۵۴۔ بیعت کی حقیقت کیا ہے؟ نیز انتخاب اور بیعت میں کیا فرق ہے؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
110 سوال اور جواب
۵۵۔ کیا دس سالہ بچہ کا اسلام قابل قبول ہے؟ ۵۳۔ ولایت تکوینی اور تشریعی سے کیا مراد ہے؟

”حقیقت بیعت“ بیعت کرنے والے اور جس کی بیعت کی جارہی ہے دونوں کی طرف سے ایک معاہدہ ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ بیعت کرنے والا بیعت لینے والے کی اطاعت، پیروی ، حمایت اور دفاع کرے گا، اور اس میں ذکرشدہ شرائط کے لحاظ سے بیعت کے مختلف درجے ہیں۔
قرآن کریم اور احادیث ِنبوی کے پیشِ نظر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ بیعت ، بیعت کرنے والے کی طرف سے ایک ”عقد لازم ہے اور اس کے مطابق عمل کرنا واجب ہوتا ہے، لہٰذا وہ قانونِ عام <اٴَوْفُوا بِالْعُقُودِ(سورہ مائدہ پہلی آیت ) کے تحت قرار پاتا ہے، اس بنا پر بیعت کرنے والا اس کو فسخ نہیں کرسکتا، لیکن صاحب بیعت اگر مصلحت دیکھے تو اپنی طرف سے بیعت اٹھا سکتا ہے اور اس کو فسخ کرسکتا ہے، اس صورت میں بیعت کرنے والا اطاعت اور پیروی سے آزاد ہوجاتا ہے۔(1)
بعض لوگوں نے بیعت کو ”انتخاب“ (اور الیکشن) کے مشابہ قرار دیا ہے حالانکہ انتخابات کا مسئلہ اس کے بالکل برعکس ہے یعنی انتخاب کے معنی یہ ہیں کہ انتخاب ہونے والے شخص کو ایک ذمہ داری اور عہدہ دیا جاتا ہے یا دوسرے الفاظ میں اس کو مختلف امور انجام دینے کے لئے وکیل بنایا جاتا ہے، اگرچہ انتخاب کرنے والے کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں (تمام وکالتوں کی طرح) جبکہ بیعت میں ایسا نہیں ہے۔
یا یوں کہئے کہ انتخاب کسی کو عہدہ یا منصب دینے کا نام ہے، جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ وکیل بنانے کی طرح ہے، جبکہ بیعت ”اطاعت کا عہد“ کرنے کا نام ہے۔
اگرچہ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ دونوں بعض چیزوں میں ایک دوسرے کے مشابہ ہوں، لیکن اس مشابہت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ دونوں ایک ہیں، لہٰذا بیعت کرنے والا بیعت کو فسخ نہیں کرسکتا، حالانکہ انتخابات کے سلسلہ میں ایسا ہوتا ہے کہ انتخاب کرنے والے اسے عہدہ سے معزول کرسکتے ہیں۔(2)
اب یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی نبی یا امام کی مشروعیت میں بیعت کا کوئی کردار ہے یا نہیں؟ پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ معصومین علیہم السلام چونکہ خداوندعالم کی طرف سے منسوب ہوتے ہیں اور ان کو کسی بھی بیعت کی ضرورت نہیں ہوتی، یعنی خداوندعالم کی طرف سے منصوب نبی یا امام معصوم علیہم السلام کی اطاعت خدا کی طرف سے واجب ہوتی ہے، چاہے کسی نے بیعت کی ہو یا بیعت نہ کی ہو۔
دوسرے الفاظ میں: مقام نبوت اور امامت کا لازمہ ،اطاعت کا واجب ہوناہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
<یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اٴَطِیعُوا اللهَ وَاٴَطِیعُوا الرَّسُولَ وَاٴُوْلِی الْاٴَمْرِ مِنْکُم(3) ”اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو، رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کروجو تمہیں میں سے ہیں“۔
لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس طرح ہے تو پھر پیغمبر اکرم (ص) نے اپنے اصحاب یا نئے مسلمان ہونے والے افراد سے بیعت کیوںلی؟ جس کے دو نمونے تو خود قرآن مجید میں موجود ہیں، (بیعت رضوان ، جیسا کہ سورہ فتح ، آیت نمبر ۱۸ /میں اشارہ ملتا ہے، اور اہل مکہ سے بیعت لی جیسا کہ سورہ ممتحنہ میں اشارہ ہوا ہے)
اس سوال کے جواب میں ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ اس طرح کی بیعت ایک طرح سے وفاداری کے عہد و پیمان جیسی ہوتی ہے جو خاص مواقع پر انجام پاتی ہے، خصوصاً بعض سخت مقامات اور حوادث میں اس سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے، تاکہ اس کی وجہ سے مختلف لوگوں میں ایک نئی روح پیدا ہوجائے۔
لیکن خلفاء کے سلسلہ میں لی جا نے والی بیعت کا مطلب ان کی خلافت کا قبول کرنا ہوتا تھا، اگرچہ ہمارے عقیدہ کے مطابق خلافت رسول (ص) کوئی ایسا منصب نہیں ہے کہ جس کو بیعت کے ذریعہ حل کیا جاسکتا ہو، بلکہ خلیفہ خداوندعالم کی طرف سے پیغمبر اکرم (ص) یا پہلے والے امام کے ذریعہ معین ہوتا ہے۔
اسی دلیل کی بنا پر جن لوگوں نے حضرت علی علیہ السلام یا امام حسن علیہ السلام یا امام حسین علیہ السلام سے بیعت کی ہے وہ بھی وفاداری کے اعلان اور پیغمبر اکرم (ص) سے کی گئی بیعتوں کی طرح تھی۔
نہج البلاغہ کے بعض کلمات سے اچھی طرح یہ معلوم ہوتا ہے کہ بیعت صرف ایک بار ہوتی
ہے، اس میں تجدید نظر نہیں کی جاسکتی، جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
”لِاٴَنّھا بیعةٌ وَاحِدةٌ، لا یُثنٰی فِیھَا النَّظر ولا یستاٴنفُ فِیھَا الخَیَار، الخَارجُ منھَا طَاعِن ،والمرویّ فِیھَا مَداھِن!“(4)
” چونکہ یہ بیعت ایک مرتبہ ہوتی ہے جس کے بعد نہ کسی کو نظرِ ثانی کا حق ہوتا ہے اور نہ دوبارہ اختیار کرنے کا ، اس سے باہر نکل جانے والا اسلامی نظام پر معترض شمار کیا جاتا ہے اور اس میں غور وفکرکرنے والا منافق کہا جاتا ہے“۔
امام علیہ السلام کے کلام سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام نے ان لوگوں کے مقابلہ میں جو پیغمبر اکرم (ص) کی طرف سے منصوصخلافت کا عقیدہ نہیں رکھتے تھے اور بہانہ بازی کیا کرتے تھے ،بیعت کے مسئلہ سے ( جو خود ان کے نزدیک مسلّم تھا) استدلال کیا ہے، تاکہ امام علیہ السلام کی نافرمانی نہ کریں، اور معاویہ یا اس جیسے دوسرے لوگوں کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ جس طرح (بیعت کے ذریعہ) تم تینوں خلفا کی خلافت کے قائل ہو تو اسی طرح میری خلافت کے بھی قائل رہو، اور میرے سامنے تسلیم ہوجاؤ،(بلکہ میری خلافت تو ان سے زیادہ حق رکھتی ہے کیونکہ میری بیعت وسیع پیمانے پر ہوئی ہے اور تمام ہی لوگوں کی رغبت و رضاسے ہوئی ہے۔)
اس بنا پر حضرت علی علیہ السلام کا بیعت کے ذریعہ استدلال کرنا خدا و رسول کی طرف سے منصوب ہونے کے منافی نہیں ہے۔
اسی وجہ سے امام علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں حدیث ثقلین کی طرف اشارہ فرماتے ہیں(5)جو آپ کی امامت پر بہترین دلیل ہے، اور دوسری جگہ وصیت اور وراثت کے مسئلہ کی طرف اشارہ فرماتے ہیں،(6) (غور کیجئے )
ضمناً ان روایات سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہوجاتی ہے کہ اگر کسی سے زبردستی بیعت لی جائے یا لوگوں سے غفلت کی حالت میں بیعت لی جائے تو اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، بلکہ غور و فکر کے بعد اپنے اختیار و آزادی سے کی جانے والی بیعت کی اہمیت ہوتی ہے، (غور کیجئے )
اس نکتہ پر توجہ کرنا ضروری ہے کہ ولی فقیہ کی نیابت ایک ایسا مقام ہے جو ائمہ معصوم علیہم السلام کی طرف سے معین ہوتا ہے، اس میں کسی بھی طرح کی بیعت کی ضرورت نہیں ہوتی، البتہ ”ولی فقیہ“ کی اطاعت و پیروی سے استحکام آتا ہے تاکہ اس مقام سے استفادہ کرتے ہوئے دینی خدمات انجام دے سکے، لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ یہ عہدہ لوگوں کی پیروی اور اطاعت کرنے پر موقوف ہے، اس کے علاوہ لوگوں کا پیروی کرنا بیعت کے مسئلہ سے الگ ہے بلکہ ولایت فقیہ کے سلسلہ میں حکم الٰہی پر عمل کرنا ہے۔ (غور کیجئے ) (7)


(1) ہم واقعہ کربلا میں پڑھتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام نے شب عاشور ایک خطبہ دیا اور اپنے اصحاب اور ناصروں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان سے اپنی بیعت کواٹھا لیا اور کہا :جہاں چاہو چلے جاوٴ(،لیکن اصحاب نے وفاداری کا ثبوت پیش کیا) امام علیہ السلام نے فرمایا: ”فانطلِقُوا فی حل لیس علیکم منّی زمام(کامل ابن اثیر ، جلد ۴، صفحہ 57)
(2) تفسیر نمونہ ، جلد ۲۲، صفحہ ۷۱
(3) سورہ نساء ، آیت ۵۹
(4) نہج البلاغہ ، مکتوب نمبر۷، صفحہ۴۸۹
(5) نہج البلاغہ ، خطبہ نمبر۸۷
(6) نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر ۲
(7) تفسیر نمونہ ، جلد ۲۲، صفحہ ۷۲
۵۵۔ کیا دس سالہ بچہ کا اسلام قابل قبول ہے؟ ۵۳۔ ولایت تکوینی اور تشریعی سے کیا مراد ہے؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma