دُنیا متاعِ غرور کے علاوہ اورکوئی چیزنہیں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 23

گزشتہ آ یات کی بحث جس میں مومنین اوربارگاہِ خدامیں ان کے اَجر سے متعلق گفتگوتھی اس کوجاری رکھتے ہوئے پروردگار ِ عالم زیربحث آیت میں مزید فرماتاہے:
وہ لوگ جوخدااوراس کے رسولوں پر ایمان لائے وہ اپنے پروردگار کے ہاں صدیقین اور شہداء ہیں :(وَ الَّذینَ آمَنُوا بِاللَّہِ وَ رُسُلِہِ أُولئِکَ ہُمُ الصِّدِّیقُونَ وَ الشُّہَداء ُ عِنْدَ رَبِّہِمْ) اورصیغہ مبالغہ ہے اوراس شخص کے معنی میں ہے جوسر اپاصداقت ہو۔ وہ جس کاعلم اس کی گفتار کی تصدیق کرتاہو اور وہ سچائی کاکامل نمونہ ہو۔ شہدائ جمع ہے شہید کی ،اس کی مادّہ شہود ہے جس کے معنی ایساحضور ہیں جس کے ساتھ مشاہدہ وابستہ ہو ۔چاہے وہ ظاہری آنکھ سے ہو، چاہے دل کی آنکھ سے ،اور اگرگواہ پرشاہد وشہید کااطلاق ہوتاہے تووہ اس بناپر ہے کہ اس نے کسی منظر کامشاہدہ حاضر رہ کرکیاہے ۔اسی طرح جس طرح اس کااطلاق شہیدان راہ ِ خدا پر میدان ِ جہادمیں ان کے حاضر ہونے کی بناپر ہوتاہے کہ پیغمبر اورانبیاء اپنی اپنی اُمّتوں کے اعمال کے گواہ ہیں اورپیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)ان کے گواہ بھی ہیں اوراپنی اُمّت کے بھی اور مسلمان بھی لوگوں کے اعمال کے شاہد اورگواہ ہیں ( ١) ۔
اس بناپر شہداء کامقام (اعمال کے گواہ) ایک بلند مقام ہے جوایمان دار افراد کوحاصل ہے ۔بعض مفسّرین نے یہ احتمال تجویز کیاہے کہ یہاں شہداء انہی شہدائے راہ ِ خدا کے معنوں میں ہے ۔یعنی جومومن ہے وہ شہیدوں جیسااَجر رکھتاہے اوربمنزلہ شہداء ہے ۔اسی لیے ایک حدیث میں ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی شخص امام جعفرصادق علیہ السلام کی خدمت میں آ یا اورعرض کیا :(ادع اللہ ان یرزقنی الشھادة) ۔خدا سے دُعاکیجئے کہ و ہ مجھے شہادت عطافرمائے ۔
امام علیہ السلام نے فرمایا:
ان المؤ من شھید وقرأ ھٰذہ الا ٰیة
مومن شہیدہے اور پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے اس آ یت ، (وَ الَّذینَ آمَنُوا بِاللَّہِ وَ رُسُلِہِ...) کی تلاوت فرمائی ( ٢) ۔
مذ کورہ دونوں معانی کااجتماع بھی ممکن ہے اس لیے کہ قرآن مجید میں شہید وشہداء کے الفاظ عام طورپر گواہوں کے لیے استعمال ہوئے ہیں بہرحال خدامؤ منین کی دوصِفتیں بیان کرتاہے ۔پہلی صفت صدیق اوردوسری شہید ،اوریہ چیز بتاتی ہے کہ زیربحث آ یت میں مومنین سے مراد وہ افراد ہیں جن کوایمان کابلند ترین مقام حاصل ہے اورنہ ایک عام مؤ من اسی قسم کے اوصاف کاحامل نہیں ہوتا(٣) ۔
اس کے بعد مزیدفرماتاہے : ان کے لیے ان کے اعمال کااَجر ہے اوران کے ایمان کا نور (لَہُمْ أَجْرُہُمْ وَ نُورُہُمْ ) ۔ یہ تفصیل تعبیر ، عظیم اجر اوران کے حد سے زیادہ نور کی طرف اشارہ ہے ، آخر میںفرماتاہے : لیکن وہ لوگ جوکافرہوگئے اورانہوں نے ہماری آ یات کی تکذیب کی وہ اہل دوزخ ہیں (وَ الَّذینَ کَفَرُوا وَ کَذَّبُوا بِآیاتِنا أُولئِکَ أَصْحابُ الْجَحیمِ ) ۔تاکہ ان دونوںگروہوں کے تقابل سے ،پہلے گروہ کامقامِ بلند اور دوسرے گروہ کی پستی آشکار ہوجائے اور چونکہ پہلے گروہ میں ایمان کی بلند سطح مدِّنظر تھی لہٰذااِس گروہ کا بھی شدید کُفرپیشِ نظرہے اِسی لیے اس گروہکاذکر آ یات ِالہٰی کی تکذیب کے عنوان سے ہُواہے اور چونکہ دنیاکی محبت ہرگناہ کاسرچشمہ ہے (رأس کل خطیئة )اس لیے بعد والی آ یت میں دنیا کی کیفیّت حیات اور اس کے مختلف مرحلوں کی گو یانمایاں تصویر کشی ہوئی ہے اورہرمقام پر جوعوامل کارفرمائیں ہیں وہ پیش کیے گئے ہیں ۔
پروردگار ِ عالم فرماتاہے: جان لوکہ زندگی ِ دنیاصرف کھیل کُود ، جوش وخروش ، تجمل پرستی ،ایک دوسرے کے مقابلہ میں فخر کرنااورمال اوراولاد میں اضافہ کامطالعہ کرناہے (اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَیاةُ الدُّنْیا لَعِب وَ لَہْو وَ زینَة وَ تَفاخُر بَیْنَکُمْ وَ تَکاثُر فِی الْأَمْوالِ وَ الْأَوْلادِ ) ۔اس اعتبار سے غفلت ،جوش وخروش ،تجمل پرستی ،تفاخراورتکاثرانسانی زندگی کے پانچ مرحلوں کوتشکیل دیتاہے ۔پہلابچپن کادُور ہے جس میں زندگی بے خبری اورلہو ولعب میں محصور رہتی ہے ۔اس کے بعدلڑکپن کا دُور آتاہے ۔اس میں سرگرمی اورجوش وخورش کھیل کُود کی جگہ لے لیتے ہیں اوراس مرحلہ میں انسان ایسے مسائل میں الجھارہتاہے جواسے صرف اپنے ساتھ سرگرم رکھیں لیکن سنجیدہ مسائل سے دُور ۔تیسرا مرحلہ جوانی کاہے جس میں شور وغوغاہوتاہے اورتجمل پرستی ہوتی ہے ۔اس مرحلے سے گُزر ے توچوتھا مرحلہ آتاہے ۔اس مقام ومنصب کے حاصل کرنے اورفخر ومباہات کرنے کے جذبات انسان میں پیدا ہوجاتے ہیں ۔آخرکار وہ پانچویں مرحلہ میں داخل ہوجاتاہے جس میں افزائش مال واولاد کی فکر میں لگارہتاہے ۔پہلے مرحلے توزندگی اورعمر کے مطابق طے شدہ ہیں لیکن بعد کے مرحلے مختلف افرادمیں مکمل طورپر مختلف ہوتے ہیں ۔ انسان میں مال کی افزائش کاجذبہ آخر تک بر قرار رہتاہے ،اگرچہ بعض کانظر یہ یہ ہے کہ ان پانچ اصولوں میں سے ہرمرحلہ انسانی زندگی کے آٹھ سال پرمحیط ہوتاہے اورمجموعی طورپر چالیس سال تک جاپہنچتاہے ۔ جب انسان اس مرحلہ ہی میں ٹھہر جاتی ہیں اور یہ بڑھاپے تک کھیل کُود، سرگرمی اورمعرکہ آرائی کی فکر میں لگے رہتے ہیں ۔ یایہ ہوتاہے کہ ان کی شخصیّت تجمل پرستی میں بَٹ کررہ جاتی ہے اورانہیں مکان، سواری اورعُمدہ لباس کی فراہمی کے علاوہ کوئی فکرلاحق نہیں ہوتی ، یہ ادھیڑ عمر کے لوگ ہونے کے باوجودبچّے ہوتے ہیں اوربُوڑھے ہوکربھی بچّوں کے سے جذبات واحساسات رکھتے ہیں ،اس کے بعد پروردگار ِعالم انسان کی دُنیا وی زندگی اوراس کے آغازوانجام کی ایک مثال بیان کرکے پُوری کیفیّت کونگاہ انسانی کے سامنے مجسم کرکے پیش کرتاہے اور فرماتاہے : مثل ِبارش کے ہے جوآسمان سے زمین کی طر ف آتی ہے اور اس طرح زمین کوزندہ کرتی ہے کہ اس پرنمایاں ہونے والے سبزے زراعت کرنے والوں کوتعجب میں ڈال دیتے ہیں۔اس کے بعدوہ خشک ہوجاتے ہیں اورایسے ہوجاتے ہیں کہ توانہیں زرد رنگ کادیکھتا ہے ،پھرٹوٹ پُھوٹ کراورچھوٹے چھوٹے تنکے بن کرخشک کٹی ہوئی گھاس میں تبدیل ہوجاتے ہیں (کَمَثَلِ غَیْثٍ أَعْجَبَ الْکُفَّارَ نَباتُہُ ثُمَّ یَہیجُ فَتَراہُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَکُونُ حُطاماً)(٤) ۔
یہاں لفظِ کفّاربے ایمان افراد کے معنوں میں نہیںہے ،بلکہ زراعت کرنے والوں کے معنی میں ہے کیونکہ کفر کے اصلی معنی چھپانے کے ہیں اور چونکہ کسان بیج چھِڑک کراُسے زمین کے اندر چھُپادیتاہے اس لیے اُسے کافرکہتے ہیں اوراسی لیے کفر بعض اوقات قبر کے معنی میں بھی آ تاہے کیونکہ وہ مرنے والے کے جسم کوچھُپا دیتی ہے ۔کبھی رات کوبھی کافر کہاجاتاہے کیونکہ اس کی تاریکی ہرچیز کوچھُپا لیتی ہے ۔درحقیقت زیربحث آ یت سُورئہ فتح کی آ یت کے مانند ہے جس میں گیاہ ونبات کے متعلق زیادہ گفتگو کرتاہے توفرماتاہے:(یعجب الزرع) زراعت کرنے والوں کوتعجب میں ڈال دیتی ہے ( یعنی کفّار کی بجائے زراع کہاگیاہے)بعض مفسّرین نے یہاں اس احتمال کوبھی پیش کیاہے کہ یہاں کفّار سے مُراد وہی کفّار کے وجود کاانکار کرنے والے ہیں۔اس کے لیے انہوں نے چند توجیہات بھی پیش کی ہیں ۔لیکن یہ تفسیر زیادہ مناسب نظرنہیں ا تی کیونکہ اظہارِ تعجب میں کافر ومومن دونوں شریک ہیں حطام حطم کے مادّہ سے ہے ۔اس کے معنی توڑنے اورچھوٹا کرنے کے ہیں ،گھاس کے ان اجزکوحطام کہاجاتاہے جوتیز ہوا کی جُنبش سے بکھر جاتے ہیں جی ہاں وہ مرحلے جوانسان سّترسال یااس سے زیادہ عمر میں طے کرتاہے وہ گھاس اوردیگر نباتات پرچند مہینوں میں ظاہر ہوجاتے ہیں اورانسان ایک کھیت کے کنارے بیٹھ کرعمرکے گزرنے اوراس کے آغاز وانجام کو مختصر سی نظر سے دیکھ سکتاہے ۔اس کے بعد زندگی کے ماحصل کوپیش کرتے ہوئے فرماتاہے: لیکن آخرت کامعاملہ دوحالتوں سے خارج نہیں ہے یاعذاب شدید ہے یااس کی مغفرت ،رضا اورخوشنودی ( وَ فِی الْآخِرَةِ عَذاب شَدید وَ مَغْفِرَة مِنَ اللَّہِ وَ رِضْوان) ۔آخرکارآ یت کواس جملہ پرختم کرتاہے : اورزندگی دنیا سوائے متاعِ غرور اورفریب کے اورکوئی چیزنہیںہے ( وَ مَا الْحَیاةُ الدُّنْیا ِلاَّ مَتاعُ الْغُرُور) ۔
غرور اصل میں غر (بروزن حر)کے مادّہ سے ہے ۔ اس کے معنی ہیں کسی چیز کااثرِ ظاہری م۔اسی گھوڑے کی پیشانی پرظاہرہونے والے اثر کوغرہ کہتے ہیں ۔اس کے بعدغفلت کی حالت پر بھی اس کااطلاق ہواہے جہاں ظاہر میں انسان ہوشیار ہے لیکن حقیقت میں بے خبرہے ۔ یہ فریب کے معنی میں بھی استعمال ہوتاہے ۔ متاعہرقسم کے فائدہ اُٹھا نے کے وسائل معنی میں استعمال ہوتاہے ۔تواس بناپر دنیامتاع غرور ہے کے جملے کامفہوم یہ ہے کہ دُنیا فریب کاری کے لیے وسیلے کی مانند ہے ،اپنے آپ کوفریب دینے کے لیے بھی اور دوسروں کوفریب دینے کے لیے بھی ۔البتہ ان لوگوں کے بارے میں ہے جودُنیا کواپنا انتہائی مقصود قرار دیتے ہیں اوراُسی میں دل لگالیتے ہیں اوراسی پرانحصار کرتے ہیں۔ ان کی آخری آرزو یہی ہوتی ہے کہ دنیاحاصل کرلیں ۔لیکن اگر اس دنیا کی نعمتیںبلند اقدار اور سعادت ِ جاودانی کے حصول کاذ ریعہ بن جائیں توپھروہ ہرگزدنیانہیں ہے ،بلکہ آخرت کی کھیتی ،عظیم مقاصد تک پہنچنے کاایک پل ہے ۔یہ بات ظاہر ہے کہ اگردنیا کی طرف ایک گزر گار یاآرام کرنے کی جگہ کی حیثیت سے نظر کی جائے تو اس کے دوپہلوسامنے آ تے ہیں جن میں سے ایک میں جھگڑااورفساد ہے ،حد سے تجاوز ہے ، ظلم ہے اور سرکشی وغفلت ہے ۔دوسرے پہلو میںبیداری کاوسیلہ ہے ،آگاہی ہے ،اِیثار وقربانی ہے،بھائی چارہ ہے اورمعاف کردیناہے ۔
١۔تفسیر نمونہ کی جلد ٧ سورہ حج کی آیت ٨٨ کے ذیل میں اورجلد ٢ سورہ نساء کی آ یت ٤١ کے ذیل میں جوتحریر ہے اس کی طرف رجوع فرمائیں۔
٢۔ تفسیرعیاشی مطابق نقل نورالثقلین ،جلد ٥ ،صفحہ ٢٤٤۔
٣۔اُوپر والی تفسیر کے مطابق ( أُولئِکَ ہُمُ الصِّدِّیقُونَ وَ الشُّہَداء ُ عِنْدَ رَبِّہِمْ)میں کوئی چیزمقدر نہیں ہے اورمؤ منین کے اُس گروہ کو صدیقین و شہداء کے مصداق شمار کیاگیاہے ۔لیکن مفسّرین کانظر یہ یہ ہے کہ بمنزل صدیقین وشہداء ہیں نہ کہ خُود وہی ہیں یعنی ان کااَجر توانہیں ملے گا لیکن تمام اعزازاتوافتخارات نہیں ملیں گے اوروہ کہتے ہیں کہ آ یت کی تقدیر ِ عبارت اس طرح ہے(اولٰئک مثل اجرالصدیقین والشھدائ)تفسیر رُوح المعانی اورالمیزان( درذیل آ یات زیربحث ) اور""طبعاً لھم ""اور""اجرھم""کی ضمیر وں کامرجع بھی مختلف ہوگالیکن یہ تفسیر ظاہر آ یات کے ساتھ سازگار نہیں ہے ۔
٤۔"" یھیج "" کامادّہ "" ھیجان"" ہے یہ لغت میں د ومعانی کے لیے آ یاہے ایک گھاس کاخشک ہوجانا دوسرے حرکت میں آنا ،ہوسکتاہے کہ یہ دونوں معانی ایک ہی اصل کی طرف لوٹتے ہوں کیونکہ جب گھاس خشک ہو جائے تووہ حرکت اورپراگندگی کے لیے آمادہ ہو جاتی ہے ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma