شانِ نزول

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 23
اکثر مفسّرین نے اس سُورہ کی پہلی آیات کے لیے کئی شانِ نزول نقل کی ہیں جن میں سے ہرایک کانفس ِ مضمون اجمالی طورپر ایک ہی ہے اگرچہ جزئیات میں ایک دوسرے سے اختلاف ہے لیکن یہ اختلاف اس چیزپر جس کے ہم تفسیری بحث میں ضرور ت مند ہیں اثرانداز نہیں ہوگا ۔
واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ گروہ ِ انصار کی ایک عورت جس کانام خولہ تھا(دوسری روایات میں اس عورت کے اور بھی نام بیان ہوئے ہیں)وہ قبیلہ خزوج سے تعلق رکھتی تھی ،اس کے شوہر کانام اوس بن صامت تھاکسی بات پرخولہ کاشوہراس سے ناراض ہوگیاوہ ایک تند خواور شدید الحِس آدمی تھا۔ اس نے اپنی عورت سے علیحدگی کامصمّم ارادہ کر لیا اور کہا انت علی کظھر امّی (تومیریل یے میری ماں کی پُشت کی طرح ہے)زمانۂ جاہلیّت میں یہ طلاق کی ایک قسم تھی ،لیکن یہ طلاق اس طرح کی تھی کہ نہ تو اس میں روجوع ممکن تھانہ عورت مرد سے آزاد ہوتی تھی کہ اپنے لیے کوئی دوسرا شوہر منتخب کرے ،یہ بدترین حالت تھی جس سے کوئی شوہر دار عورت دوچار ایک دوسرے سے قطعاً رجوع نہیں کرسکتے تھے ۔وہ اپنی بیوی سے کہنے لگاکہ میراخیال ہے تومجھ پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوگئی ،عورت نے کہاایسا نہ کہہ تورسول ِ خدا (صلی اللہ علی وآلہ وسلم) کی خدمت میں جااوراس مشکل کاحل دریافت کر،مرد نے کہامجھے شرم آتی ہے ۔عورت نے کہامیں جاتی ہوں ۔ اس نے کہا: کوئی حرج نہیں تُوچلی جا۔ وہ عورت رسول ِ خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی اورکہااے خداکے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرے شوہر اوس بن صامتنے مجھ سے شادی کی تھی ۔ اس وقت میں صاحب ِ دولت و ثروت تھی اورخوبصُورت تھی میراخاندان بھی اچھاتھا ،وُہ میرامال اپنے مُصرف میں لے آیا ،اَب جب کہ میں جوان نہیں رہی میراخاندان بھی پراگندہ ہوگیاہے تواَب اُس نے ظہار کیاہے ۔لیکن وہ اپنے اس اقدام پرپشیمان ہے ۔توکیا ایسی صُورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے رجوع کرلیں ۔
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا:
تو اس پرحرام ہوگئی ہے۔
عرض کیایارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اُس صیغہ طلاق جاری نہیں کیا۔پھر وہ میری اولاد کاباپ بھی ہے ۔ اوران سب چیزوں کے علاوہ مجھے اس سے بہت زیادہ محبت ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
تُو اُس پرحرام ہوچکی ہے اوراس سِلسلہ میں میرے پاس سردست ِکوئی دُوسرا حکم نہیں ہے۔
وہ عورت مسلسل اصرار کرتی تھی اورگڑ گڑا کرعرض ِ حال کرتی تھی ۔ آخر کار اس عورت نے بارگاہ ِ خُدا وند ی میں عرض کیا:(اشکوالی اللہ فاقتی وحاجتی وشدة حالی اللھم فانزل علی لسان نبیّک ) پروردگار ! میں اپنی بے چارگی اوراحتیاج کی شِدّت تجھ سے عرض کرتی ہوں ۔خدا وند اکوئی فرمان اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمااوراس مشکل کوحل کردے ۔ ایک روایت میں ہے کہ اس عورت نے عرض کیا: اللھم انک تعلم حالی فارحمنی فان لی صبیة صغاران ضمتھم الیہ ضاعوا وان ضممتھم الی جاعوا خدا وندا! تُومیری حالت کوجانتاہے مجھ پر رحم کر میرے چھوٹے چھوٹے بچّے ہیںجنہیںمیں اگر اپنے شوہر کے حوالے کردوں تو وہ ضائع ہوجائیں گے اوراگراپنے پاس رکھوں توبُھوک کے مرجائیں گے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:اپنے شوہر کوبُلا کرلا۔
جب وہ آ یا توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مذ کورہ آیات کی اس کے سامنے تلاوت کی اورفرمایا:
کیا تُوایک غلام ظہار کے کفّارے کے طورپر آزاد کرسکتاہے ۔
اُس نے کہا: اگر ایسا کروں گاتو میرے پاس کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔
فرمایا: دو مہینے تک مسلسل روزے رکھ سکتاہے؟۔
اُس نے کہا : میرے کھانے میں تین مرتبہ تاخیر ہوجائے تومیری آنکھ بیکار ہوجائے ااورمجھے خوف ہے کہ میں نابینا ہوجاؤں ۔
فر مایا: توکیا ساٹھ مسکینوں کوکھانا کھلاسکتاہے۔
عرض کیا:نہیں مگر اس طرح کہ آپ میری مدد کریں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں تیری مدد کروں گااور پندرہ صاع( پندرہ من ایرانی جوساٹھ مسکینوں کی خوارک ہیں ہر شخص کے لیے ایک مُد یعنی من تقریباً چودہ چھٹانک)غذا اس کودی اس نے کفّار اداکیا۔ اس طرح وہ میاں بیوی اپنی سابقہ ازدواجی زندگی کی طرف پلٹ آئے(١) ۔
١۔ مجمع البیان جلد ٩ صفحہ ٢٦٤(تھوڑی سی تلخیص کے ساتھ )
جیساکہ ہم نے کہاہے اس شان ِ نزول کوبہت سے لوگوں نے تفسیر وتاریخ وحدیث کی کتابوں میں نقل کیاہے ۔ اس سلسلہ میں قرطبی ابو الفتوح رازی اورکنزالعرفان کے نام نمایاں ہیں ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma