بعثت ِ انبیاء کامقصدِ اعلیٰ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 23
چونکہ پروردگار کی رحمت ،مغفرت اوربہشت کی طرف سبقت کرنا(جس کی طرف گزشتہ آ یات میں اشارہ ہواہے )رہبران ِ الہٰی کی رہبری کامحتاج ہے لہٰذا زیربحث آ یت میں ، جوقرآن کی زیادہ مفہوم رکھنے والی آ یتوں میں سے ایک آ یت ہے ، اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اورانبیاکے بھیجنے کامقصد اوران کے دستور العمل کونہایت باریک بینی کے ساتھ پیش کرتے ہوئے فر ماتاہے : ہم نے اپنے رسُولوں کوواضح دلائل دے کر بھیجاہے (لَقَدْ أَرْسَلْنا رُسُلَنا بِالْبَیِّنات) ۔اورہم نے ان کے ساتھ آسمانی کتاب اورمیزان کونازل کیا (وَ أَنْزَلْنا مَعَہُمُ الْکِتابَ وَ الْمیزان) تاکہ لوگ عدل وانصاف کے ساتھ قیام کریں (لِیَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْط) بیّنات (واضح دلائل ) اس کے معنی وسیع ہیں جن میں معجزات اورعقلی دلائل دونوں شامل ہیں اورجن کی صلاحیّت خدا کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)اپنی ذات میں رکھتے تھے ۔ کتاب سے مُراد وہی کُتبِ آسمانی ہیں اور چونکہ سب کی رُوح اورحقیقت ایک ہے لہٰذا لفظ کتاب مفرد آیاہے ، اگرچہ زمانے کے گُزر نے اورانسانوں کے علمی ارتقاسے اس کامفہوم زیادہ وسیع ہوجاتاہے ۔ باقی رہی میزان توو ہ وزن کرنے اورناپ تول کے آلے اورذریعہ کے معنی میں ہے ۔اس کامادّی مصداق وہی ترازو ہے جس کے ذریعے چیزوں کے وزن کی ناپ تول ہوتی ہے ۔لیکن مسلّمہ طورپر یہاں اس کامصداق اس کی معنوی حقیقت ہے یعنی ایسی چیزجس سے تمام انسانوں کے اعمال کی ناپ تول کی جاسکتی ہے اور وہ کُلّی طورپر خُدائی احکام وقوانین ہیں یااس کاآئین ودستور ہے اورجونیکیوں بُرائیوں، قدروں ، قیمتوں اوران کی ضد کوجانچنے کامعیار ہے ۔اس اعتبار سے انبیاء تین چیزیں اپنے ساتھ رکھتے تھے ،واضح دلائل ،کُتب ِ آسمانی اورحق وباطل کی ناپ تول کامعیار اوراس چیز میں کوئی مانع نہیں ہے کہ قرآن مجید مبیتہ (معجزہ ) بھی ہو ، آ سمانی کتاب بھی اوراحکام و قوانین کوبیان کرنے والابھی ہے ۔ یعنی ایک ہی چیزمیں تینوںپہلو موجودہوں ،بہرحال ان عظیم افراد ( انبیائ)کوپورے سازوسامان کے ساتھ بھیجنے کامقصد قسط و عدل کا اجراہے ۔دراصل یہ آ یت رسُولوں کے بھیجنے کے متعدد مقاصد میں سے ایک مقصد کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔ ہمیں معلوم ہے کہ انبیاء ومرسلین متعدد مقاصد کے لیے کام کرتے تھے ۔ان کے آنے کاایک مقصد لوگوں کی تعلیم وتربیّت تھاجیساکہ سُورہ جمعہ کی آ یت ٢ میں آ یاہے ۔(ہُوَ الَّذی بَعَثَ فِی الْأُمِّیِّینَ رَسُولاً مِنْہُمْ یَتْلُوا عَلَیْہِمْ آیاتِہِ وَ یُزَکِّیہِمْ وَ یُعَلِّمُہُمُ الْکِتابَ وَ الْحِکْمَةَ)وہی ہے جس نے مکّہ والوں میں سے ایک فرد کورسول بناکر بھیجا تاکہ وہ ان کے سامنے اس کی آیتیں پڑھے ، ان کے نفوس کاتز کیہ کرے اورانہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دے ، دوسرامقصد یہ ہے کہ انسان کی غلامی کی زنجیر یں توڑ دے جیساکہ سُورہ اعراف کی آ یت ١٥٧ میں درج ہے : (وَ یَضَعُ عَنْہُمْ ِصْرَہُمْ وَ الْأَغْلالَ الَّتی کانَتْ عَلَیْہِمْ ) پیغمبراسلام(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے کاندھوں پرسے بہت بھاری بوجھ ہٹاتاہے اوروہ زنجیریں جوان کے ہاتھ پاؤں اور گردن میں ہیں ان کوتوڑ دیتاہے ۔تیسرا مقصد اخلاقی اقدار کی تکمیل ہے جیساکہ مشہور حدیث میں ہے : (بعثت لاتمم مکارم الاخلاق) ۔ میں اخلاقی فضائل کی تکمیل کے لیے مبعوث ہواہوں (١) ۔
آخری ایک مقصد اور ہے اوروہ ہے اقامہ قسط جس کی طرف زیربحث آ یت میں اشارہ ہواہے اوراس طرح بعثت ِ انبیاء کے مقاصد کاسیاسی ،اخلاقی اوراجتماعی تعلیم وتربیّت کے عنوان کے ماتحت خلاصہ کیاجاسکتاہے، یہ بات بالکل آشکار ہے کہ زیربحث آ یت میں تنزیل کتب کے قرینے کے پیش ِ نظر رسولوں سے مراداُو لوالعزم ،پیغمبرہیں یا وہ پیغمبرہیں جوان کے مانند ہیں ۔
ایک دُوسرا نکتہ لیقوم الناس بالقسط کے جملہ میں یہ ہے کہ لوگوں کی ترغیب کے بارے میں گفتگو کرتاہے ۔ یہ نہیں فرماتا: مقصد یہ تھا کہ انبیاء انسانوں میں قیام عدل کی تحریک پیداکریں بلکہ فرماتاہے کہ: لوگ انصاف کوبرو ئے کار لائیں ۔
جی ہاں اہم بات یہ ہے کہ لوگوں کی اس طرح تربیّت کی جائے کہ وہ خُود عدالت وانصاف کوجاری کرنے والے بن جائیں اوراس راہ کواپنے قدموں سے طے کریں ۔لیکن چونکہ ایک انسانی معاشرہ میں بہرحال جس قدربھی اخلاق ،اعتقاد اورتقویٰ کی سطح بلند ہوگی اس میں پھر بھی ایسے افراد پیداہوں گے جوطغیان وسرکشی کے لیے آمادہ ہوں ، اورقیام ِعدل کی راہ میں روڑ ے اٹکائیں اِس لیے اس آ یت کو برقرار رکھنے اور دوام بخشنے کے لیے فرماتاہے : ہم نے لوہے کونازل کیاجس میں شدید قوّت ہے اورلوگوں کے لیے منافع ہیں (وَ أَنْزَلْنَا الْحَدیدَ فیہِ بَأْس شَدید وَ مَنافِعُ لِلنَّاسِ )، جی ہاں انبیائے خداکی تین قوّتیں اجرائے عدالت کے لیے اپنے اصلی مقصد کواس وقت حاصل کرسکتی ہیں جب وہ لوہے جیسی طاقت اور شدید قوّت سے بہرہ وَر ہوں ، اگرچہ بعض مفسّرین نے یہ تصوّر کیاہے کہ انزلناکے الفا ظ یہ بتاتے ہیں کہ لوہا زمین پردُوسرے کُرّوں سے آ یاہے لیکن حق یہ ہے کہ انزال کی تعبیراس قسم کے مواقع پر پرایسی نعمتوں کی طرف اشارہ کرتی ہے جوبلند مقام کی جانب سے پست مقامات کودی جائیں ۔ چونکہ ہرچیزکے خزائن خداکے پاس ہیں اور وہی ہے جس نے لوہے کواس کی گوناں گوں منفعتوں کے لیے پیداکیاہے ۔اس لیے لفظ انزال آ یاہے ۔اسی بناپر ایک حدیث میں حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے اس جملہ کی تفسیر میں فرمایا:
(وانزالہ ذالک خلقہ ایاہ ) لوہے کونازل کرنے سے مراد اس کوپیدا کرناہے (٢) ۔
جیساکہ سورئہ زمر کی آ یت ٦ میں چوپاؤں کے بارے میںہمیں ملتاہے:(وَ أَنْزَلَ لَکُمْ مِنَ الْأَنْعامِ ثَمانِیَةَ أَزْواج) اور تمہارے چوپاؤں کے آٹھ جوڑ ے نازل کیے ہیں ۔
بعض مفسّرین نے انزلنا کو نزل (بروزن شتر) کے مادّہ سے ایسی چیزکے معنی میں لیاہے جسے مہمان کی تواضع کے لیے تیّار کرتے ہیں لیکن ظاہر وہی پہلے معنی ہیں ۔ بأس لغت میں شِدّت ِ قدرت کے معنی میںہے اورجنگ کوبھی باس کہاجاتاہے اور اس لیے بعض مفسّرین نے جنگی وسائل کے معنی میں لیاہے ،عام اس سے کہ وہ دفاعی ہوں یاجنگجویانہ ۔
ایک روایت میں حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ علیہ السلام نے اس آ یت کی تفسیرمیں فرمایا:یعنی السلاح وغیرذالک)مُراد اسلحہ وغیرہ ہے ۔ظاہر ہے کہ یہ بیان مصداق ہی کی قبیل میں سے ہے ۔منافع سے مُراد ہرقسم کانفع ہے جوانسان لوہے سے حاصل کرتاہے ۔ہمیں معلوم ہے کہ لوہے کی اہمیّت انسانی زندگی میں اس قدر زیادہ ہے کہ اس کی انکشاف سے تاریخ بشر میں ایک نیا دَور شروع ہوگیا جولوہے کے دَور کے نام سے مشہورہے ۔چونکہ اس کے انکشاف سے انسانی زندگی کا چہرتمام رُوئے زمین پردوسری سمتوں میں پھیل گیاہے ۔ یہ صُورت ِ حال مذ کورہ آ یت میں منافع کی وسعت کوبیان کرتی ہے ۔قرآن مجید میں بھی مختلف آ یات میں انہی معانی کی طرف اشارہ ہوا ہے ایک مقام پرفرماتاہے:
جس وقت ذوالقرنین نے اپنی مشہور دیوار کے بنانے کاپکّا ارادہ کیاتوکہا: (اٰتونی زبر الحدید) میرے لیے لوہے کے بڑ ے بڑے ٹکڑے لے آؤ(کہف۔٩٦)اورجس وقت خدانے داؤد پراپنا کرم کیاتولوہے کواس کے لیے نرم کردیاتاکہ وہ اس سے زرہ بناسکیں اورجنگ کے خطروں اوردشمنوں کے حملوں میں کمی واقع ہوسکے ۔(وَ أَلَنَّا لَہُ الْحَدیدَ أَنِ اعْمَلْ سابِغات )(سبا ١٠۔١١)اس کے بعد ارسال رسل، نزول ِ کتبِ آسمانی اورلوہے جیسے وسائل کی خلقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتاہے : مقصد یہ ہے کہ خدا جان لے کہ کون لوگ اس کی اوراس کے رسُولوں کی اس کے غیب میں مدد کرتے ہیں (وَ لِیَعْلَمَ اللَّہُ مَنْ یَنْصُرُہُ وَ رُسُلَہُ بِالْغَیْب) یہاں خداکے علم سے مُراد اس کے علم کی تحقیق عینی ہے ۔یعنی یہ بات واضح ہوجائے کہ کون لوگ خداکی اوراس کے مکتب ِ فکرکی مدد کے لیے آ مادہ ہوتے ہیں اورقیام بالقسط کرتے ہیں اوروہ کون لوگ ہیں جواس عظیم ذمّہ داری سے رُوگردانی کرتے ہیں ، حقیقت میں اس آیت کامفہوم اُس کے مشابہ ہے جوسُورئہ آل ِ عمران کی آ یت ١٧٩ میں آ یاہے ،(ما کانَ اللَّہُ لِیَذَرَ الْمُؤْمِنینَ عَلی ما أَنْتُمْ عَلَیْہِ حَتَّی یَمیزَ الْخَبیثَ مِنَ الطَّیِّب) ممکن نہیں تھاکہ خدا مؤ منین کواس شکل میں جس میں تم ہوچھوڑ دے مگر یہ کہ ناپاک کوپاک سے الگ کردے تواس طرح انسانوں کی آزمائش اورامتحان کامسئلہ اورمختلف صفوں کوالگ کرنا اور ان کاتصفیہ کرنااس دستور العمل کاایک عظیم مقصد تھا ،خداکی مدد کرنے کی جوتعبیر ہے وہ مسلمہ طورپراس کے دین وآئین اوراس کے نمائندوں کی مدد کرنے اوردین ِ حق اورعدل وانصاف کوپھیلانے کے معنی میں ہے ،اس لیے کہ خدا کسی کی مدد کا محتاج نہیں ہے ،سب اس کے نیاز مند ہیں ، اس لیے ان معانی کوثابت کرنے کے لیے آ یت کواس جملے پرختم کرتاہے کہ خداقوی اور ناقابل ِ شکست ہے ( ِ انَّ اللَّہَ قَوِیّ عَزیز) ۔اُس کے لیے ممکن ہے کہ وہ ایک ہی اشارے سے سارے جہان کوزیروزبر کرائے اوراپنے تمام دشمنوں کوختم کردے اوراپنے اولیاء کو کامیابی عطاکرے لیکن وہ مقصدِ اصلی جسے انسان کی تربیّت اوراس کاارتقاکہاجاسکتاہے اس طرح حاصل نہیں ہوتااس لیے وہ انسان کودین ِ حق کی مدد کے لیے دعوت ِ عمل دیتاہے ۔
١۔بحارالانوار ،جلد١٧صفحہ باب حسن الخلق درذیل حدیث اوّل ۔
٢۔تفسیر نورالثقلین ،جلد ٥ ،صفحہ ٢٥٠ (حدیث ١٠٠ ،١٠١) ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma