٣۔رہبانیت سے پید ا ہونے والے اجتماعی اوراخلاقی مفاسد

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 23

قوانین ِ خلقت سے انحراف ہمیشہ اپنے پیچھے منفی ردِّ عمل رکھتاہے ۔اس وجہ سے کوئی تعجب کی بات نہیں کہ جس وقت انسان اجتماعی زندگی سے،جواس کی فطرت میں رچی بسی ہے ،دُور ہوجائے توشدید ردّ ِ عمل کاشکار ہوجاتاہے ،اس لیے رہبانیت جوانسان کے اصول ِ فطرت اور طبیعت ومزاج کے برخلاف ہے زیادہ مفاسد کاباعث بنتی ہے ۔
١۔ رہبانیت انسان کے مدنی الطبع ہونے کی رُوح کے خلاف جنگ کرتی ہے او رانسان معاشروں کوانحطاط اورپس ماندگی کی طرف لے جاتی ہے ۔
٢۔رہبانیت نہ صرف یہ کہ کمالِ نفس ، تہذیب ِ رُوح اورتہذیب ِ اخلاق کاسبب نہیں ہے بلکہ اخلاقی تنزّل سستی وکاہلی ، بد بینی، غرور وتکبّر وعجب اورنامعقول احساسِ برتری کاباعث بنتی ہے ۔فرض کیجئے کہ انسان حالت ِ گوشہ نشینی میں اخلاقی فضیلت تک پہنچ بھی جائے تویہ کیفیّت فضیلت شمارنہیں ہوگی ،فضیلت تویہ ہے کہ انسان اجتماعی اورمعاشرتی زندگی کے اندررہ کرخُود کو اخلاقی گرواٹوں سے بچاسکے ۔
٣۔ترک ازدواج جورہبانیت کے اصولوں میں سے ہے نہ صرف یہ کہ کسی کمال کوپیدانہیں کرتابلکہ کئی نفسیاتی اُلجھنوں اوربیماریوں کی تخلیق کاسبب بنتاہے ۔دائرة المعارف قرن بلیتم میں ہم پڑھتے ہیں کہ بعض راہب صنف ِ نازک کی طرف توجہ کواس قدرشیطانی عمل سمجھتے تھے کہ وہ اس بات پرتیار نہیں ہوتے تھے کہ کسی مادّہ جانور کواپنے گھر لے جائیں اس خوف سے کہ کہیں رُوح شیطانی اس کی رُو حانیت پرضرب نہ لگا دے ۔اس کے باوجود تاریخ گرجاؤں کے بارے میں اپنے اندر بہت زیادہ قباحتیں لیے ہوئے ہے یہاں تک کہ بقول ویل دورانت اینوسان کے تیسرے پوپ نے ایک گرجے کی فاحشہ خانے کے عنوان سے تعریف کی ہے ( ۱) ۔
ان میں سے بعض گِرجے شکم ِ پرستوں ،دُنیا طلبوں اوراچھا وقت گزارنے والوں کے اجتماع کامرکز بن چکے تھے ۔یہاں تک کہ بہترین شراب گرجوں ہی میں ملتی تھی ،البتہ تاریخ کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے شادی قطعاً نہیں کی لیکن یہ چیز ہرگز اس امر سے آپ کی مخالفت کی بناپر نہیں تھی بلکہ حضرت مسیح علیہ السلام کی مختصر سی عمر اور دُنیا کے مختلف علاقوں کی طرف ان کے مسلسل سفرنے ان کواس امر کی مہلت نہ دی ۔
رہبانیت کے بارے میںبحث کرناایک مُستقل کتاب چاہتاہے ۔اگرہم اس کی تفصیلات کی طرف جائیں توبحث ِ تفسیر ی سے خارجہوجائیں گے ۔اس بحث کوحضرت علی علیہ السلام کی ایک حدیث پرختم کرتے ہیں ،آپ علیہ السلام نے آ یہ ذیل کی تفسیر میں فرمایا:
قل ھل ننبئکم بالا خسرین اعمالاً الّذین ضل سعیھم فی الحیٰوة الدّنیا وھم یحسبون انھم یحسنون صنعاً ۔ کہہ دے کیامیں تمہیں خبردوں کہ لوگوں میں سب سے زیادہ خسارے میں کون ہیں؟ وُہ وُہ ہیں جن کی کوشش دُنیاوی زندگی میں گُم ہوگئی لیکن اس کے باوجود وہ گمان کرتے ہیں کہ اچھاکام انجام دے رہے ہیں( ۲) ۔
حضرت علی علیہ السلام نے اس کی تفسیر میں فرمایا:(ھم الرھبان الذین حبسو اانفسھم فی السواری ) اس کاایک واضح مصداق وہ راہب ہیں جنہوں نے اپنے آپ کوپہاڑوں اوربیابانوں کی اُونچی جگہوں میں قید کررکھاہے ،اوروہ گمان کرتے ہیں کہ اچھا کام انجام دے رہے ہیں (۳) ۔
۱۔ویل دورانت ،جلد ١٣ صفحہ ٢٤٣۔
۲۔سورہ کہف (آ یت ١٠٣ و ١٠٤) ۔
۳۔کنز العمال جلد ٢ حدیث ٤٤٩٦۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma