حزب اللہ کامیاب ہے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 23
گزشتہ آ یات میں گفتگو منافقین اوردشمنان ِ خدا کے بارے میں اوران کی کچھ صفات اورعلامتوں سے متعلق تھی ۔ اس بحث کو جاری رکھتے ہوئے اِن آیتوں میں جوسورئہ مجادلہ کی آخری آیات ہیں ان کی کچھ اورنشانیاں پیش کرتاہے اوران کی حتمی سرنوشت جوشکست وبربادی ہے اسے واضح کرتاہے پہلے فر ماتاہے:
وہ لوگ جوخدااوراس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے دُشمنی کرتے ہیں وہ ذلیل ترین افراد کے زمرہ میںہیںانَّ الَّذینَ یُحَادُّونَ اللَّہَ وَ رَسُولَہُ أُولئِکَ فِی الْأَذَلِّین) (١) ۔

بعد والی آ یت حقیقت میں ان معانی کی دلیل ہے فرماتاہے:
خدا نے اس طرح مقرر کیاتھاکہ میں اورمیرے پیغمبر ہی کامیاب ہوں گے (کَتَبَ اللَّہُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَ رُسُلی) ایسا کیوں نہ ہوں اس لیے کہ خداقوی اورناقابلِ شکست ہے ( ِنَّ اللَّہَ قَوِیّ عَزیز)جس قدر خداصاحب ِقوّت ہے اتنے ہی اس کے دشمن کمزور اور ذلیل ہیں اوراگر ہم دیکھتے ہیں کہ گزشتہ آ یت میں (اذلین)کی تعبیر آ ئی ہے تواس کی وجہ سے یہی تھی کتب (لکھتاہے)کی تعبیر اس کامیابی کے قطعی ہونے کی تاکید ہے اورلاغلبن کاجملہ لام تاکید اورنون ثقیلہ کے ساتھ اس کامیابی کے موکد ہونے کی دلیل ہے اس طرح کہ کسی شخص کے لیے کسی قسم کے شک اورتردّدکی گنجائش نہیں ہے ۔ یہ اس چیزکے مشابہہ ہے جوسورئہ صافات کی آ یت ٧١ ١ تا ٣٧١میں آئی ہے (وَ لَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنا لِعِبادِنَا الْمُرْسَلینَ،ِنَّہُمْ لَہُمُ الْمَنْصُورُون ،وَ ِنَّ جُنْدَنا لَہُمُ الْغالِبُون) ۔
ہمارا قطعی وعدہ ہمارے مُرسل بندوں کے بارے میں پہلے سے مُسلّم ہوچکاہے کہ ان کی مدد کی جائے گی اورہمارا لشکرتمام میدانوںمیں کامیاب ہے ۔
تاریخ کے طویل دُور میں خدا کے پیغمبروں اوراس کے بھیجے ہوئے افراد کی کامیابی مختلف صُورتوں میں نمایاں ہوئی ہے مختلف عذابوں کی صُورت میں مثلاً طوفانِ نوح علیہ السلام میں ،صاعقۂ عاد وثمود میں، قومِ لوط علیہ السلام کوتباہ وبرباد کرنے والے زلزلے کی صُورت میں اوراسی قسم کی چیزوں میں مختلف جنگوں میںمثلاًجنگ بدر وحنین ، فتح مکّہ اور پیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے باقی غزوات میں ۔ ان سب سے زیادہ اہم شیطانی مکاتبِ فکر اورحق وعدالت کے دُشمنوں پران کی منطقی کامیابی تھی ۔یہاں ان لوگوں کے سوال کاجواب واضح ہوجاتاہے جویہ کہتے ہیں کہ اگریہ وعدہ قطعی تھاتو پھر کیوں بہت سے انبیا ومرسلین ،آئمہ معصومین علیہم السلام اور سچّے مومنین کوان کے دشمنوں نے شہید کیااوروہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوئے ان اعتراض کرنے والوں نے حقیقت میں کامیابی کے معنی کوصحیح طرح نہیںسمجھا ۔ مثلاًممکن ہے ( تصوّر کریں)کہ امام حسین علیہ السلام نے کربلا میں شکست کھائی اس لیے کہ آپ علیہ السلام خود اورآپ علیہ السلام کے یاور وانصار تمام کے تمام شہید ہوگئے حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ آپ علیہ السلام اپنے اصلی مقصد تک پہنچ گئے ،آپ کامقصد یہ تھا کہ بنی اُمیّہ رسواہوں اورمکتب آزادی کی بُنیادرکھی جائے اورساری دنیاکے لوگوں کودرسِ آزادی دیاجائے آپ علیہ السلام نے یہ مقصد یقیناحاصل کیااور آپ آج بھی سرور شہیدانِ عالم اورجہانِ انسانیت کے رہبرِ کامل کی حیثیت سے انسانوں کے ایک عظیم طبقہ کے دِلوں پرکامیابی کے ساتھ حکومت کررہے ہیں (٢)
اس چیز کی یاد آ وری بھی ضروری ہے کہ یہی حکم یعنی خدائی وعدہ کے مطابق کامیابی انبیاء واولیاء کے پیروکاروں کے بارے میںبھی ثابت ہے یعنی ان کی کامیابی کی بھی خُدا کی طرف سے ضمانت دی گئی ہے جیساکہ سورئہ مؤمن کی آیت ٥١ میں ہم پڑھتے ہیں (انا لننصررسلنا والّذین اٰمنو افی الحیٰوة الدنیا ویوم یقوم الاشھاد)ہم یقینا اپنے رسُولوں کی اورایمان لانے والوں کی زندگی دنیا میں اوراس دن جب گواہ قیام کریں گے (قیامت کے دن )مدد کریں گے یقیناخدا جس کی مدد کرے وہ کامیاب ہے ۔لیکن اس بات کو نہیں بھولنا چاہیئے کہ خداکا یہ حتمی وعدہ قید اور شرط کے بغیر نہیں ہے ۔ اس کی شرط ایمان اورآثار ایمان ہیں اس کی شرط یہ ہے کہ بند سُستی وکمزوری کواپنے اندر پیدا نہ ہونے دے اور مشکلات سے نہ گھبرائے اورغمگین نہ ہو جیساکہ آل ِ عمران کی آیت ١٢٩ میں فر ماتاہے :
(وَ لا تَہِنُوا وَ لا تَحْزَنُوا وَ أَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ ِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنینَ)اس کی دوسری شرط یہ ہے کہ تغیّرات کواپنی ذات سے شروع کرے کیونکہ خداکسی قوم وملّت کی نعمتوںکومتغیّر نہیں کرتا جب تک کہ وہ خود اپنے اندر تغیر پیدانہ کریں(ذلِکَ بِأَنَّ اللَّہَ لَمْ یَکُ مُغَیِّراً نِعْمَةً أَنْعَمَہا عَلی قَوْمٍ حَتَّی یُغَیِّرُوا ما بِأَنْفُسِہِمْ ) (انفال ٥٣)انہیں خدا کی رسّی کومضبُوطی سے پکڑے رہناچاہیئے ۔ انہیں چاہیئے کہ اپنی صفوںکومتحد رکھیں اوراپنی قوّتوں کو مجتمع کریں ، نیّتوںکوخالص رکھیں اورمطمئن رہیں کہ دشمن خواہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو اوروہ خُود بظاہر کمزور ہوں اور تعداد میں کم ہوں لیکن آخر کار جہاد ، کوشش اورخداپر توکّل کی وجہ سے وہ کامیاب ہوں گے ، مفسرین کی ایک جماعت نے مندرجہ بالاآ یت کے لیے ایک شانِ نزول بیان کی ہے اوروُہ یہ کہ مسلمانوںکے ایک گروہ نے جس وقت حجاز کی بعض آبادیوںکی فتح کودیکھاتوانہوں نے کہاکہ خداعنقریب ہمیں روم و ایران کی فتح بھی نصیب کرے گا اس پر منافقین نے کہاکہ تم سمجھتے ہو کہ ایران وروم بھی ان بستیوں کی مانند ہیں جنہیں تم نے فتح کرلیاہے ۔ اس پر مندرجہ بالا آ یت نازل ہوئی اوراس کا میابی کاان سے وعدہ کیاآخری زیربحث آ یت جوسُورہ مجادلہ کی آخری اور آیات ِ قرآنی میں سب سے زیادہ سرکوبی کرنے والی آ یت ہے مؤ منین کوباخبر کرتی ہے کہ خداکی محبت اور دشمنانِ خداکی محبت کوایک ہی دل میں جمع کرناممکن نہیں ہے لہٰذا وہ ان دونوں میں سے کسی ایک کومنتخب کریں ۔ اگر واقعی وہ مومن ہیں توانہیں دشمنانِ خدا کی دوستی سے پرہیز کرناچاہیئے ورنہ وہ مسلمان ہونے کادعویٰ نہ کریں ۔پر وردگار ِ عالم فرماتاہے:
کسی ایسے گروہ کوجوخدااور روزِ قیامت پرایمان رکھتا ہوتونہیں پائے گا کہ وہ خدااوراس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے دشمنوں سے دوستی کریںچاہے وہ ان کے آباؤ اجداد ، اولاد یارشتہ دار ہوں(لا تَجِدُ قَوْماً یُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَ الْیَوْمِ الْآخِرِ یُوادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّہَ وَ رَسُولَہُ وَ لَوْ کانُوا آباء َہُمْ أَوْ أَبْناء َہُمْ أَوْ ِخْوانَہُمْ أَوْ عَشیرَتَہُم) ۔جی ہاں!ایک دل میں دوومتضاد محبتیںجمع نہیں ہوسکتیں اورجو دومتضاد محبتوںکے حامل ہوں وہ یاتوضعیف الایمان ہوتے ہیں یاپھر منافق ہوتے ہیں اِسی لیے غزوات ِالہٰی میں ہم دیکھتے ہیں کہ مخالف صفوںمیںمسلمانوںکے عزیز واقارب کی ایک جماعت تھی لیکن چونکہ اُنہوں نے اپنا رشتہ خدا سے توڑ رکھا تھا اوروہ حق تعالیٰ کے دشمنوںکی صف سے وابستہ تھے ،لہٰذا مسلمانوں نے ان سے جنگ کی یہاں تک کہ ان میں سے بہت سوں کوموت کے گھاٹ اُتار دیا ۔ اباؤاجداد ، اولاد اوررشتہ داروں کی محبت بہت اچھی چیزہے اورانسان کے جذبہ کرم کے زندہ ہونے کی نشانی ہے لیکن جب اس محبت کامقابلہ خدا کی محبت سے ہو تو پھر یہ محبت اپنی قدروقیمت کھو بیٹھتی ہے ۔ البتہ انسان کے مرکزِمحبت صرف یہی چار گروہ نہیں ہوتے جن کاذکر مذکورہ آ یتمیں ہوا ۔یہ انسان کے نزدیک ترین افرادہیں اوران کی مثال کوپیش نظر رکھ کرباقی افراد کی کیفیت بھی واضح ہو جائے گی ۔ اسی لیے زیر بحث آ یت میں گفتگو بیوی ، شوہر ، مال ودولت ،تجارت اورگھروںکے متعلق، جو مرکزمحبت ہوسکتے ہیں، درمیان میں نہیں آ ئی ۔جبکہ کہ سور ہ توبہ کی آ یت ٢٤ میں یہ سب امور موردِتوجہ قرار پائے ہیں خدا فرماتاہے:
(قُلْانْ کانَ آباؤُکُمْ وَ أَبْناؤُکُمْ وَ ِخْوانُکُمْ وَ أَزْواجُکُمْ وَ عَشیرَتُکُمْ وَ أَمْوال اقْتَرَفْتُمُوہا وَ تِجارَة تَخْشَوْنَ کَسادَہا وَ مَساکِنُ تَرْضَوْنَہا أَحَبَّ ِلَیْکُمْ مِنَ اللَّہِ وَ رَسُولِہِ وَ جِہادٍ فی سَبیلِہِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّی یَأْتِیَ اللَّہُ بِأَمْرِہِ وَ اللَّہُ لا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفاسِقینَ ) کہہ دے اگرتمہارے باپ دادا، اولاد ،بھائی اورقبیلہ اوروہ مال جوتمہارے ہاتھ لگے ہیں ،اور وہ تجارت جس کے نقصان کاتمہیں خطرہ ہے اور وہ گھر جن سے تمہارادلی تعلق ہے خدااس کے پیغمبروں اوراس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں توپھر اس اس انتظار میںرہو کہ خدااپنا عذاب تم پرنازل کردے اورخدانافر مان لوگوں کوہدایت نہیں کرتا۔
دُوسرے امورکے زیربحث آ یت میں مذکور نہ ہونے کی دوسری دلیل ممکن ہے وہ شان ِہائے نزول ہوں جو آ یت کے لیے بیان ہوئی ہیں،منجملہ دوسری شان ہائے نزول کے ایک یہ ہے کہ حاطب ابن ابی بلتعہنے اہل مکّہ کوخط لکھا اور انہیں خبر دار کیاکہ ہوسکتاہے ،رسولخدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فتح مکہ کے لیے روانہ ہوں ، جب یہ بات کُھلی ،توحاطب نے عُذر پیش کیا کہ میرے عزیز واقارب مکّہ میں کفّار کے کے جنگل میں ہیںمیں نے چاہا کہ اہل مکّہ کی خدمت کروں تاکہ میرے عزیز وامان میں رہیں (٣)

بعض نے یہ بھی کہاہے کہ یہ آ یت عبداللہ ابن ابی کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس کابیٹا صاحب ِایمان تھا ، اس نے ایک دن دیکھا کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ آلہ وسلم)پانی نوش فرمارہے ہیں تواس نے عرض کیا کہ تھوڑا ساپانی اس برتن میں رہنے دیجئے تاکہ میں وہ اپنے باپ کوپلاؤں ۔شاید خدااس کے دل کو پاک کردے ۔مختصر یہ کہ وہ جس وقت پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے پئے ہوئے پانی میں سے بچاہواپانی اپنے باپ کے پاس لے کر پہنچا تواس نے وہ پانی ینے سے انکار کردیااور نہ صرف یہ بلکہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے متعلق ایک بہت ہی توہین آمیز جملہ کہا۔ اس کابیٹا پیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی خدمت میں آ یا اوعراس نے اپنے باپ کے قتل کرنے کی اجازت طلب کی پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے اجازت نہ دی اور فرمایا اس کالحاظ کرو لیکن دل میں اس کے اعمال سے بیزاررہو ۔
اس کے بعد پر وردگار ِ عالم اس گروہ کے عظیم اَجرکوپیش کرتاہے جس کے دل مکمل طورپر عشق ِ خدا کے قبضہ میں ہیں ،اورپانچ موضوعات کوبیان کرتاہے جن میں سے بعض امداد اور توفیق کی شکل میں ہیں ، اور بعض نتیجے اورانجام ِکار کی صُورت میں پہلے اوردُوسرے حصّہ کے سلسلہ میںفرماتاہے: وہ ایسے لوگ ہیں کہ خدا نے ایمان کاخط ان کے دلوں کے صفحے پرکھینچ دیاہے اور اپنی طرف سے ایک رُوخ کے ذریعے ان کو تقویت پہنچائی ہے (ْ أُولئِکَ کَتَبَ فی قُلُوبِہِمُ الْیمانَ وَ أَیَّدَہُمْ بِرُوحٍ مِنْہ) ۔واضح رہے کہ یہ امداد اور لُطفِ الہٰی انسان کے ارادہ واختیار کی آزادی کی رُوح سے متصادم نہیں ہوتے کیونکہ پہلے قدم،یعنی دُشمنان ِکی محبت کوترک کرنا،خُود انہی کی طرف سے اُٹھائے گئے ہیں ۔ اس کے بعد خدا کی طرف سے امداداستقرارِایمان کی شکل میں ان کی جانب آ ئی ہے ۔
کیایہ رُوحِ الہٰی جس سے خدا مومنین کی تائید کرتاہے ایمان کی بنیاد دوں کی تقویت ہے یاعقلی دلائل ہیں یاقرآن ہے یاوہ خدا کاعظیم فرشتہ ہے جس کانام رُوح ہے ؟اس سلسلے میں مختلف تفسیریں اوراحتمالات بیان ہوئے ہیں اوران سب کااجتماع بھی ممکن ہے ۔خلاصۂ کلام یہ کہ یہ رُوح ایک طرح کی جدید حیات معنوی ہے جس کافیضان خدامؤ منین پرکرتاہے ۔تیسرے مرحلہ میں فرماتاہے:
خدا انہیں جنّت کے باغات میں داخل کرے گا جن کے درختوںاورمحلّوںکے نیچے نہریں جاری ہیں اوروہ ہمیشہ اِن میں رہیں گے ۔
( ُ وَ یُدْخِلُہُمْ جَنَّاتٍ تَجْری مِنْ تَحْتِہَا الْأَنْہارُ خالِدینَ فیہا )چوتھے مرحلے میں اضافہ کر تاہے :
خدا اُن سے راضی اورخوش ہے اووہ خدا سے راضی وخوش ہیں(رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ وَ رَضُوا عَنْہ) ۔قیامت کے مادّی انعامات یعنی حُوروقصور کے مقابلے میںیہ عظیم ترین رُوحانی آجر ہے جومومنین کے اس گروہ کودیاجائے گا ۔ یہ گروہ احساس کرے گا کہ خداان سے راضی ہے ۔ ان کے معبُود کی یہ رضا مندی کہ اس نے انہیں قبول کرلیاہے اوراپنی عنایت سے انہیں نوازا ہے اوراپنی بساط قُرب پرانہیں بٹھایاہے بہترین لطف دینے والااحساس ہے جوانہیں حاصل ہوگا اور اس کا نتیجہ خداسے ان کی مکمل خوشنودی ہے ۔ جی ہاں!کوئی نعمت اس دوہری نعمت کے برابر نہیں ہے ۔ اور یہ دوسری نعمتوں کی کلید ہے اس لیے کہ جب خدا کسِی سے خوش ہوتو جووہ طلب کرے گا خدااسے دے گا ۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ وہ کریم بھی ہے اور قادر وتوانا بھی ہے ۔کیا یہی عُمدہ تعبیر ہے فرماتاہے:
خدا بھی ان سے راضی ہے اوروُہ بھی خدا سے راضی ہیں ۔یعنی ان کامقام اس قدر اُونچا ہوگیاہے کہ ان کا نام خداکے نام کے ساتھ اوران کی رضامندی خدا کی رضا کے پہلو بہ پہلو قرار پائی ہے ۔ اخری مرحلہ میں ایک ایسے عمومی اعلان کی شکل میں ،جوایک اورنعمت کی ترجمانی کرتاہے ، فرماتاہے:
وہ اللہ کی جماعت ہیں اورجان لوکہ اللہ کی جماعت ہی کامیاب ہے (ُ أُولئِکَ حِزْبُ اللَّہِ أَلا انَّ حِزْبَ اللَّہِ ہُمُ الْمُفْلِحُون)نہ صرف انہیں دوسرے جہان میںکامیاب اورقیامت میں انواع واقسام کی مادّی ومعنوی نعمتیں حاصل ہوں گی بلکہ جیساکہ گزشتہ آیات میں بھی آیاہے وہ اس دنیامیں بھی اللہ کی مہربانی سے دشمنوںکے مقابلہ میں کامیابی حاصل کریں گے اوراس دنیا کے اختتام پر بھی حق وعدالت کی حکومت ان کے قبضہ میں ہوگی ۔
١۔"" یحادون"" "" محادہ""کے مادّہ سے مسلّح یاغیر مسلّح مبارزہ کے معنی میں ہے یاممانعت کے معنی میں ہے (ہم اس سورہ کی آیت ٥ کے ذیل میں وضاحت کرچکے ہیں) ۔
٢۔ اس سلسلہ میںمزید وضاحت کے لیے اسی تفسیر کی جلد ١٠ سُورہ صافات کی آ یت ١٧١ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں ۔
٣۔ مجمع البیان ،جلد ٩ ،صفحہ ٢٥٥۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma