شانِ نزول

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 23

بہت سے مفسرین نے مذکورہ بالا آ یت کے لیے ایک شان ِ نزول نقل کی ہے ،جس کاخلاصہ کچھ ا س طرح ہے کہ رسُول ِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)بے جعفر ابن ِ ابی طالب کوستر افراد کے ساتھ نجاشی (حبشہ ) کی طرف بھیجا،حضرت جعفر نجاشی کے پاس گئے اوراسے اِسلام کی دعوت دی، وہ دعوت قبول کرکے ایمان لے آیا۔حبشہ سے واپسی کے وقت اس ملک کے چالیس افراد نے جوایمان لاچکے تھے ۔حضرت جعفر سے کہا کہ ہمیں اجازت دیں کہ ہم پیغمبرکی خدمت میں حاضر ہوں اوراپنا اسلام اس کے سامنے پیش کریں۔پھروہ حضرت جعفر کے ساتھ مدینہ آ ئے ۔ جس وقت انہوں نے مسلمانوں کافقروفاقہ دیکھا تورسول ِ خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسل کیاکہ ہم اپنے دیار میں بہت زیادہ مال ومتال رکھتے ہیں، اگرآپ اجازت دیں توہم اپنے ملک کی طرف پلٹ جائیں اوراپنامال اپنے ساتھ لے آئیں اورمسلمانوں میں تقسیم کردیں۔ پیغمبرِ اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے اجازت دے دی وہ گئے اوراپنامال لے آ ئے اوراسے اپنے اوردوسرے مسلمانوں کیک درمیان تقسیم کردیاتواسب وقت یہ آ یت نازل ہوئی اوران کی توصیف کی ۔(الَّذینَ آتَیْناہُمُ الْکِتابَ مِنْ قَبْلِہِ ہُمْ بِہِ یُؤْمِنُونَ،وَ ِذا یُتْلی عَلَیْہِمْ قالُوا.......)(قصص ٥٢ تا٥٤) ۔
اہل کتاب میں سے وہ لوگ جو ایمان نہیں لائے تھے جب انہوں نے یہ جملہ جومذکورہ بالا آ یت کے ذیل میں آ یاہے سُنا، (اولٰئک یؤ تون اجرھم مرتین بماصبروا) وہ اپنااجر اپنے صبر واستقامت کی بناپر دومرتبہ حاصل کریں گے تووہ مسلمانوں کے سامنے کھڑے ہوگئے اورکہا:اے مسلمانو!جوشخص تمہاری طرف صِرف ایک اَجر ہے ۔ اِس بناپرتمہارے اپنے اقرار کے مطابق تم ہم پرکوئی مسلمانوں کوبھی دُگنااَجرملے گا ،علاوہ خدائی نور اورمغفرت کے اورپھر مزید کہا کہ اہل کتاب جان لیں کہ وہ خدا کے فضل ورحمت سے کوئی چیز اپنے ہاتھ میں لینے کی طاقت نہیں رکھتے (١) ۔
چونکہ گزشتہ آ یات میں گفتگو عیسائیوں اوراہل کتاب کے بارے میں تھی ، زیربحث آیات اسی کی تکمیل ہیں جو گزشتہ آیات میں آیاہے پہلے فرماتاہے:(یا أَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّہَ وَ آمِنُوا بِرَسُولِہِ) ۔ اے ایمان لانے والوخُدا کے بارے میں تقویٰ اختیار کرواور اس کے رسول پرایمان لے آؤ ۔اس آ یت کامخاطب کون ہے؟ اس کے بارے میں مفسّرین کے دوقول ہیں:
پہلا یہ کہ مخاطب مؤ منین ہیں البتہ ان سے کہاجائے گاکہ ظاہری ایمان کافی نہیں ہے بلکہ وہ ایمان درکار ہے جورُوح کی گہرائی تک ہو،جس کے نتیجے میں ہونے والے اعمال تقویٰ سے متصف ہوں تاکہ وہ اَجر جوآ یت میں بیان ہوئے ہیں وہ حاصل ہوسکیں۔
دُوسرا یہ کہ مخاطب اہل ِ کتاب میں سے مؤ منین ہیں یعنی اے وہ لوگ جوگزشتہ پیغمبروں اورکتابوں پرایمان لائے ہو، پیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)پر بھی ایمان لے آؤ تاکہ انواع واقسام کے اَجر حاصل کرسکو، جوچیزدوسری تفسیرکی شاہد بن سکتی ہے وہ کئی گنااجر ہے جس کاذکر آ یت کے ذیل میں آ یاہے ، ایک اجرگزشتہ انبیاء پر ایمان لانے کا اوردُوسرااجر پیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پرایمان لانے کا،لیکن یہ تفسیر ، علاوہ اس کے کہ ، بعدوالی آ یت کے ساتھ ،جیساکہ ہم وضاحت کریں گے ،سازگار نہیں ہے ،آ یت کی شان ِ نزول اور یا أَیُّہَا الَّذینَ آمَنُواکے اطلاق کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہے ، اس بناپر قبول کرلینا چاہیئے ،کہ مخاطب سب مؤ منین ہیں جنہوں نے بظاہر پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی طرف سے دی ہوئی دعوت اسلام کو قبول کرلیاہے لیکن وہ ایمان راسخ جوان کی رُوح کی گہرائیوں کوروشن کرے اوران کے اعمال سے ظاہر ہو ابھی ان میںپیدا نہیں ہواہے ۔
اس کے بعد آ یت کے آخرمیں تین ایسی نعمتوں کی طرف جومضبُوط ایمان اورتقویٰ کے سائے میں حاصل ہوتی ہیں اشارہ کرتے ہوئے فرماتاہے:اگرایسا کروتوخدا تمہیں اپنی رحمت میں سے دوحصّہ دے گا اورتمہیں روشنی بخشے گا ،جس کے سہارے زندگی کی راہ تلاش کرووہ تمہیں بخش دے گااور خدا غفور ورحیم ہے ( یُؤْتِکُمْ کِفْلَیْنِ مِنْ رَحْمَتِہِ وَ یَجْعَلْ لَکُمْ نُوراً تَمْشُونَ بِہِ وَ یَغْفِرْ لَکُمْ وَ اللَّہُ غَفُور رَحیم)کفل (بروز ن طفل ) اس حصّہ کے معنی میں ہے جواِنسان کی حاجت کوپُورا کردے اور ضامن کواسی وجہ سے کفیل کہتے ہیں کہ وہ مدِّ مقابل کی کفالت کرتے ہوئے اس کاحصّہ دیتاہے ( ٢) ۔
بہرحال ان دو حصّوں سے مرادوہی ہے جوسُورہ بقر کی آ یت ٢٠١ میں آ یاہے (رَبَّنا آتِنا فِی الدُّنْیا حَسَنَةً وَ فِی الْآخِرَةِ حَسَنَةً)خداوندا!دُنیامیں بھی ہم کو نیکی دے اور آخرت میں بھی نیکی عطافرما یہ احتمال بھی پیش کیاگیاہے کہ ان دونوں حصوں میں سے ایک حصّہ پیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)پرایمان لانے کی وجہ سے ہے اوردوسرا حِصّہ گزشتہ انبیاء اوران کی آسمانی کتابوں پرایمان لائے اور سب کومحترم شمار کرے ۔بعض مفسرین نے یہ کہاہے کہ اس سے مراد پے درپے اوردائمی اجر ہیں ، مذکورہ بالامعانی اوریہ معانی دونوں ابھی مراد ہوسکتے ہیں ۔ان کے دوسرے اَجر ( ویجعل لکم نوراً تمشون بہ )سے ، مؤ منین ظلمات ِ محشر کوچیر کرنکل جائیں گے اور سعادت ِ ابدی یعنی بہشت کی طرف بڑھیں گے جیساکہ اس سورہ کی آ یت ١٢ میں آ یاہے (یَوْمَ تَرَی الْمُؤْمِنینَ وَ الْمُؤْمِناتِ یَسْعی نُورُہُمْ بَیْنَ أَیْدیہِمْ وَ بِأَیْمانِہِم)جب کہ بعض دوسرے مفسرّین اسے نورقرآن کی طرف اشارہ سمجھتے ہیںجودنیا میں مومنین کے پاس آ یا ہے ۔جیساکہ سُورہ مائدہ کی آ یت ١٥ میں ہم پڑھتے ہیں :(قَدْ جاء َکُمْ مِنَ اللَّہِ نُور وَ کِتاب مُبین ) خدا کی طرف سے تمہارے پاس نور آ یاہے اورکتابِ مبین آئی ہے ۔ لیکن ظاہر ہے کہ آ یت کامفہوم مطلق اوروسیع ہے جودُنیاکے ساتھ اختصاص رکھتاہے ۔اورنہ آخرت کے ساتھ ۔دوسرے معنی میں ایمان اورتقویٰ سبب بنتے ہیں کہ مؤ منین کے دل پر سے حجاب ہٹ جائیں اوروہ حقائق کاچہرہ ویساہی دیکھیں جیساکہ وہ ہے اوراس کے سائے میں انہیں وہ مخصوص نگاہ نصیب ہوجن سے بے ایمان افراد محروم ہیں، اوریہ جو روایات ِ اہل بیت میں آ یا ہے کہ مذکورہ بالاآ یت میں نورسے مُراد و ہ امام ِ معصوم ہے جس کی لوگ اقتداء کرتے ہیں تویہ حقیقت میں ایک واضح مصداق کابیان ہے (٣) ۔
آخر میں مؤ منین کاتیسرا اجروہی گناہوں کابخشناہے کیونکہ اس کے بغیر انسان کے لیے کوئی نعمت خوشگوار ثابت نہیں ہوسکتی ۔پہلے اسے عذاب ِ الہٰی سے محفوظ ہوناچاہیئے اس کے بعد وہ ایمان اورتقویٰ کے نور سے اپنی راہ روشن کرے اور آخرمیںوہ خدا کی کئی گُنارحمتوںے فیض یاب ہو ۔ بعد والی آ یت جواس سورة کی آخری آ یت ہے اس میں اس دلیل کابیان ہے جوگزشتہ آ یات میں آ ئی ہے فرماتاہے:یہ کئی گناخدائی نعمتیں نورانیت اورمغفرت کے علاوہ اس وجہ سے ہیں تاکہ اہل کتاب جان لیں کہ وہ فضل ِ خدامیں سے کسِی چیزپر قدرت نہیں رکھتے اور یہ کہ فضل ورحمت سب اسی کے ہاتھ میں ہے اورجسے چاہتاہے بخشتاہے اورخدا عظیم فضل ورحمت کامالک ہے (لِئَلاَّ یَعْلَمَ أَہْلُ الْکِتابِ أَلاَّ یَقْدِرُونَ عَلی شَیْء ٍ مِنْ فَضْلِ اللَّہِ وَ أَنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللَّہِ یُؤْتیہِ مَنْ یَشاء ُ وَ اللَّہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظیمِ)(٤) ۔
یہ ان کاجواب ہے جویہ کہتے تھے کہ (مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق ) خداوند اہل کتاب کے اس گروہ کوجو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)پرایمان لایاہے دواَجر دے گا تواس وجہ سے ہم جوایمان نہیں لائے وہ مسلمانوں کی طرح ایک اجر تو رکھتے ہیں ۔قرآن انہیں جواب دیتاہے کہ مسلمان عام طورپر دواَجررکھتے ہیں کیونکہ وہ پیغمبراسلام اورتمام گزشتہ پیغمبروں پرایمان رکھتے ہیں ۔لیکن اہل کتاب کا وہ گروہ جوایمان نہیں لایا وہ کوئی حصّہ نہیں رکھتاتھا کہ انہیں پتہ چل جائے کہ رحمت ِ الہٰی ان کے اختیار میں نہیں ہے کہ جسے چاہے وہ دے سکیں اور جسے چاہے نہ دیں ۔ یہ آ یت ،ہوسکتاہے کہ ، یہودونصاریٰ کی بلند پرواز یوں اور بے بنیاد دعوؤں کابھی جواب ہوجوبہشت اوررحمت ِالہٰی کواپنے لیے مخصوص سمجھتے تھے اوردوسروں کواس سے محروم خیال کرتے تھے ۔(وَ قالُوا لَنْ یَدْخُلَ الْجَنَّةَ ِلاَّ مَنْ کانَ ہُوداً أَوْ نَصاری تِلْکَ أَمانِیُّہُمْ قُلْ ہاتُوا بُرْہانَکُمْ ِنْ کُنْتُمْ صادِقین) انہوں نے کہاکوئی شخص جنّت میں داخل نہیں ہوگا مگروہ جو یہودی یانصرانی ہو ۔ یہ ان کی آرزو ئیں ہیں، کہہ دے اگرسچ کہتے ہوتواپنی دلیل لاؤ ( بقرہ ۔١١١)
١۔ مجمع البیان ،جلد ٩،صفحہ ٢٤٤یہی معنی تفسیر ابوالفتوح رازی اوررُوح المعانی میں اختلافات کے ساتھ زیربحث آ یات کے ذیل میں نقل ہوئے ہیں۔
٢۔ بعض کانظریہ ہے کہ یہ لفظ کفل ( بروزن وکل) سے لیاگیاہے اوروہ اس چیز کوکہتے ہیں جوچو پاؤں کی کفل ( پیٹھ کاآخری حِصّہ ) پررکھئے ہیں تاکہ وہ شخص جو سواری پرسوا ر ہو وہ گرنے نہ پائے ، اس لیے ہروہ چیزجو نگہداری کاسبب ہواُسے کفل کہاجاتاہے اور اگر ضامن کوکفیل کہتے ہیں تووہ بھی اسی بناپر ہے (ابو الفتوح رازی در زیل آ یات زیربحث )لیکن راغب سے معلوم ہوتاہے کہ اس لفظ کے دومعنی ہیں اوردوسرے معنی بے قدروقیمت چیزہے ، چوپاؤں کی کفل کے مشابہ ( پیٹھ ) کیونکہ جوشخص وہاں سوار ہواُسے گرنے کاخوف نہیں ہوتا۔(غور کیجئے )
٣۔یہ روایات نورالثقلین ،جلد ٥،صفحہ ٢٥٢اور ٢٥٣پرنقل ہوئی ہیں۔
٤۔یہ کہ لا (لِئَلاَّ یَعْلَمَ أَہْلُ الْکِتابِ) میں زائدہ ہے یااصلی مفسّرین کے درمیان اخلاف ہے ۔بہت سے لاکو زائدہ اورتاکید کے لیے سمجھتے ہیں (جیساکہ ہم نے اُوپر کہاہے )اوراگر لاکواصلی سمجھا جائے توپھر آ یت کے معانی گوناں گوں بیان ہوئے ہیں ،ان میں سے ایک مراد یہ ہے کہ اہل ِ کتاب جان لیں کہ اگروہ بھی اسلام وایمان کوقبول کرلیں تواپنے لیے فضل ِ خدا کوفراہم کرسکتے ہیں ۔(دوسرے لفظوں میں یہاں نفی درنفی اثبات کے معنوں میں ہے ) یایہ کہ ہم نے یہ سب مواہب مسلمانوں کودیے ہیں تاکہ اہل کتاب یہ تصوّر نہ کریں کہ مسلمان فضل ِ خدا میں سے کوئی حصّہ نہیں رکھتے لیکن آ یت کے ذیل کی طرف توجہ کرتے ہوئے : (أَنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللَّہِ) اوراس شان نزول کودیکھتے ہوئے جسے ہم نے اُوپر نقل کیاہے لاکازائدہ ہونا زیادہ مناسب نظرآ تاہے بلکہ بعض کے نظر یئے کے مطابق توان تمام موارد میںجہاں جملہ منفی پرمشتمل ہو لازائدہ ہوگا مثلاً:""ما مَنَعَکَ أَلاَّ تَسْجُدَ ِذْ أَمَرْتُکَ "" (اعراف ١٢)(وَ ما یُشْعِرُکُمْ أَنَّہا ِذا جاء َتْ لا یُؤْمِنُونَ) (انعام ۔١٠٩)(غور کیجئے )
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma