طرز فکر اسی وجہ سے ہے کہ صفاتِ خالق کو صفاتِ مخلوق اور صفات واجب الوجود کا ممکن الوجود سے مو ازنہ کرتے ہیں۔
ہمارا وجود چونکہ محدود ہے تو اپنی کمی اور خامی کو دور کرنے کے لئے کوشش کرتے ہیں اور ہمارے اعمال بھی اسی راہ کا ایک قدم ہوتے ہیں، لیکن ایک نا محدود وجود کے لئے یہ معنی ممکن نہیں ہے، لہٰذا اس کے افعال کے مقصد کواس کے وجود کے علاوہ تلاش کریں۔
وہ چشمہٴ فیاض اور ایسا نعمت آفرین مبدا ہے جس نے تمام موجوادت کو اپنے سایہٴ رحمت میں جگہ دے رکھی ہے اور ان کی پرورش کرتا ہے، ان کی کمی اور خامی کو دور کرتا ہے اور کمال کی منزل پر پہنچانا چاہتا ہے، اور یہی عبادت اور بندگی کا حقیقی ہدف اور مقصدہے، اور یہی عبادات اور دعا کا فلسفہ ہے جو ہماری تربیت اور تکامل و ترقی کے لئے ایک درس گاہ ہے۔
لہٰذا ہم یہ نتیجہ حاصل کرتے ہیں کہ ہماری خلقت کا مقصد ہماری ترقی اور کمال ہے۔
بنیادی طور پر اصل خلقت ایک عظیم الشان تکاملی و ارتقائی قدم ہے، یعنی کسی چیز کو عدم سے وجود کی منزل تک لانا، اور نیستی سے ہستی کے مرحلہ میں لانا اور صفر سے عدد کے مرحلہ تک پہچانا ہے۔
اور اس عظیم مرحلہ کے بعد کمال و ترقی کے دوسرے مراحل شروع ہوتے ہیں اور تمام دینی احکام و قوانین اسی راستہ میں قرار پاتے ہیں۔(1)


(1)تفسیر نمونہ ، جلد ۲۲، صفحہ ۳۸۹
۸۹۔ کیا انسان کی سعادت اور شقاوت ذاتی ہے؟ ۸۷۔ محارم سے شادی کی حرمت کا فلسفہ کیا ہے؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma