۱۹۔ کیا انسانوں میں پیدائشی فرق ؛ خدا وندعالم کی عدالت سے ہم آہنگ ہے؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
110 سوال اور جواب
۲۰۔ کیا روزی کے لحاظ سے لوگوں میں موجودہ فرق ، عدالت الٰہی سے ہم آہنگ ہے؟ ۱۸۔ دعا کرتے وقت آسمان کی طرف ہاتھ کیوں بلند کرتے ہیں؟

۱۹۔ کیا انسانوں میں پیدائشی فرق ؛ خدا وندعالم کی عدالت سے ہم آہنگ ہے؟

جیسا کہ ہم قرآن کریم میں پڑھتے ہیں : <وَلٰا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللهُ بِہِ بَعْضَکُمْ عَلَی بَعْضٍ (1)
”اور خبر دار جو خدا نے بعض افراد کو بعض سے کچھ زیادہ دیا ہے اس کی تمنا اور آرزو نہ کرنا“۔
اس آیہٴ --شریفہ کے پیش نظر بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کی استعداد اور قابلیت زیادہ اور بعض لوگوں کی استعداد کم کیوں ہے؟ اسی طرح بعض لوگ دوسروں سے زیادہ خوبصورت اور بعض کم خوبصورت ہیں، نیز بعض لوگ بہت زیادہ طاقتور اور بعض معمولی طاقت رکھتے ہیں، کیا یہ فرق خداوندعالم کی عدالت کے منافی نہیںہے؟
اس سوال کے ذیل میں ہم چند نکات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
۱۔ بعض لوگوں میں جسمانی یا روحانی فرق کا ایک حصہ طبقاتی نظام، اجتماعی ظلم و ستم یا ذاتی سستی اور کاہلی کا نتیجہ ہوتا ہے جس کا نظام خلقت سے کوئی سروکار نہیں، مثال کے طور پر بہت سے 
مالدار لوگوں کی اولاد غریب لوگوں کی اولاد کی نسبت جسمی لحاظ سے طاقتور، خوبصورتی کے لحاظ سے بہتر اور استعداد و قابلیت کے لحاظ سے بہت آگے ہوتی ہے، کیونکہ ان کے یہاں غذائی اشیاء کافی مقدار میں ہوتی ہیں اور صفائی کا بھی خیال رکھا جاتا ہے، جبکہ غریب لوگوں کے یہاں یہ چیزیں نہیں ہوتیں، یا بہت سے لوگ سستی اور کاہلی سے کام لیتے ہیں اور اپنی جسمانی طاقت کھوبیٹھتے ہیں، لہٰذا اس طرح کے فرق کو ”جعلی اور بے دلیل“ کہا جائے گا جو طبقاتی نظام کے خاتمہ اور معاشرہ میں عدل و انصاف کا ماحول پیدا ہونے سے خود بخود ختم ہوجائے گا ، قرآن کریم نے اس طرح کے فرق کو کبھی بھی صحیح نہیں مانا ہے۔
۲۔ اس فرق کا ایک حصہ انسانی خلقت کا لازمہ اور ایک طبیعی چیز ہے یعنی اگر کسی معاشرہ میں مکمل طور پر عدل و انصاف پایا جاتا ہو تو بھی تمام لوگ ایک کارخانہ کی مصنوعات کی طرح ایک جیسے نہیں ہوسکتے، طبیعی طور پر ایک دوسرے میں فرق ہونا چاہئے ، لیکن یہ بات معلوم ہونا چاہئے کہ معمولاً خداداد صلاحتیں اور روحی و جسمی استعداد اس طرح تقسیم ہوئی ہیں کہ ہر انسان میں استعدادکا ایک حصہ پایا جاتا ہے یعنی بہت ہی کم لوگ ایسے ملیں گے کہ یہ تمام چیزیں ان میں جمع ہوں، ایک انسان، جسمانی طاقت سے سرفرازہے تو دوسرا علم حساب میں بہترین استعداد کا مالک ہے، کسی انسان میں شعرکہنے کی صلاحیت ہوتی ہے تو دوسرے میں تجارت کا سلیقہ پایاجاتا ہے، بعض میں زراعتی امور انجام دینے کی طاقت پائی جاتی ہے، اور بعض دوسرے لوگوں میں دوسری مخصوص صلاحتیں ہوتی ہیں، اہم بات یہ ہے کہ معاشرہ یا انسان اپنی صلاحیت کوبروئے کار لائے اور صحیح ماحول میں اس کی پرورش کرے تاکہ ہر انسان اپنی صلاحیت کو ظاہر کرسکے اور اس سے حتی الامکان سرفرازہوسکے۔
۳۔ اس نکتہ پر بھی توجہ کرنی چاہئے کہ ایک معاشرہ کے لئے انسانی بدن کی طرح مختلف چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے یعنی اگر ایک بدن کے تمام اعضا اور خلیے (Cells)ظریف اور لطیف ہوں گے جیسے آنکھ، کان اور مغز وغیرہ کے خلیے تو انسان میں دوام پیدا نہیں ہوسکے گا، یا اگر انسانی جسم کے تمام اعضا نرم نہ ہوں بلکہ ہڈیوں کے خلیوں کی طرح سخت ہوں تو وہ مختلف کاموں کے لئے بے کار ہیں(اور اس صورت میں انسان زیادہ دن زندہ نہیں رہ سکتا) بلکہ انسان کے جسم کے لئے مختلف خُلیوں کی ضرورت ہوتی ہے، ایک عضو میں سننے کی صلاحیت ہوتی ہے تو دوسرے میں دیکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے زبان سے گفتگو کی جاتی ہے، پیروں سے ادھر ادھر جانا ہوتا ہے، لہٰذا جس طرح انسان کے لئے مختلف اعضا و جوارح کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح ایک ”عمدہ معاشرہ“ کے لئے مختلف صلاحیتوں اور استعداد کی ضرورت ہوتی ہے جن میں سے بعض لوگ بدنی طور پر کام کریں اوربعض لوگ علمی اور غور و فکر کا کام انجام دیں، لیکن یہ نہیں کہ معاشرہ میں کچھ لوگ غربت اور پریشانی کی زندگی بسر کریں، یا ان کی خدمات کو اہمیت نہ دی جائے یا ان کو ذلت کی نگاہ سے دیکھا جائے ، جس طرح سے انسانی اعضا و جوارح اپنے تمام تر فرق کے باوجود ہر قسم کی غذا اور دوسری ضرروتوں سے فیضیاب ہوتے ہیں۔
دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ انسان میں روحی اور جسمی طبیعی اختلاف خداوندعالم کی حکمت کے عین مطابق ہے اور خداوندعالم کی عدالت، حکمت سے کبھی جدا نہیں ہوتی ، مثال کے طور پر اگر انسان کے تمام اعضا ایک ہی طرح کے خلق کئے جاتے تو اس کی حکمت کے منافی تھااور یہ عدالت نہ ہوتی، جبکہ عدالت کے معنی ہر چیز کو اس کی جگہ پر قرار دینے کے ہیں، اسی طرح اگر معاشرہ کے تمام لوگ ایک روز ایک ہی بات سوچیں اور ایک دوسرے کی استعداد برابر ہوجائے تو اسی ایک دن میں معاشرہ کی حالت درہم و برہم ہوجائے گی! (2)
 


(1) سورہ نساء ، آیت نمبر ۳۲
(2) تفسیر نمونہ ، جلد ۳، صفحہ ۵ ۳۶
۲۰۔ کیا روزی کے لحاظ سے لوگوں میں موجودہ فرق ، عدالت الٰہی سے ہم آہنگ ہے؟ ۱۸۔ دعا کرتے وقت آسمان کی طرف ہاتھ کیوں بلند کرتے ہیں؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma