شیطان کی بوسیدہ رسیوں کے ساتھ کنویں میں نہ جاؤ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 23
یہ آیات اسی طرح یہودِ بنی نظیر اورمنافقین کی داستان کے بارے میں بحث کوجاری رکھتے ہوئے ہیں اوردونوں گروہوں کی حیثیتوں کوعمدہ تشبیہوں کے ساتھ مشخص کرتی ہیں ، خداوند ِ عالم پہلے فرماتاہے:
بنو نظیر کے یہودیوں کی داستان ایسے لوگوں کی داستان کی مانند ہے جوماضی قریب میں ان سے پہلے تھے ،وہی جنہوںنے اس دُنیا میں اپنے کام کاتلخ انجام دیکھاتھا اورقیامت میں ان کے لیے دردناک عذاب ہے (کَمَثَلِ الَّذینَ مِنْ قَبْلِہِمْ قَریباً ذاقُوا وَبالَ أَمْرِہِمْ وَ لَہُمْ عَذاب أَلیم )(١) ۔
ر ہی یہ بات کہ وہ کون ساگروہ تھاجس کی بنو نظیر کے واقعہ سے پہلے عبرت ناک سرگزشت تھی تووہ اس طرح ہے کہ ان دو واقعات کے درمیان زیادہ وقفہ نہیں تھا ۔ ایک جماعت توانہی مشرکین ِ مکّہ کی تھی جنہوںنے جنگ ِبدر میںشکست کاتلخ مزہ اپنے پُورے وجود کے ساتھ چکھاتھا اورمجاہدین اسلام کی ضربوں نے انہیں تہہ تیغ کردیاتھا ،بنو نظیر کاواقعہ جساکہ پہلے بھی ہم نے اشارہ کیاہے جنگ ِ اُحد کے بعد پیش آیااور واقعہ ٔ بدر اُحد سے ایک سال پہلے ہوا ۔ اس وجہ سے ان دونوں واقعات کے درمیان کوئی خاص فاصلہ نہیں تھا ۔ بہت سے مفسّرین اسے یہود بنی قینقاع کے واقعہ کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں جوبدرکے واقعہ کے بعد ہوااور یہود کے اس گروہ کے مدینہ سے نکالے جانے پر ختم ہوا ۔ یہ تفسیر زیادہ مناسب معلوم ہوتی ہے اس لیے کہ یہ یہود بنی نظیر کے ساتھ زیادہ مماثلت رکھتی ہے ۔ یہود بنی قینقاع بھی یہود ِ بنی نظیر کی مانند دولت مند ،جنگ جُو اورمغرور افراد تھے اورپیغمبر ِاسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)اورمسلمانوں کواپنی قوّت وطاقت کی بناپر دھکمیاں دیتے تھے نکات کے زیرعنوان ہم انشا ء اللہ اس کی تشریح پیش کریں گے ۔ انہیں آخر کارسوائے بدبختی ،دربدری اورآخرت کے عذابِ الیم کے اور کچھ نہ ملا ۔ وہاں کے معنی تلخ اورمنحوس انجام کے ہیں اوراصل میں وابل شدید بارش کے معنی میں ہے ۔ اس لیے کہ شدید بارشیں عام طورپر خطرناک ہوتی ہیں اورانسان ان کے تلخ نتائج سے خوف زدہ ہوتاہے ۔عام طورپر اس کے پیچھے خطرناک سیلاب ہوتے ہیں ۔
اس کے بعد منافقین کے متعلق ایک تشبیہ پیش کرتے ہوئے خداوند ِ عالم فرماتاہے :
ان کی داستان شیطان کی داستان جیسی ہے جس نے انسان سے کہاکافر ہوجاتاکہ میں تیری مشکلات کوحل کروں لیکن جب وہ کافر ہوگیاتواس نے کہامیں تجھ سے بیزار ہوں ،میں اس خدا سے جو عالمین کاپروردگار ہے ڈر تاہوں(کَمَثَلِ الشَّیْطانِ ِذْ قالَ لِلِْنْسانِ اکْفُرْ فَلَمَّا کَفَرَ قالَ ِنِّی بَریء مِنْکَ ِنِّی أَخافُ اللَّہَ رَبَّ الْعالَمین)(٢) ۔
یہ بات کہ اس آ یت میں انسان سے کون مُراد ہے ،کیامطلق طورپر انسان ہیں جو شیطان کے زیر اثر آجاتے ہیں ، اس کے جُھوٹے دعوؤں سے دھوکہ کھاتے ہیںاورراہِ کُفر اختیار کرتے ہیں اور شیطان آخر کار انہیں تنہا چھوڑ کران سے بیزار ی اختیار کرتاہے ، یاپھر اس سے مُراد کوئی خاص انسان ہے مثلاً ابوجہل اوراس کے پیرو کار جوجنگ ِ بد ر میں شیطان کے فریب دینے والے وعدوں سے سرگرمِ پیکار ہوئے اور آخر کار انہوں نے شکست کاتلخ مزہ چکھا ،جیساکہ سُورہ انفال کی آیت ٤٨ میں ہم پڑھتے ہیں :(وَ ِاذْ زَیَّنَ لَہُمُ الشَّیْطانُ أَعْمالَہُمْ وَ قالَ لا غالِبَ لَکُمُ الْیَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَ ِنِّی جار لَکُمْ فَلَمَّا تَراء َتِ الْفِئَتانِ نَکَصَ عَلی عَقِبَیْہِ وَ قالَ ِانِّی بَریء مِنْکُمْ ِنِّی أَری ما لا تَرَوْنَ ِانِّی أَخافُ اللَّہَ وَ اللَّہُ شَدیدُ الْعِقاب)اور یاد کرو اس وقت کوجب شیطان نے مشرکین کے اعمال کوان کی نگاہ میں دقیع بنایا اورکہاکہ آج تم پرکوئی شخص غالب نہیں آ ئے گااور میں تمہاراہمسایہ اور پناہ دینے ولاہوں لیکن جس وقت مجاہدین اسلام اوران کے حامی فرشتوں کودیکھا توپیچھے ہٹ گیا اورکہامیں تم سے بیزار ہوں میں ایسی چیزدیکھ رہاہوں جسے میں دیکھ رہے ہیں خداسے ڈرتا ہوں اور خداشدید العقاب ہے ۔
یاپھر یہ کہ انسان سے مراد برصیصا بنی اسرائیل کاعابد ہے جس نے شیطانسے دھوکہ کھایااورکافر ہوگیا اورپھرحساس لمحات میںشیطان نے اس سے بیزاری اختیار کی اوعراس سے الگ ہوگیا ۔ اس کی تفصیل اِنشاء اللہ آگے آئے گی ۔ پہلی تفسیر آ یت کے مفہوم کے ساتھوہ مناسبت رکھتی ہے اور دوسری اور تیسری تفسیر ، ہوسکتاہے ،اس کے وسیع مفہوم کے ایک مصداق کابیان ہو ۔ بہر حال وہ عذاب جس سے شیطان اظہار وحشت کرے گابظاہر عذاب دنیاہے ۔ اس بناپر اس کاخوف واقعی اورپُختہ ہے ۔کسی قسم کی شوخی اورمزاح نہیں ہے ۔ بہت سے ایسے لوگ ہیں جوقریب کی سزاسے ڈرتے ہیں لیکن کافی مدّت ب عد کی سزا سے خائف نہیں ہوتے ،جی ہاں !منافقین کی یہی حالت ہے کہ وہ اپنے دوستوں کوجھُوٹ وعدوں کاسہارادے کراور مکرو فریب سے کام لے کرمیدانِ جنگ میںبھیج دیتے ہیں ۔ پھر انہیں تنہا چھوڑ کربھاگ کھڑے ہوتے ہیں ،اس لیے کہ نفاق میں وفاداری نہیں ہوتی ، بعد والی آ یت میں ان دونوں گروہوں میں یعنی شیطان اوراس کے پیرو کار اور منافقین ان کے کافردوست کے انجام کوواضح کرتے ہوئے فرماتاہے:
ان کاانجام یہ ہوا کہ وہ دونون جہنم کی آگ میں ہیں اور اس میں ہمیشہ رہیں گے ، یہ ہے ظالموں کی سزا(َفکانَ عاقِبَتَہُما أَنَّہُما فِی النَّارِ خالِدَیْنِ فیہا وَ ذلِکَ جَزاء ُ الظَّالِمینَ )(٣) ۔
یہ ایک بنیادی حقیقت ہے کہ کفرو نفاق اختیارکرنے اور شیطان اوراس کے ساتھیوں کے شریک کار بننے کا انجام شکست وناکامی سے دوچار ہونا ہے ۔عذابِ دُنیا وآخرت اس پرمستزاد ہے ، جب کہ مومنین اوران کے دوستوں کامستقل طورپر شریک کار بننا کامیابی سے کنار کرتاہے اور دونوں جہان میں رحمت ِ خداجیسی عظیم نعمت سے انسان کوسرفراز کرتاہے ۔ اس کے بعد کی آ یت میں خداوند ِ عالم مومنین کوخطاب کرکے بنی نظیر، منافقین اور شیطان کے منحوس اور دردناک واقعہ سے ایک نتیجہ اخذ کرتے ہوئے فرماتاہے:
اے ایمان لانے والوں خدا کی مخالفت سے ڈر واورہرانسان کودیکھنا چاہیئے کہ اس نے قیامت کے دن کے لیے کیا چیزآگے بھیجی ہے (یا أَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّہَ وَ لْتَنْظُرْ نَفْس ما قَدَّمَتْ لِغَد)(٤) ۔
اس کے بعد دوبارہ تاکید کے لیے فرماتاہے:
خداسے ڈرواس لیے کہ خدااس کام سے جسے تم انجام دیتے ہو آگاہ ہے (وَ اتَّقُوا اللَّہَ ِنَّ اللَّہَ خَبیر بِما تَعْمَلُون) ۔
تقویٰ اور خوف خدا سبب بنتے ہیں کہ انسان روزِ قیامت کے لیے اپنے اعمال کوپاک وپاکیزہ کرے ،تقویٰ کے حکم کی تکرار ،جیساکہ ہم نے کہاہے ۔ تاکید کے لیے ہے کیونکہ تمام نیک اعمال بجالانے اور گناہوں سے پرہیز کرنے کاسبب یہی تقویٰ اورخدا کاخوف ہے ۔ بعض مفسرین نے یہ احتمال پیش کیاہے کہ تقویٰ کاپہلاحکم تواچھے اعمال انجام دینے کامحرک ہے اور دوسراحکم ان اعمال میں خلوص کی کیفیّت پیداکرنے کے بارے میں ہے ۔یایہ کہ پہلے حکم کی نظر اچھے کام انجام دینے کی طرف ہے (ماقد مت لغدکے جملے کے قرینے سے )اوردوسراگناہوں اورمعاصی سے پرہیز کی طرف اشارہ ہے ۔یایہ کہ پہلاحکم گناہوں سے توبہ کرنے کی طرف اشارہ ہے اور دوسرا آئندہ کے تقویٰ کے لیے ہے ۔لیکن آیات میں ان تفاسیر کے لیے کوئی قرینہ کلام موجود نہیں ہے ۔لہٰذا تاکید والی تفسیر زیادہ مناسب ہے غد (کل)کی تعبیر قیامت کی طرف اشارہ کرتی ہے کیونکہ عمرِ دنیا کی سُرعت ِ رفتار کی طرف توجہ کرنے سے یہ چیزمحسوس ہوجاتی ہے کہ قیامت بہت جلد آجائے گی اور نکرہ کی صُورت میں اس کاذکر اس کی اہمیّت کی بناپر ہے ۔ نفس (ایک شخص ) کی تعبیر ،ہوسکتاہے کہ ایک فرد کے معنی میں ہویعنی انسان اپنے کل کی فکر کرے اور بغیر اس کے کہ دوسروں سے توقع رکھے کہ وہ اس کے لیے کوئی کام انجام دیں گے وہ جب تک اس دنیامیںہے جوکچھ بھیج سکتاہے ،آگے بھیجے ، یہ تفسیر بھی اُوپر والی تعبیر کے بارے میں کی گئی ہے اوریہ ان افراد کی قلّت کی طرف اشارہ ہے جوقیامت کی فکرکرتے ہیں، بالکل اس طرح جیسے ہم کہیں گے کہ بس، ایک ہی شخص مِل جائے جواپنی نجات کی فکر میں ہو ۔لیکن پہلی تفسیر زیادہ مناسب نظرآتی ہے اور یا ایھاالذین اٰمنواکاخطاب اورتقویٰ کے امر کی عمومیت کی دلیل ہے ۔ اس کے بعد کے آ یت تقویٰ اور معاد کی طرف توجہ کے امر کے بعد یادِخدا کی تاکید کرتے ہوئے کہتی ہے ۔
ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنہوںنے خداکو بُھلادیاہے اور خدانے بھی انہیں خود فراموشی کاشکار بنادیاہے(وَ لا تَکُونُوا کَالَّذینَ نَسُوا اللَّہَ فَأَنْساہُمْ أَنْفُسَہُم) اصولی طورپر تقویٰ کی اصل حقیقت اوربنیاد دوچیزیں ہیں :
ایک توخدا کی یاد یعنی خداکی دائمی مراقبت اوراس کے ہرجگہ اورہر حال میں حاضر و ناظر ہونے کایقین اور یہ احساس کہ خدا عادل ہے ۔
دوسرے اعمال کی طرف توجہ کہ کوئی چھوٹا بڑا کام ایسانہیں ہے جونامۂ اعمال میں مندرجہ نہ ہو ۔ اس بناپر یہی دوباتیں ،مبدائ،اورمعاد کی طرف توجّہ ابنیا ء واولیاء کے تر بیّتی لائحہ عمل کا عنوان قرار پاتی ہیں اوران کی تاثیر فرد اور معاشرہ دونوں کی اصلاح اورتزکیہ کی مکمل طورپر نگراں ہے ۔قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ قرآن یہاں صراحت کے ساتھ کہتاہے کہ خداکوبُھلا دیناخود فراموشی کاسبب ہوتاہے ۔ اس کی وجہ بھی واضح ہے کیونکہ ایک طرف توپروردگار کوبُھول جانا اس بات کاسبب بنتاہے کہ انسان مادّی لذّتوں اور حیوانی خواہشات میں ڈوب جائے اور اپنے مقصدِ خلقت کوبھلا دے اور اس کے نتیجے میں روزِ قیامت کے لیے نیک اعمال کاذخیرہ کرناہے ،اس سے غافل ہوجائے ۔ دوسری جانب خداکوفراموش کرنااس کی صفات ِ پاک کو فراموش کرنے کے مترادف ہے ،اس لیے کہ ہستی مطلق ،علم ِ بے پایاں اورغیرمتناہی استغناء وتونگری کے ساتھ مخصوص ہے ۔ اس کے علاوہ جوکچھ بھی اس کی ذا ت ِ پاک کامحتاج ہے ۔ ان حقائق کوبُھلا دینااس بات کاسبب بنتاہے کہ انسان خُود کومستقل غنی اور بے نیاز کہنے لگے اوراس طرح اپنی حقیقت اورانسان واقعیت کوفراموش کردے (٥) ۔
اصولی طورپر انسان کی سب سے بڑی بدبختی اورمصیبت خود فراموشی ہے ، اس لیے کہ وہ اپنی اس ذاتی قدروقیمت ،استعداد اورلیاقت کو جسے خدانے اس کے وجود مین پوشیدہ رکھاہے اوراسے باقی مخلوق سے ممتاز قرار دیاہے ، فراموشی کے سپرد کردیتاہے اور یہ اقدام اپنی انسانیت کوفراموش کردینے کے مترادف ہے ۔ اس قسم کاانسان ایک درندہ کی سطح تک گرجاتاہے اوراس کامقصد سوائے کھانے پینے ،سونے جاگنے اور شہوت رانی کے اور کچھ نہیں رہتا، یہ باتیں فسق وفجور کابنیادی سبب ہیں بلکہ یہ فراموشی فسق کااور اطاعت ِ خدا کے حقلہ سے نکل جانے کا بنیادی سبب ہے ،اسی بناپر آ یت کے آخر میں فرماتاہے:
اس قسم کے فراموش کرنے والے انسان فاسق ہیں (ْ أُولئِکَ ہُمُ الْفاسِقُونَ) یہ نکتہ بھی قابل ِ توجہ ہے کہ یہ نہیں فرماتاکہ خدا کو بُھولو بلکہ فرماتاہے کہ ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جوخداکوبُھول گئے ہیں اور خدانے انہیں خُود فراموشی کاشکار بنادیاہے یہ موقعہ حقیقت میں ایک واضح مصداقِ کی نشان دہی کرتاہے جس میں لوگ خداکوفراموش کرنے کاانجام دیکھ سکتے ہیں ۔یہ آ یت بظاہر منافقین کے متعلق ہے جن کی طرف گزشتہ آ یات میں اشارہ ہواتھایایہود بنی نظیر کے متعلق ہے یادونوں کے متعلق ہے ۔ اس مضمون کی ایک آ یت سورہ توبہ کی آ یت ٦٧ میں خصوصیت کے ساتھ منافقین کے بارے میں آچکی ہے جہاں پروردگار ِ عالم فرماتاہے:
(الْمُنافِقُونَ وَ الْمُنافِقاتُ بَعْضُہُمْ مِنْ بَعْضٍ یَأْمُرُونَ بِالْمُنْکَرِ وَ یَنْہَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوفِ وَ یَقْبِضُونَ أَیْدِیَہُمْ نَسُوا اللَّہَ فَنَسِیَہُمْ ِنَّ الْمُنافِقینَ ہُمُ الْفاسِقُونَ) منافق مرد اورعورتیں سب ایک ہی گروہ سے سے ہیں وہ بُری چیز کاحکم دیتے ہیں اوراچھی چیز سے روکتے ہیں اوراپنے ہاتھ انفاق وبخشش سے روکے رکھتے ہیں وہ خدا کوبُھول چکے ہیں ۔خدا نے بھی انہیں فراموش کردیاہے ۔ منافقین یقیناًفاسق ہیں اس فرق کے ساتھ کہ وہاں خداکوفراموش کرنااس کی رحمت کے منقطع ہونے کاسبب بیان ہواہے اوریہاں خود فراموشی کاسبب ہے جودونوں ایک ہی نقطے پرمنتہی ہوتے ہیں (غور کیجئے گا) ۔
آخری زیربحث میں ان دونوں گروہوں(مومنین ،صاحب ِتقویٰ اور مبداء کی طرف متوجہ افراد اور خدا کوفراموش کرنے والے افراد جو خود فراموشی کاشکارہوئے ہیں ) ۔کے موازنہ کوپیش کرتے ہوئے فرماتاہے ۔
اصحاب دوزخ اوراصحابِ بہشت یکساں نہیں ہیں (لا یَسْتَوی أَصْحابُ النَّارِ وَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ) ۔ اس دنیامیں اوراس کے معارف میں طرزِ فکر میں ،انفرادی واجتماعی طرز زندگی میں، اس کے مقاصد میں، آخرت اوراس کے عذاب وثواب میں ان دونوںگروہوں کاخط ِ عمل ایک دوسرے سے بالکل جُدا ہے ۔ ایک یاد ِخدا ،قیامت ،بلند انسانی اقدار کے تصوّرات میں محواور زند ِگانی جاودانی کے لیے ذخائر حسنات جمع کرنے میں مصروف ہے اوردوسرا مادّی خواہشات میں غرق اور ہرنیکی کی فراموشی میں گرفتار اور ہر ہوا وہوس کاقیدی ہے (٦) ۔:
صرف اصحاب جنت ہی کامیاب ہیں(أَصْحابُ الْجَنَّةِ ہُمُ الْفائِزُونَ) ۔ نہ صرف قیامت میں رست گار وکامیاب ہیں بلکہ دنیا میں بھی کامیابی ،آرام وسکون اورنجات انہی کے لیے ہے اور شکست دونوں جہان میں ان کا مقدّر ہے جوخدا کوفراموش کرنے والے ہیں ۔
ایک اورحدیث رسول ِخدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہمیں ملتی ہے جس میں آپ نے اصحابِ جنت ایسے لوگوں کوقرار دیاجنہوںنے آپ (صلی للہ علیہ وآلہ وسلم)کی اطاعت کی اور اور ولایت جنابِ امیر علیہ السلام کوقبول کیا،لہٰذا اصحاب النّار وہ ہوئے جنہوںنے ولایت علی علیہ السلام کوقبول نہیں کیا آپ علیہ السلام سے جنگ کی اورنقصِ عہد کیا، یہ آ یت کے مفہوم کاایک واضح مصداق ہے اوراس کی عمومیت میں اس سے کوئی کمی نہیں آتی ۔
١۔یہ جملہ مبتداء محذوف کی خبرہے اورتقدیر عبارت اس طرح ہے :مثلھم کَمَثَلِ الَّذینَ مِنْ قَبْلِہِم۔
٢۔ اگرچہ کمثل کی تعیبراس آ یت میں اوراس سے قبل والی آ یت میں ایک دوسرے سے مشابہ ہے اسی بناپر بعض مفسرین دونوں کوایک ہی گروہ پرناظر سمجھتے ہیں لیکن قرائن اچھی طرح گواہی دیتے ہیں کہ پہلی آ یت بنو نظیر کی کیفیّت کی طرف ناظر ہے اوردوسری منافقین کی کیفیّت کی طرف ۔بہرحال یہ عبارت بھی مبتدائے محذوف کی خبرہے اورتقدیر عبارت اس طرح ہے : مثلھم کمثل الشیطٰن...۔
 ٣۔عاقبتھما کان کی خبرہے اومنصوبہے اورانھما فی النّار اسم کان کی جگہ ہے اور "" خالدین "" ھما کاحال ہے ۔
 ٤۔یہ کہ "" ما"" "" ماقدمت لغد"" میں موصولہ ہے یااستفہامیہ مفسّرین نے دواحتمال تجویز کیے ہیں اوریہ آ یہ شریفہ میں دونوں کی گنجائش ہے اس وجہ سے استفہامیہ زیادہ مناسب نظرآتاہے ۔
٥۔ المیزان ،جلد ١٩ ،صفحہ ٢٥٣۔
٦۔حذف متعلق "" لایستوی"" عمومیت کی دلیل ہے ۔ اس طرح انسان دوراہے پر نظر آتاہے ، یاپہلے گروہ سے ملحق ہوجائے یادوسرے سے وابستہ ہوجائے ،درمیان میں تیسرا کوئی راستہ نہیں ہے ۔ ایت کے آخر میں ایک حکم قاطع کی شکل میں فرماتاہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma