اِن آیات کی بحث اس طرح نجویٰ کے ان مباحث کاتسلسل ہے جوگزشتہ آیتوں میں تھے ۔ پہلے فرماتاہے ۔

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 23
کیا تُونے نہیں دیکھا ان لوگوں کوجنہیںسرگوشی سے منع کیاگیاتھا ۔ اس کے بعدوہ اس کام کی طرف پلٹے جس کی ممانعت کی گئی تھی اوروہ گناہ ،تعدی اور رسول ِ خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی نافرمانی کوانجام دینے کے لیے نجویٰ کرتے ہیں۔
(أَ لَمْ تَرَ ِالَی الَّذینَ نُہُوا عَنِ النَّجْوی ثُمَّ یَعُودُونَ لِما نُہُوا عَنْہُ وَ یَتَناجَوْنَ بِالِْثْمِ وَ الْعُدْوانِ وَ مَعْصِیَةِ الرَّسُولِ ) ۔ اس تعبیر سے اچھی طرح معلوم ہوتاہے کہ پہلے انہیں خبر دار کیاگیاتھا کہ وہ نجویٰ سے پرہیزکریں وہ ایساکام ہے جودوسروں میں بدگمانی اورپریشانی پیداکرتاہے لیکن انہوں نے،نہ صرف یہ کہ ، اس حکم پر کان نہیں دھرابلکہ اپنے نجویٰ کے لیے ایسے امورمنتخب کیے جن میں گناہ کی انجام دہی تھی اور جو خدا اوراس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے حکم کے خلاف تھے ۔
اثم ، میں اس لحاظ سے فرق ہے کہ اثم ان گناہوں کوکہتے ہیں جوانفرادی پہلورکھتے ہیںمثلاً(شراب پینا) اورعدوان ان امور کے لیے آتاہے جودوسروں کے حقوق کے سلسلہ میں تجاوز کاباعث ہوں، باقی رہی معصیت الرسول تووہ ان فرامین سے تعلق رکھتی ہے جنہیں خُود پیغمبر اسلام حکومت ِ اسلامی کے سربراہ کی حیثیت سے اسلامی معاشرہ کی مصلحتوں کے سلسلہ میں صادر فر ماتے تھے ،اس وجہ سے وہ اپنی سرگوشیوں میں ہرقسم کے غلط کاموں کوشامل کرتے تھے ،قطع نظراس سے کہ وہ عمل خُود انہی سے تعلق رکھتے تھے ،یادوسروں سے متعلق تھے ،یاحکومت ِ اسلامی اور ذات ِ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کاتعلق تھا۔ یعودن اور یتناجون کی تعبیر ،جو فعل مضارع کی صُورت میں آ ئی ہے ،بتاتی ہے کہ وہ یہ کام بار بار کرتے تھے اوران کامقصد مؤ منین کے دلوں میں پریشانی اور شک پیداکرنا تھا بہرحال مندرجہ بالا آیت ایک اخبارِ غیبی کے عنوان سے ان کے غلط اعمال کے چہرے سے پردہ اُٹھا تی ہے اوران کی راہ انحراف کاانکشاف کرتی ہے ،اِس گفتگو کوجاری رکھتے ہوئے منافقوں اوریہودیوں کے ایک اورغلط عمل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید ارشاد ہوتاہے ۔
اورجس وقت وہ تیرے پاس آ تے ہیں توایساسلام کرتے ہیں جیساخدا نے تجھے نہیں کیا ۔(وَ ِاذا جاؤُکَ حَیَّوْکَ بِما لَمْ یُحَیِّکَ بِہِ اللَّہُ) حیوک تحیت کے مادّہ سے اصل میں حیات سے لیاگیاہے اور سلامتی وزندگی تازہ کے لیے دُعا کرنے کے معنی میں ہے ۔ اس آیت میں تحیت ِ الہٰی سے مُراد وہی السلام علیک (یاسلام اللہ علیک) کا جملہ ہے جس سے ملتا جُلتا جملہ قرآنی آیتوں میں پیغمبروں اور بہشتیوں کے لیے بارہا آیاہے ،منجملہ دیگر آیتوں کے ہم سورئہ صافات کی آ یت ١٨١ میں دیکھتے ہیں وسلام علی المرسلین پروردگار کے تمام رسُولوں پر سلام باقی رہاوہ سلام جوخدا نے نہیں بتایا اورجوجائزنہیں تھا وہ السام علیکم کاجملہ تھا (تجھ پر موت یاملامت وخستگی ہو)یہ احتمال بھی ہے کہ زمانہ جاہلیت کے سلام کی طرف اشارہ ہوجیساکہ وہ کہتے تھے انعم صبلحاً (تیری صبح راحت سے ہم کنار ہو) (انعم مساء ً ) تیراوقت عصرراحت سے ہم کنار ہو بغیراس کے کہ خدا کی طرف توجہ کرے اوراس سے اپنے مقابل کے لیے سلامتی طلب کرے ۔
یہ صورت حال اگرچہ زمانہ ٔ جاہلیت میں تھی لیکن اس کاحرام ہوناثابت نہیں ہے لہٰذا مندرجہ بالاآ یت کی تفسیرمیں اسے پیش کرنا صحیح نہیں ہے ۔ اس کے بعد مزید کہتاہے : وہ نہ صرف یہ کہ بڑے بڑے گناہوں کے مرتکب ہوتے ہیں بلکہ اس طرح بادئہ غرور میں مَست ہیں کہ دل میں کہتے ہیں کہ اگرہمارے اعمال بُرے ہیں اورخداجانتاہے توہماری باتوں کی وجہ سے ہم پرعذاب نازل کیوں نہیں کرتا( وَ یَقُولُونَ فی أَنْفُسِہِمْ لَوْ لا یُعَذِّبُنَا اللَّہُ بِما نَقُول )اس طرح پیغمبر کی نبوّت پراپنے ایمان کے نہ ہونے کوثابت کرتے ہیںاورخدا کے علمی احاطہ پر بھی اپنے ایمان کے نہ ہونے کوپایۂ ثبوت تک پہنچاتے ہیں لیکن قرآن ایک مختصر سے جملہ میں انہیں اس طرح جواب دیتاہے جہنم ان کے لیے کافی ہے اور کسی اور عذاب کی ضرورت نہیں ہے ،وہی جہنم جس میں وہ عنقریب داخل ہوں گے اوروہ کیاہی بُری جگہ ہے (ُ حَسْبُہُمْ جَہَنَّمُ یَصْلَوْنَہا فَبِئْسَ الْمَصیرُ) ۔بہرکیف یہ تعبیراس بات کی نفی نہیں کرتی کہ وہ دُنیا وی عذاب سے بچ جائیں گے اور اس حقیقت کوآشکار کرتی ہے کہ اگر کوئی اورعذاب ،جہنم کے عذاب کے علاوہ ،نہ بھی ہوتو یہ جہنم کاعذاب ہی ان کے لیے کافی ہے اور یہ اپنے تمام اعمال کاعذاب اکٹھا جہنم میں دیکھیں گے اور چونکہ مؤ منین کبھی کبھی ضرورت اوراپنی دلی خواہش کے ماتحت سرگوشی کرتے تھے ،لہٰذا بعد والی آ یت میں رُوئے سُخن ان کی طرف کرتے ہوئے ،اس خیال کے پیش نظر کہ وہ اس کام میں منافقوں اوریہودیوں جیسے گناہوں میں آلودہ نہ ہوں ،فرماتاہے ۔
اے ایمان لانے والو!جس وقت تم نجویٰ کروتوگناہ ،تعدی اوررسول ِ خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافر مانی کے لیے نجویٰ نہ کرو تمہارے نجویٰ کامضمون پاکیزہ ہو اورخوف ِ خدالیے ہوئے ہو ۔نیک کاموں اورتقوےٰ کے لیے نجویٰ کرو (یا أَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا ِذا تَناجَیْتُمْ فَلا تَتَناجَوْا بِالِْثْمِ وَ الْعُدْوانِ وَ مَعْصِیَةِ الرَّسُولِ وَ تَناجَوْا بِالْبِرِّ وَ التَّقْوی) ۔اور خُدا کی معصیت سے پر ہیزکرو تم سب کی بازگشت خداہی کی طرف ہے ( وَ اتَّقُوا اللَّہَ الَّذی ِلَیْہِ تُحْشَرُون) ۔ اس تعبیر سے بخوبی معلوم ہوجاتاہے کہ نجویٰ اگرمؤ منین کے درمیان ہوتووُہ سُوئے ظن اوربدگمانی کے جذبات کو نہ اُبھارے ، پریشانی پیدانہ کرے اوراس کا نفسِ مضمون نیکیوںکی وصیّت پرمبنی ہو پھروہ جائز ہولیکن اگر نجویٰ یہودیوں اورمنافقوں کے درمیان واقع ہو ،جس کامقصد ہی پاکیزہ دل مؤ منین کوتکلیف پہنچاناہے ،تب یہ عمل قبیح اورحرام ہے چہ جائیکہ اس کانفسِ مضمون بھی شیطانی ہو،اس لیے بعدوالی آ یت میں جوزیربحث آیتوںمیں سے آخری آ یت ہے مزید فرماتاہے:نجویٰ صرف شیطان کی طرف سے ہے (انَّمَا النَّجْوی مِنَ الشَّیْطان) اس مقصد کے پیش نظر کہ مومنین پریشان وغمگین ہوں(ِ لِیَحْزُنَ الَّذینَ آمَنُوا )لیکن انہیں جان لیناچاہیئے کہ شیطان اذنِ پروردگار کے بغیر مومنین کوکوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا(وَ لَیْسَ بِضارِّہِمْ شَیْئاً ِلاَّ بِاذْنِ اللَّہ)عالم ہستی میں جو مؤ ثر بھی ہے اس کی تاثیر حکم ِ خداہی سے ہے یہاں تک کہ آگ کاجلانا اورتلوار کاکاٹنا بھی اسی کے حکم کے ماتحت ہے ۔ اگر جلیل حکم نہ دے تو خلیل کے حکم سے چھری نہیں کاٹتی ۔ اس لیے مومنین کوصرف خداپر توکّل کرناچاہیئے اوراس کے علاوہ کسی چیز سے نہیں ڈرنا چاہیئے اوراس کے غیر سے محبت نہ کی جائے ،(ِ وَ عَلَی اللَّہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُون)وہ توکّل کی رُوح اورخُدا پرایمان رکھنے کی وجہ سے اچھی طرح مشکلات پرقابو پاسکتے ہیں اورشیطان کے پیرو کاروں کے منصُوبے کونا کام بناسکتے ہیں اوران کی سازشوں کودرہم برہم کرسکتے ہیں ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma