۱ ۔ قرآن فکر و عمل کی کتاب ہے:

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 21

قرآن کی مختلف آیات اس حقیقت کو واشگاف الفاظ میں بیان کررہی ہیں کہ یہ عظیم آسمانی کتاب صرف تلاوت کرنے کے لےے نہیں ہے ،بلکہ اس کا منتہا ئے مقصُود ” ذکر “ ( یاد دہانی ) ” تدبر“ ( نتائج پر غور وخو خ ) ” انذار “ (لوگوں کوظلمات سے نکال کرنور تک پہنچاتا ) اور ” شفا، رحمت اور ہدایت “ ہے ۔
وَ ہذا ذِکْرٌ مُبارَکٌ اٴَنْزَلْنا ہ“
” یہ بابرکت یاد دہانی ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے “ ( انبیاء / ۵۰) ۔
” کِتابٌ اٴَنْزَلْنا ہ إِلَیْکَ مُبارَکٌ لِیَدَّبَّرُوا آیاتِہ“ ۔
” یہ بابرکت کتاب ہے جسے ہم نے تجھ پر نازل کیا ہے تا کہ تو اس کی آیات میں غور کرے “(ص / ۲۹) ۔
سورہ ٴ انعام کی ۱۹ ویں آیت میں ہے :
وَ اٴُوحِیَ إِلَیَّ ہذَا الْقُرْآنُ لِاٴُنْذِرَکُمْ بِہِ وَ مَنْ بَلَغَا“ ۔
” یہ قرآن مجھ پر وحی کیاگیا ہے ،تاکہ اس کے ذ ریعے سے تمہیں اوران لوگوں کوڈ راؤں جن تک یہ پیغام پہنچے “۔
سورہٴ ابرا ہیم کی پہلی آیت میں فرمایاگیا ہے :
کِتابٌ اٴَنْزَلْنا ہ إِلَیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَی النُّورِ“ ۔
یہ ایک کتاب ہے ، جسے ہم نے تجھ پرنازل کیا ہے تاکہ اس کے ذ ریعے تو لوگوں کو تاریکیوںسے نکل کرنور تک پہنچا ئے ۔
سُورہٴ نبی اسرائیل کی ۸۲ ویں آیت میں ہے :
وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ ما ہُوَ شِفاء ٌ وَ رَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنینَ “ ۔
” ہم قرآن کی ایسی آیتیں بھی نازل کرتے ہیں جوموٴ منین کے لیے شفا اوررحمت کاسبب ہیں“۔
اس طرح قرآن مجید کومسلمانوں کی زندگی کے لیے را ہنما کی حیثیت سے اختیار کیاجانا چا ہیئے اوراسے اپنے لیے اسوہ اور نمونہ قرار دینا چا ہیئے ، اس کے احکام پر پُور ے طورپر عمل کرناچا ہیئے اوراُس سے سرِمُو انحراف نہیں کرنا چا ہیئے اور زندگی کے تمام خطوط کواس سے ہم آہنگ کرناچا ہیئے ۔
لیکن افسوس سے کہنا پڑ تا ہے کہ مسلمانوں کاسلوک اس سے نہایت ہی نا روا ہے اوراسے صرف بے معنی ورد ووظیفہ تک محدُود کردیا گیا ہے ،صرف سرسری تلاوت پر اکتفاکیاجاتا ہے زیادہ سے زیادہ تجوید ،خوش الحافی اوراچھی آواز سے پڑھنے کو ا ہمیّت دیتے ہیں، مسلمانوں کی بہت بڑی بدبختی ہے کہ انہوں نے قرآن مجید کو اپنی زندگی کے پرو گراموں سے نکال کر بس اس کے الفاظ پرگز ارہ کررکھا ہے ۔
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ان زیرتفسیر آیات میں بڑی صراحت کے ساتھ فرمایاگیا ہے کہ دل کے مریض ان منافق لوگوں نے قرآن میں تدبّرنہیں کیا ، جس کانتیجہ یہ نکلا کہ انہیں یہ سیا ہ اور تاریک دن دیکھنے نصیب ہُوئے ۔
” تدبر “” دبر“( بروزن ” زبر“) کے مادہ سے ہے جس کامعنی ہے ،کسِی چیزکے نتائج اورانجام پر غو ر کرنا ، یہ ” تفکر “کے برعکس ہے ، جس کا زیادہ تر اطلاق کسِی چیز کے اسباب اور وجوہات پر غور کرنے پر ہوتا ہے ،قرآن مجید میں ان دونوں کلموں کا استعمال نہایت ہی معنی خیز ہے ۔
نیزاس بات کوفراموش نہیں کرناچا ہیئے کہ قرآن مجید سے استفادہ کے لیے ایک قسم کی خود سازی کی ضرورت ہوتی ہے ،قرآن مجید خو د بھی اس قسم کی خود سازی کے لیے معاون ثابت ہوتا ہے ،کیونکہ اگردلوں پرہوا د ہوس ،تکبراور غرور ،ہٹ دھرمی اورتعصب کے تالے لگے ہُوئے ہوں تو یہ رکاوٹیں نورِ حق کوان میں داخل ہونے سے روک دیتی ہیں اور زیر ِ تفسیر آیات میں بھی اس تفسیر کی طرف اشارہ کیاگیا ہے ، کیا ہی زیبا فرمان ہے امیرالمومنین علی علیہ السلام کاجوایک خطبے کے ضمن میں متقین کے بارے میں ہے :
اما اللیل فصا فون اقدامھم،تالین لاجزاء القراٰن،یرتلم نھاترتیلا،یحز نون بہ انفسھم ، ویستشیرون بہ دواء دائھم ، فاذ امرو ا باٰ یة فیھا تشویق رکنو ا الیھا طمعاً ، و تطلعت نفوسھما الیھا شوقاً ، وظنوا انھانصب اعینھموواذامرو باٰ یة فیھا تخویف اصغوا الیھا مسامع قلوبھم،و ظنوا ان زفیر جھنم وشھیقھا فی اصول اٰذ انھم “۔
وہ رات کے وقت قیام کرتے ہیں ،قرآن کی ٹھہرٹھہر کراورسوچ سمجھ کرتلاوت کرتے ہیں اپنے آپ کواس کے ذ ریعے پرسُوز کرتے ہیں ، اپنے درد کی دوا اسی میں تلاش کرتے ہیں ، جب کسی ایسی آیت پر پہنچتے ہیں جس میں شوق دلایاگیا ہے تووہ بڑے اشتیاق کے ساتھ اس کی طرف مائل ہوتے ہیں، د ل کی آنکھیں بڑے شوق کے ساتھ اورخُوب عذر سے اسے دیکھتی ہیں اورہمیشہ اسے اپنانصب العلین قرار دیتے ہیں اوراگر کسی آیت پر پہنچتے ہیں جس ڈرایاگیا ہے تو دل کے کان کھول کراسے سنتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ جلاڈ النے والی دوزخ کی آگ کی چیخ و پکار اوراس کے شعلوں کی لپٹیوں کی آواز ان کے دل کے کانوں میں گونج رہی ہے (۱) ۔
۔نہج البلاغہ خُطبہ ۱۹۳ ، معروف بہ خُطبہ ہمام ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma