50۔ اولوا الامر سے مراد کون ہیں؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
110 سوال اور جواب
۵۱۔ اہل بیت سے مراد کون حضرات ہیں؟ ۴۹۔ امامت کی بحث کب سے شروع ہوئی؟

جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: <یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اٴَطِیعُوا اللهَ وَاٴَطِیعُوا الرَّسُولَ وَاٴُوْلِی الْاٴَمْرِ مِنْکُم(1) ”اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو، رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کروجو تمہیں میں سے ہیں“۔
یہاں پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ اولوا الامر سے مراد کون حضرات ہیں؟
اولوا الامر کے بارے میں اسلامی مفسرین کے درمیان بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے، ذیل میں ہم اس کا خلاصہ پیش کرتے ہیں:
۱۔ بعض اہل سنت مفسرین اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ ”اولوا الامر “ سے مراد ہر زمانہ اور ہر مقام کے حکام وقت اور بادشاہ ہیں،اور اس میں کسی طرح کا کو ئی استثنا نہیں ہے جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر حکومت کی پیروی کریں اگرچہ وہ مغل حکومت ہی کی کیوں نہ ہو۔
۲۔ صاحب تفسیر المنار اور صاحب تفسیر فی ظلال القرآن وغیرہ اس بات پر عقیدہ رکھتے ہیں کہ اولوا الامر سے مراد عوام الناس کے نمائندے، حکام وقت، علمااور صاحبان منصب ہیں ،لیکن اس شرط کے ساتھ کہ ان کا حکم اسلامی قوانین کے برخلاف نہ ہو۔
۳۔ بعض دیگر علماکے نزدیک اولوا الامر سے معنوی اور فکری حکّام یعنی علمااور دانشورمراد ہیں، ایسے دانشور جو عادل اور قرآن و سنت سے مکمل طور پر آگاہ ہوں۔
۴۔ اہل سنت کے بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ اولوا الامر سے مراد صرف ابتدائی چار خلفاء ہیں، ان کے علاوہ کوئی دوسرا اولوا الامر میں شامل نہیں ہے لہٰذا ان کے بعد دوسرے زمانہ میں کوئی اولواالامر نہیں ہوگا۔
۵۔بعض دوسرے مفسرین نے پیغمبر اکرم (ص) کے اصحاب اور ان کے ناصروں کو اولواالامر مانا ہے۔
۶۔ بعض مفسرین نے ایک یہ بھی احتمال دیا ہے کہ اولوا الامر سے مراد اسلامی لشکرکا سردار ہے۔
۷۔ تمام شیعہ مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ اولوا الامر سے مراد ”ائمہ معصومین علیہم السلام“ ہیں جن کو خدا اور رسول کی طرف سے اسلامی معاشرے میں مادی اور معنوی رہبری کی ذمہ داری عطا کی گئی ہے، ان کے علاوہ کوئی دوسرا شخص اولوا الامر میں شامل نہیں ہے، البتہ جو افراد ان کی طرف سے منصوب کئے جاتے ہیں اور اسلامی معاشرہ میں ان کو کوئی عہدہ دیا جاتا ہے تو معین شرائط کے ساتھ ان کی اطاعت بھی لازم ہے، البتہ اولوا الامرکے عنوان سے نہیں بلکہ ان کی اطاعت اس لئے ضروری ہوتی ہے کہ وہ اولوا الامر کے نائب اور نمائندے ہوتے ہیں۔
اب ہم یہاں مذکورہ تفاسیر کے سلسلہ میں تحقیق و تنقید کرتے ہیں:
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پہلی تفسیرکا آیت کے مفہوم اورتعلیمات اسلامی سے کو ئی تعلق نہیںہے ، اور یہ بات ممکن نہیں ہے کہ کوئی بھی حکومت ،خدا اور رسول کے برابر قرار دے دی جائے اور اس کی اطاعت کی جائے اور اس میں کسی بھی طرح کی کوئی قید و شرط نہ ہو، اسی وجہ سے شیعہ مفسرین کے علاوہ خود اہل سنت کے مفسرین نے اس پہلی تفسیر کو قبول نہیں کیا ہے۔
دوسری تفسیر بھی آیہٴ شریفہ سے ہم آہنگ نہیں ہے، کیونکہ آیت میں اولوا الامر کی اطاعت کو بغیر کسی قید و شرط کے واجب قرار دیا گیا ہے۔
تیسری تفسیر یعنی جس میں عادل اور قرآن و سنت سے واقف علمااور دانشوروں کو اولوا الامر قرار دیا گیا ہے، وہ بھی آیت کے اطلاق سے ہم آہنگ نہیں ہے، کیونکہ علمااو ردانشوروں کی پیروی کی شرط یہ ہے کہ ان کا حکم قرآن و سنت کے برخلاف نہ ہو، لہٰذا اگر وہ کسی خطا کے مرتکب ہوجائیں (کیونکہ وہ معصوم تو ہیں نہیں ان سے خطا ہوسکتی ہے) یا کسی دوسری وجہ کی بنا پر حق سے منحرف ہوجائیں تو پھر ان کی اطاعت ضروری نہیں ہے، لیکن آیہٴ شریفہ میں اولوا الامر کی اطاعت کو مطلق اور پیغمبر اکرم کی طرح ضروری قرار دیا گیا ہے، اس کے علاوہ وہ علمااو ردانشور افراد جنھوں نے قرآن و سنت سے احکام حاصل کئے ہیں ان کی اطاعت خداو رسول کی اطاعت ہوگی، اور الگ سے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
چوتھی تفسیر ( جس میں چاروں خلفا ہی کو اولوا الامر قرار دیا گیا) کا مطلب یہ ہے کہ آج مسلمانوں کے درمیان کوئی اولوا الامرنہ ہو، اس کے علاوہ اولوا الامر کو چاروں خلفا سے مخصوص کرنے پر بھی کوئی دلیل نہیں ہے۔
پانچویں اور چھٹی تفسیر یعنی صحابہ اور سرداران لشکر سے مخصوص کرنے میں بھی یہی مشکل ہے، یعنی ان لوگوں سے مخصوص کرنے پر بھی کوئی دلیل نہیں ہے۔
بعض علمااہل سنت جیسے مصر کے مشہور و معروف دانشور”شیخ محمد عبدہ“ نے مشہور و معروف مفسر ”فخر الدین رازی“ کی پیروی کرتے ہوئے دوسرے احتمال ( کہ اولوا الامر سے مراد، عوام الناس کے نمائندے، حاکم وقت، علمااور صاحب منصب افراد ہیں ،لیکن اس شرط کے ساتھ کہ ان کا حکم اسلامی قوانین کے برخلاف نہ ہو)میں چند شرائط کا اضافہ کرتے ہوئے قبول کیا ہے ، ان میں سے ایک شرط یہ بیان کی ہے کہ حاکم وقت مسلمان ہو (جیسا کہ لفظ ”منکُم“ سے نتیجہ نکلتا ہے) اور اس کا حکم قرآن اور سنت کے برخلاف نہ ہو، مزید یہ کہ اس کا حکم اپنے اختیار سے ہو نہ کہ اس نے مجبوری کی حالت میں حکم دیا ہواور یہ کہ مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے حکم کرے، نیز ایسے مسائل میں حکم کرے جس میں دخالت کا حق رکھتا ہو (نہ عبادت جیسی چیزوں میں کہ جس کا حکم اسلام میں معین ہے) مزید یہ کہ جس مسئلہ میں حکم کررہا ہو اس میں شریعت کی طرف سے کوئی خاص نص موجود نہ ہو ، ان تمام چیزوں کے علاوہ اتفاقی طور پر نظریہ دے(یعنی ایسا نہ ہو کہ ایک حاکم کچھ کہہ رہا ہے تو دوسرا کچھ)۔
اور چونکہ یہ لوگ اس بات پر عقیدہ رکھتے ہیں کہ تمام امت یا امت کے تمام نمائندے خطا اور غلطی نہیں کرسکتے ،یعنی معصوم ہوتے ہیں، اور ان شرائط کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسا حکم جس میں کوئی قید و شرط نہ ہوپیغمبر اکرم (ص) کی اطاعت کی طرح ہوجاتا ہے، (جس کا نتیجہ ”اجماع“ کو حجت ماننا اور اس کو قبول کرنا ہے)، لیکن اس تفسیر پر بھی بہت سے اعتراضات ہیں، کیونکہ:
۱۔ اجتماعی مسائل میں بہت ہی کم مقامات پر اتفاق ہوتاہے جس کی بنا پر امت مسلمہ کے اکثر امور میں ہمیشہ ایک بے نظمی با قی رہے گی، اور اگر لوگ کثریت کے نظریہ کو قبول کرنا چاہیں تو اس پر اعتراض یہ ہے کہ اکثریت معصوم نہیں ہے بلکہ پوری امت کا اجماع معصوم ہے، لہٰذا ان میں سے کسی ایک کی بھی اطاعت ضروری نہ ہوگی۔
۲۔ علم اصول میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ بغیر امام معصوم کے”تمام امت “ کے معصوم ہونے پر کوئی دلیل نہیں ہے، (اگر امام معصوم اجماع میں شامل نہ ہو تو اس اجماع کا کوئی فائدہ نہیں ہے)
۳۔ اس تفسیر کے حامیوں کی ایک شرط یہ تھی کہ ان کا حکم قرآن و سنت کے برخلاف نہ ہو، لیکن قرآن اور سنت کے خلاف ہے یا نہیں اس کو دیکھنے کی ذمہ داری کس پر ہوگی، تو یہ ذمہ داری مجتہد اور قرآن و سنت سے آگاہ علماکی ہوگی جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مجتہدین اور علماکی اجازت کے بغیر اولوا الامر کی اطاعت جائز نہ ہوگی، بلکہ علماکی اطاعت اولوا الامر سے بلند ہوگی، جبکہ یہ نظریہ بھی آیت سے ہم آہنگ نہیںہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ انھوں نے علمااور دانشوروں کو بھی اولوا الامر میں شمار کیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس تفسیر کی بنا پر علمااور مجتہدین کا مرتبہ ان نمائندوں سے بلند ہوگا نہ کہ ان کے ہم پلہ، کیونکہ علماو دانشورحضرات اولوا الامر کے امور کے نگراں ہیں کہ کہیں ان کے نظریات قرآن و سنت کے مخالف تو نہیں ہیں، لہٰذا وہ ان سے بلند مرتبہ پر فائز ہیں جو کہ مذکورہ تفسیر سے ہم آہنگ نہیں ہے۔
لہٰذامذکورہ تفسیر پر متعدد اعتراض ہوئے ہیں۔
صرف ساتویں تفسیر مذکورہ اعتراضات سے خالی ہے یعنی اولوا الامر سے مراد ائمہ معصومین علیہم السلام ہے، کیونکہ یہ تفسیر مذکورہ آیت میں موجود ہ وجوبِ اطاعت کے اطلاق سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں، کیونکہ ”عصمت“ ان کو ہر طرح کی خطا و غلطی سے محفوظ رکھتی ہے، اسی لئے امام کا حکم پیغمبر اکرم (ص) کے حکم کی طرح بغیر کسی قید و شرط کے واجب الاطاعت ہے، اور انھیں آنحضرت (ص) کی اطاعت کی صف میں قرار دیا جانا مناسب ہے، جیسا کہ لفظ ”اطیعوا“ کی تکرار کے بغیر ”رسول“ پر عطف ہوا ہے۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ اہل سنت کے بعض مشہور و معروف علماجیسے فخر الدین رازی نے مذکورہ آیت کے ذیل میں اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے، جیسا کہ موصوف تحریر کرتے ہیں:
”خداوندعالم نے جس کی اطاعت کو قاطعانہ اور بغیر چون و چرا کے لازم اور ضروری قرار دیا ہے اس کا معصوم ہونا ضروری ہے، کیونکہ اگر خطا اور غلطی سے معصوم نہ ہو ، اور گنا ہوں کے وقت خدا اس کی اطاعت کو لازم قرار دے اور خطا کی صورت میں بھی اس کی پیروی لازم ہو تو یہ تو خود خداوندعالم کے حکم میں تضاد اور ٹکراؤ ہوگا، کیونکہ ایک طرف تو خداوندعالم نے کسی کام کو ممنوع قرار دیا ہے اور دوسری طرف ”اولوا الامر “ کی پیروی لازم قرار دی ہے ، لہٰذا یہاں ”امر“ اور ”نہی“ دونوں جمع ہوجائیں گے، (یعنی ایک طرف خدا کہہ رہا ہے کہ اس کام کو انجام دو، دوسری طرف اسی کام سے روک بھی رہا ہے)
ایک طرف خداوندعالم اولوا الامر کی اطاعت کا مطلق طور پر حکم دے رہا ہے، دوسری طرف اگر اولوا الامر معصوم نہ ہو اور خدا اس کی اطاعت کا حکم دے تو یہ حکم صحیح نہیں ہے، اس مقدمہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مذکورہ آیت میں جس اولوا الامر کی طرف اشارہ کیا گیا اس کا معصوم ہونا ضروری ہے۔
اس کے بعد فخر الدین رازی تحریر کرتے ہیں کہ یہ معصوم یا تو تمام امت ہے یا امت کے کچھ افراد ہیں ،دوسرا احتمال صحیح نہیں ہے، کیونکہ ہم امت کے ان بعض افراد کو پہچانیں اور اس تک رسائی ممکن ہو، جبکہ ایسا نہیں ہے،(یعنی وہ معصوم کو ن ہے ہمیں معلوم نہیں ہے) اور جب یہ احتمال ردہوجاتا ہے تو صرف پہلا احتمال باقی رہتا ہے کہ پوری امت معصوم ہے، اور یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ امت کا اجماع اور اتفاق حجت و قابل قبول ہے، اور یہ بہترین دلیل ہے۔(2)
(قارئین کرام!) جیسا کہ آپ حضرات جانتے ہیں کہ فخر رازی مختلف علمی مسائل پر اعتراضات کرنے کے شوقین ہیں یہاں مذکورہ آیت میں اولوا الامر کے معصوم ہونے کو قبول کرتے ہیں، لیکن مکتب اہل بیت اور ائمہ علیہم السلام سے آشنائی نہ رکھنے کے سبب اس احتمال سے چشم پوشی کرلیتے ہیں کہ امت کے معین حضرات اولوا الامر ہیں، اور مجبوراً اولوا الامر کے معنی تمام امت (یا عام مسلمانوں کے نمائندے) مرادلیتے ہیں، جبکہ یہ احتمال قابل قبول نہیں ہے کیونکہ ہم نے پہلے بھی عرض کیا کہ اولوا الامر اسلامی معاشرہ کے لئے رہبر ہے اور اسلامی حکومت نیز امت مسلمہ کی مشکلات کے فیصلے اسی کے ذریعہ ہوتے ہیں، جبکہ ہم یہ بات بھی جانتے ہیں کہ تمام حکومتی عہدہ داروں میں اتفاق ہونا ممکن نہیں ہے، کیونکہ مسلمانوں کو درپیش اجتماعی ، سیاسی، ثقافتی، اخلاقی اور اقتصادی مسائل میں سب لو گوں کاہونا غالباً ممکن نہیں ہے، اور اکثریت کی پیروی اولوا الامر کی پیروی شمار نہیں ہوگی،
لہٰذا فخر الدین رازی اور ان کی پیروی کرنے والے معاصرین کے عقیدہ کا لازمہ یہ ہوگا کہ اولوا الامر کی اطاعت کی جگہ باقی نہ رہے، اور صرف استثنائی صورت اختیار کرلے۔
(قارئین کرام!) ہماری تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہوا کہ آیہٴ شریفہ صرف ان معصوم حضرات کی رہبری کو ثابت کرتی ہے جوامت کا ایک حصہ ہیں۔ (غور کیجئے )
چند اعتراضات اور ان کے جوابات
مذکورہ تفسیر پر کچھ اعتراضات ہوئے ہیں،جن کو ہم بغیر طرفداری کے بیان کرتے ہیں:
۱۔ اگر ”اولوا الامر“ سے مراد ائمہ معصومین علیہم السلام ہوں تو چونکہ لفظ ”اولی“ جمع کا صیغہ ہے، لہٰذا آیت سے ہم آہنگ نہیں ہے، کیونکہ ہر زمانہ میں امام معصوم صرف ایک ہوتا ہے۔
اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ ہر زمانہ میں امام معصوم ایک سے زیادہ نہیں ہوتا لیکن ہر زمانہ میں ایک ہی امام ہوتا ہے اس کے بعد دوسرا امام،تاآخر، اور ہم جانتے ہیں کہ آیہٴ شریفہ ہر زمانہ کے افراد کو امام کی اطاعت کے لئے حکم دے رہی ہے۔
۲۔ اس معنی کے لحاظ سے پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں اولوا الامر موجود نہیں تھے ، تو پھر کس طرح ان کی اطاعت کا حکم دیا گیا؟
اس اعتراض کا جواب بھی مذکورہ جواب سے واضح اور روشن ہوجاتا ہے کیونکہ آیہٴ شریفہ کسی خاص زمانہ سے مخصوص نہیں ہے، لہٰذا ہر صدی کے مسلمانوں کا وظیفہ معین کرتی ہے، اور دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ خود پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں خود آنحضرت (ص) اولوا الامر تھے ، کیونکہ اس وقت پیغمبر اکرم (ص) کے پاس دو منصب تھے ایک منصب ”رسالت“ جیسا کہ آیہٴ شریفہ میں ”اٴطَیعُوا الرَّسوُلَ“ آیاہے ، دوسرے ”امت اسلامی کی رہبری اور سرپرستی“ اس آیت میں ”اولوا الامر“ سے یاد کیا گیا ہے، اس بنا پر پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں معصوم رہبر اور پیشوا خود آنحضرت تھے ، یعنی منصب رسالت اور احکام اسلام کی تبلیغ کے علاوہ اس منصب پر بھی فائز تھے، اور شاید ”رسول“ اور ”اولوا الامر“ کے درمیان ”اطیعوا“ کی تکر ار نہ ہو نا اس بات کی طرف اشارہ ہے، دوسرے الفاظ میں یوں سمجھئے کہ منصب ”رسالت“ اور منصب ”اولوا الامر“ دو مختلف منصب ہیں جو پیغمبر اکرم (ص) میں ایک ساتھ جمع تھے، لیکن امام کے سلسلہ میں جدا مسئلہ ہے اور امام صرف دوسرا منصب رکھتا ہے۔
۳۔ اگر ”اولوا الامر“ سے مراد ائمہ معصومین اور معصوم رہبر ہوں تو درج ذیل آیہٴ شریفہ میں مسلمانوں کے اختلاف کی صورت میں صرف خدا و رسول کی طرف رجو ع کرنے کا حکم کیو ں دیا گیاہے، ارشاد ہوتا ہے: < فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِی شَیْءٍ فَرُدُّوہُ إِلَی اللهِ وَالرَّسُولِ إِنْ کُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ ذَلِکَ خَیْرٌ وَاٴَحْسَنُ تَاٴْوِیلًا(3)
”پھر اگر آپس میں کسی بات میں اختلاف ہوجائے تو اُسے خدا و رسول کی طرف پلٹادو، اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھنے والے ہو، یہی تمہارے حق میں خیر اور انجام کے اعتبار سے بہترین بات ہے“۔
جیسا کہ آپ نے ملا حظہ کیا کہ اس آیت میں اولوا الامر کی بات نہیں کی گئی ہے، اور اختلاف دورکرنے کے لئے صرف خدا و رسول کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیاگیا ہے، یعنی کتاب خدا ، (قرآن کریم) اور سنت پیغمبر کے ذریعہ اختلاف حل کیا جائے گا۔
اس سوال کے جواب میں ہم عرض کرتے ہیں کہ اولاً یہ اعتراض شیعہ مفسرین پر نہیں ہے بلکہ اگر ذرا غور کریں تو دوسری تفسیروں پر بھی یہی اعتراض وارد ہوتا ہے، اور دوسرے یہ کہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ مذکورہ آیت میں اختلاف اور تنازع سے مراد احکام کا اختلاف ہے، مسلمانوں
کی رہبری اور حکومت کے جزئی مسائل کا اختلاف مراد نہیں ہے ،کیونکہ ان مسائل میں قطعی طور پر اولوا الامر کی اطاعت ہونی چاہئے، (جیسا کہ آیت کے پہلے فقرہ میں بیان ہوا ہے) لہٰذا اختلاف سے مراد اسلام کے عام قوانین اور احکام کا اختلاف مراد ہے جس کا جواز خدااور پیغمبر سے مخصوص ہے، کیونکہ امام صرف احکام کو نافذ کرتا ہے، احکام کو وضع نہیں کرتا، اور نہ ہی اسلام کے کسی قانون کو نسخ کرتا، بلکہ ہمیشہ احکام خدا اور سنت پیغمبر کو نافذ کرتا ہے، اور اسی وجہ سے اہل بیت علیہم السلام سے منقول احادیث میں بیان ہوا ہے کہ اگر(کسی راوی کے ذریعہ) ہم سے کوئی بات کتاب خدا اور سنت پیغمبر کے برخلاف سنو تو اس کو ہرگز قبول نہ کرو ،کیونکہ ہمارے لئے قرآن اور سنت پیغمبر کے برخلاف حکم کرنا محال اور ناممکن ہے۔
مختصر یہ کہ احکام اور اسلامی قوانین لوگوں کے اختلاف کو حل کرنے کا پہلا مرجع خدا اور پیغمبر اکرم (ص) ہیں، کیونکہ پیغمبر پر وحی ہوتی ہے، اور اگر امام معصوم کوئی حکم بیان کرتا ہے تو وہ اپنی طرف سے نہیں ، بلکہ قرآن کریم یا پیغمبر اکرم (ص) سے حاصل ہوئے علم کی بناپر ہوتا ہے، لہٰذا اختلاف حل کرنے والوں کی صف میں اولوا الامرکو ذکر نہ کرنے کی وجہ روشن ہوجاتی ہے۔(4)

 


(1) سورہٴ نساء ، آیت 59
(2) تفسیر کبیر فخر رازی ، جلد ۱۰، صفحہ ۱۴۴، طبع مصر ۱۳۵۷ئھ  ش
(3) سورہ نساء ، آیت ۵۹
(4) تفسیر نمونہ ، جلد ۳، صفحہ ۴۳۵
۵۱۔ اہل بیت سے مراد کون حضرات ہیں؟ ۴۹۔ امامت کی بحث کب سے شروع ہوئی؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma