۷۔ صفات جمال و جلال سے کیا مراد ہے؟
”صفاتِ ذات“ اور ”صفات ِفعل“۔
اس کے بعد صفات ذات کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیا ہے :”صفاتِ جمال“ اور ”صفاتِ جلال“۔
”صفات جمال“ سے وہ صفات مراد ہیں جو خداوندعالم کے لئے ثابت ہیں جیسے علم، قدرت، ازلیت، ابدیت، لہٰذا ان صفات کو ”صفات ثبوتیہ“ کہا جاتا ہے، اور ”صفات جلال“ سے مراد وہ صفات ہیں جو خدا میں نہیں پائی جاتیں، جیسے جہل، عجز، جسم وغیرہ لہٰذا ان صفات کو ”صفات سلبیہ“ کہا جاتا ہے، اور یہ دونوں صفات خداوندعالم کی”صفات ذات“ ہیں، اور اس کے افعال سے قطع نظر قابل درک ہیں۔
”صفات فعل “ سے مراد وہ صفات ہیں جو خداوندعالم کے افعال سے متعلق ہوتی ہیں، یعنی جب تک خداوندعالم اس فعل کو انجام نہ دے تو اس صفت کا اس پر اطلاق نہیں ہوتا، جب وہ فعل انجام دیتا ہے تو اس صفت سے متصف ہوتا ہے جیسے ”خالق“، ”رازق“اور”محی“، ”ممیت“ (یعنی خلق کرنے والا، روزی دینے والا، زندہ کرنے والا اور موت دینے والا)
ہم ایک بار پھر اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ خداوندعالم کی ”صفات ذات“ اور ”صفات فعل “ لامحدود ہیں، کیونکہ نہ اس کے کمالات ختم ہونے والے ہیں اور نہ اس کے افعال و مصنوعات، لیکن پھر بھی ان میں سے بعض صفات دوسری صفات کی اصل اور سرچشمہ شمار ہوتی ہیں، نیز وہ ان کی شاخیں شمار کی جاتی ہیں، لہٰذا اس نکتہ کے پیش نظر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ خداوندعالم کی درج ذیل پانچ صفات خداوندعالم کی ذات اقدس کے تمام اسما و صفات کے لئے اصل و سرچشمہ ہیں اور باقی ان کی شاخیں ہیں:
وحدانیت، علم، قدرت، ازلیت اور ابدیت۔(1)