غفلت و بے خبری کب تک

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 23

اِن تمام سرکوبی کرنے والی تنبیہوں اورگزشتہ آیتوں میں بیدار کرنے والی تخویفوں اورقیامت میں کافروں اورمنافقوں کاجوحال ہوگا اس کوبیان کرنے کے بعد پہلی زیربحث آ یت میں پروردگار ِ عالم نتیجہ پیش کرتے ہوئے فر ماتاہے: کیااس چیز کاوقت نہیں آ یا کہ صاحب ِ ایمان افراد کے دل، ذکرِ خداسے اور جوکچھ حق میں سے نازل ہواہے ،اس سے خوف کھائیں اوران لوگوں کی طرح نہ ہوں جنہیں گزشتہ زمانے میں آسمانی کتاب دی گئی (مثل یہود ونصاریٰ کے ) پھران کے اورپیغمبروں کے درمیان فاصلہ بڑھ گیا۔ انہوں نے طولانی عمرپائی اورخدا کوفراموش کیا۔ان کے دلوں میں قساوت پیدہوگئی ان میں سے بہت سے فاسق اورگنہگارتھے(أَ لَمْ یَأْنِ لِلَّذینَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُہُمْ لِذِکْرِ اللَّہِ وَ ما نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَ لا یَکُونُوا کَالَّذینَ أُوتُوا الْکِتابَ مِنْ قَبْلُ فَطالَ عَلَیْہِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُہُمْ وَ کَثیر مِنْہُمْ فاسِقُون)(۱) ۔
تخشع کامادّہ خشوع ہے ۔اس کے معنی میں وہ حالت ِ تواضع اورجسمانی ورُوحانی جوکسِی عظیم حقیقت یابزرگ شخصیّت کے سامنے کوئی انسان اختیار کرے ۔ یہ بات ظاہر ہے کہ اگرخداکی یاد انسان کے دل اوراس کی رُوح کی گہرائیوں میں اُتر جائے اوروہ ان آ یات کوسُنے جوپیغمبرخداپر نازل ہوئی ہیں اوران میں غوروفکر کرے توان آیتوں کوخوفِ خُدا کاسبب بننا چاہیئے ۔ لیکن قرآن یہاں مؤ منین کے ایک گروہ کوسخت ملامت کرتاہے کہ وہ ان حقائق کے پیش ِ نظرکیوں خشوع اختیار نہیں کرتے اور بہت سی گزشتہ اُمّتوں کی طرح کیوں غفلت و بے خبری کاشکارہیں ۔وہی غفلت جس کانتیجہ قساوت ِ قلبی ہے اوروہی قساوت جس کاثمر فسق وفجوراورگُناہ ہے ۔ کیاصرف ایمان کے دعویٰ پرقناعت کرنا اور اہم مسائل کے نزدیک سے بہ آسانی گُزر جانااورخُودکوخوشحالی کے سپرد کردینا اورنازو نعمت میں رہنا اورہمیشہ عیش وعشرت میں مگن رہناایمان کے ساتھ مطابقت رکھتاہے ؟ (طال علیھم الامد) ان پرزمانہ طولانی ہوگیا یہ جملہ ہوسکتاہے ان لوگوں اور ان کے پیغمبروں کے درمیان فاصلہ کی طرف اشارہ ہویاان کے طول عمر اورآ رزوؤں کی کثرت کی طرف یاعذاب ِالہٰی کے طویل زمانہ تک نازل ہونے کی طرف یاان سب کی طرف ، اس لیے کہ ممکن ہے ان میں سے ہرچیز غفلت وقساوت ِقلبی کاسبب ہو اوروہ فسق وگناہ کاسبب بنے ۔
ایک حدیث میں حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا:
( لا تعاجلواالا مرقبل بلوغة فتند موا ولا یطولن علیکم الامد فتقسو قلوبکم) ۔
کسی کام کے سلسلہ میں ، اس کاوقت آ نے سے پہلے ، جلد نہ کرو ورنہ پشیمان ہوگے اورتمہارے اورحق کے درمیان طویل فاصلہ نہیں ہوناچاہیئے کیونکہ اس سے تمہارے دل قساوت کاشکار ہوجائیں گے (۲) ۔
ایک اورحدیث میں حضرت عیسےٰ علیہ السلام کی زبانی یہ مروی ہے کہ :
( لا تکثرو االکلام بغیرذ کراللہ فتقسو قلوبکم فان القلب القاسی بعید من اللہ ولا تنظروافی ذنوب العباد کانکم ارباب، وانظروافی ذنوبکم کانکم عبید،والنّاسرجلان ،مبتلی ، ومعافی ،فارحموااھل البلاء ،واحمدوااللہ علی العافیة ) ۔
خدا کے ذکر سے جوخالی ہوں وہ باتیں زیادہ نہ کرو یہ قساوت ِ قلب کاباعث ہے اور قساوت رکھنے والادل خداسے دُور ہے ۔بندوں کے گناہوں پر اس طرح نظر نہ ڈالو جس طرح مالک اپنے غلاموںپرنظر ڈالتے ہیں بلکہ اپنے گناہوں کی طرف اس طرح دیکھو جیسے کوئی غلام اپنے آقاکے سامنے ہو۔لوگ دوطرح کے ہیں ایک گروہِ مبتلا ہے اوردوسرااہل عافیت کاگروہ ہے ۔مبتلاؤں پررحم کرو اوراہل عافیت کودیکھ کرخدا کی حمد وستائش کرو (۳) ۔
چونکہ ذکرِ خدا سے مُردہ دلوں کازندہ ہونا اورقرآن کے سامنے خضوع وخشوع اختیار کرنے سے حیات ِ معنوی کاپیدا ہونا،بارش کے حیات بخش قطروں کی برکت سے مُردہ زمینوں کے زندہ ہونے کے ساتھ بہت زیادہ مشابہت رکھتاہے اس لیے بعدوالی آ یت میں مزید فرماتاہے:جان لوکہ خدا زمین کومُردہ ہونے کے بعد زندہ کرتاہے (اعْلَمُوا أَنَّ اللَّہَ یُحْیِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہا) ہم اپنی آیتوں کو آفرینش کے میدان میں اوروحی کے میدان میں تمہارے لیے واضح کرتے ہیں اس خیال سے کہ شاید تم عقل سے کام لو( قَدْ بَیَّنَّا لَکُمُ الْآیاتِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُون) ۔ درحقیقت یہ آ یت بھی بارش کے وسیلہ سے زمین ِ مُردہ کے زندہ ہونے کی طرف اورذکر ِ خدا وقرآن کے وسیلہ سے دل ہائے مُردہ کے زندہ ہونے کی طرف اشارہ ہے قرآن وہ ہے جوخداکی طرف سے قلب ِپاک پیغمبرپرنازل ہواہے ۔ذکرِ خداوقرآن دونوں تدبّر وتعقل کے مستحق ہیں اِسی لیے اسلامی روایات میں دونوں کی طرف اشارہ ہواہے ، ایک حدیث امام جعفرصادق علیہ السلام سے منقوہے ۔آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے اس آ یت کی تفسیر میں فرمایا:
العدل بعد الجور
زمین کاعدالت وانصاف کے ذریعے زندہ ہونامُراد ہے بعداس کے کہ وہ ظلم وجور سے مُردہ ہوچکی ہو(۴) ۔
ایک دوسری حدیث امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ علیہ السلام نے اعْلَمُوا أَنَّ اللَّہَ یُحْیِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہا کی تفسیر میں فرمایا :( یحی اللہ تعالیٰ بالقائم بعد موتھا یعنی بموتھا کفر اھلھا والکافرمیت) ۔
خدازمین کوحضرت مہدی علیہ السلام کے ذریعے زندہ کرے گابعداس کے کہ وہ مُردہ ہوچکی ہوگی اور زمین کے مُردہ ہونے سے مُراد اس کے رہنے والوں کاکفر ہے اور کافر مُردہ ہے (۵) ۔
یہ بات کہے بغیرظاہر ہے کہ یہ تفسیریں زیربحث آ یت کے مصداقوں کابیان ہیں اورہرگزآ یت کے مفہوم کومحدُود نہیں کرتیں ایک اورحدیث میں امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے منقول ہے کہ :
فان اللہ یحی القلوب المیتة بنور الحکمة کمایحی الارض المیتة بوابل المطر خدامُردہ دلوں کونورِ حکمت سے زندہ کرتاہے جیساکہ مُردہ زمینوں کوبابرکت بارشوں سے زندہ کرتاہے (۶) ۔
بعد والی آ یت ایک مرتبہ پھر انفاق ، جوشجرِ ایمان کاایک پھل ہے ،اس کی طرف توجہ دلاتی ہے اوراسے موضوعِ گفتگو بناتی ہے اور وہی تعبیر جوگزشتہ آ یات میں ہم پڑھ چکے ہیں اسے کچھ اضافوں کے ساتھ پیش کرتی ہے ۔ پروردگار ِ عالم فرماتاہے:
وہ مرد اورعورتیں جوراہ ِ خدا میں انفاق کریں اور وہ جواس طرح خداکو قرض ِحسنہ دیں خدااس قرض کوکئی گُنا کرتاہے اور ان مردوں اورعورتوں کے لیے بیش قیمت اَجر ہے )أنَّ الْمُصَّدِّقینَ وَ الْمُصَّدِّقاتِ وَ أَقْرَضُوا اللَّہَ قَرْضاً حَسَناً یُضاعَفُ لَہُمْ وَ لَہُمْ أَجْر کَریم )(۷) ۔
مسئلہ انفاق کوخدانے قرض ِ حسنہ دینے کے عنوان کے ماتحت کیوپیش کیاہے اور مذکورہ اضافہ اوراجرِ کریم کِس بناپر ہے ، اس سورہ کی آ یت ١١ کے ذیل میں ہم اس پربحث کرچکے ہیں ،بعض مفسّرین نے یہ احتمال تجویز کیاہے کہ اس آ یت میں اوراسی قسم کی دوسری آیتوں میں(۸) ۔
خداکوقرض ِ حسنہ دینے سے مُراد بندوں کوقرض دیناہے ، اس لیے کہ خدا کوقرض لینے کی ضرورت نہیں ہے ،یہ مومن بندے ہی ہیں جنہیں قرض کی ضرورت ہے ۔لیکن آ یات کے سیاق وسباق کی طرف توجہ کرتے ہوئے یہ نظر آتاہے کہ ان آ یات میں قرض ِ حسنہ سے مُراد وہی انفاق فی سبیل اللہ ہے اگرچہ بندگان ِ خدا کوقرض دینابھی افضل وبرتر اعمال میں سے ہے اوریہ ایک طے شدہ حقیقت ہے ۔ فاضل مقدار نے بھی کنز العرفان میں انہی معانی کی طرف اشارہ کیا ہے ، اگرچہ وہ قرض ِ حسنہ کی تفسیر میں تمام اعمالِ صالح کوپیش کرتے ہیں ( ۹) ۔
وُہ گنہگار افراد جنہوں نے یہ آ یت سُن کرتوبہ کی
آ یت (أَ لَمْ یَأْنِ لِلَّذینَ آمَنُوا...) قرآن مجید کی اِن لرزہ براندام کردینے والی آ یتوں میں سے ہے جوانسان کے دل اوراس کی رُوح کومسخّر کرتی ہیں اورغفلت کے پردے چاک کرکے پُکارپُکارکرکہتی ہیں کیااس کاموقع نہیں آ پہنچا کہ ایمان ار دل خدا کے ذکر سے اورجو حق سے نازل ہواہے اس کوسُن کرخدا کاخوف اختیارکریں اوران لوگوں کے مانند نہ ہوں جنہوں نے کتاب ِ آسمانی کی آ یات کا ادراک کیالیکن طول زمان ِ کے زیراثر ان کے دل قساوت کی طرف مائل رہے ۔ اس لیے تاریخ کے طویل دورمیں ہم بہت سے گنہگار افراد کودیکھتے ہیں جواس آیت کوسُن کراس طرح کانپ اُٹھتے ہیں ۔ منجملہ دوسروں کے فضیل بن عیاض ہیں، فضیل جوکُتب ِرجال میں امام جعفرصادق علیہ السلام کے موثق راویوں میں سے ہیں اورمشہور زاہدوں میں شمارہوتے ہیں وہ آخری زندگی میں جوارِ کعبہ میں رہائش رکھتے تھے ۔انہوں نے اسی علاقہ میں بروز عاشورہ دُنیا سے رخت ِ سفرباندھا، وہ ابتدا میں ایک خطرناک رہزن تھے جس سے تمام لوگ ڈرتے تھے ،وہ ایک آبادی کے قریب سے گزررہے تھے کہ ایک لڑکی کواُنہوں نے دیکھا۔ اس سے انہیں محبت ہوگئی ۔اس لڑکی کے عشق نے انہیں اس بات کی انگیخت دی کہ رات کے وقت وہ اس کے گھر کی دیوارپھاند کر اندر داخل ہوں اورہرقیمت پراس کاوصال حاصل کریں ۔ وہ جس وقت دیوار پھاندرہے تھے تواس وقت قریب کے گھروں میں سے ایک گھر میں کوئی شخص تلاوت ِ قرآن مجید میں مشغول تھااور وہ اس آ یت کی تلاوت کررہاتھا(أَ لَمْ یَأْنِ لِلَّذینَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُہُمْ لِذِکْرِ اللَّہِ)یہ آ یت ایک تیرکی طرح فضیل کے دل پرلگی ۔انہوں نے دل میں چُھن محسوس کی ۔ان کے دل میں ایک قسم کا ہیجان برپا ہوگیا۔ اُنہوں نے تھوڑا سااس پرغور وفکر کیاکہ کون ہے جویہ گفتگوکررہاہے اورکسِے یہ پیام دے رہاہے ۔وہ مجھ سے کہہ رہاہے کہ اے فضیل کیاوہ وقت نہیں آپہنچا کہ تُو بیدار ہواوراس راہ ِ خطا سے لوٹ آ ئے ؟اس گناہ سے اپنادامن بچالے اورتوبہ کی راہ اختیارکرے؟اچانک فضیل کی صدابلند ہوئی ۔وہ مسلسل کہے جارہے تھے :(بلی واللہ قداٰن، بلی واللہ قداٰن ) خدا کی قسم اس کاوقت آپہنچاہے ۔خداکی قسم اس کا وقت آپہنچا ہے انہوں نے آخری فیصلہ کیااورپُختہ اِرادہ کرلیا اوروہ بجلی کی سی ایک جست لگاکرحلقۂ اشقیاسے نکل آ ئے اورصف ِ سعدامیں شامل ہوگئے ۔وہ دیوارسے نیچے اُترآ ئے اورایک ایسے خرابے میں داخل ہوئے جہاں مسافروں کی ایک جماعت قیام پذیر تھی ۔وہ مسافر اپنی منزل کی طرف کُوچ کرنے کے سلسلہ میں ایک دوسرے سے مشورہ کررہے تھے اورآپس میں یہ کہہ رہے تھے ، کہ فضیل اوراس کے ساتھی راستے میں ہیں ۔اگر ہم جائیں گے تووہ ہمارا راستہ رو ک لیں گے اورہمارامال واسباب لُوٹ لیں گے،فضیل لرزگئے اوراپنے آپ کوسخت ملامت کرنیلگے اورکہنے لگے کہ میں کِتنا بُراشخص ہوں ، یہ کون سی شقاوت وبدبختی ہے جس میں میں مبتلا ہوں ۔رات کی تاریکی میںگناہ کے ارادہ سے ہیں باہر نکلا ہوں اورمسلمانوں کاایک گروہ میرے خوف کی وجہ سے اس خرابہ میں پناہ لینے پر مجبور ہواہے ۔انہوں نے آسمان کی طرف مُنہ کیااورتوبہ کرنے والے دل سے ان الفاظ کواپنی زبان پرجاری کیا(اللّٰھم انّی تبت الیک وجعلت توبتی الیک جوار بیتک الحرام )خدا یا میں تیری طرف لوٹ آ یااور اپنی توبہ یہ قرار دی ہے کہ ہمیشہ تیرے گھرکے قُرب میں رہوں گا۔خدا یامیں اپنی بدکار ی پررنجیدہ ہوں اوراپنی دنائت کی وجہ سے آہ وبکا کرتاہوں تومیرے درد کی دوا کر۔اے ہردرد کی دواکرنے والے!ایاے ہرعیب سیپاک ومنزہ !اے وہ جومیری خدمات بجالانے سے بے نیازہے !اے وہ جسے میری خیانت سے کوئی نقصان نہیں!مجھے اپنی رحمت کے صدقے میں بخش دے اورمُجھ ہوا وہوس کے اسیر کواس قید وبند سے رہائی بخش خُدا نے ان کی دُعا قبول کی اوران پرعنایات فرمائیں وہ وہاں سے لوٹ کرمکّہ آئے اوربرسوں تک وہاں مجاور رہے اولیاء اللہ میں سے ہوگئے ۔
گدائے کُوئے تواز ہشت خلد مستغنی است ا سیر عشق تواز ہردو کون آزاداست
تیرے کُوچہ کاگداآٹھوں بہشتوں مستغنی ہے اورتیرے عشق کاقیدی دونوں جہاں سے آزاد ہے (۱۰) ۔
بعض مفسّرین نے لکھاہے کہ بصرہ کے مشہور افراد میں سے ایک فرد کہتاہے کہ میں ایک راستے سے گُزررہاتھا ۔اچانک ایک چیخ میں نے سُنی۔ میں اس چیخ مارنے والے کے قریب پہنچاتومیں نے دیکھا کہ ایک شخص زمین پربے ہوش پڑا ہواہے ،میں نے پوچھا یہ کون ہے لوگوں نے بتایا کہیہ ایک بیدار دل شخص ہے ۔ قرآن کی ایک آ یت اس سے سُنی ہے اومدہوش ہوگیاہے ۔ میں نے کہاکہ کون سی آ یت تو انہوں نے بتایا:أَ لَمْ یَأْنِ لِلَّذینَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُہُمْ لِذِکْرِ اللَّہِ میری آواز سُن کروہ بے ہوش شخص اچانک ہوش میں آگیا اورہوش میں آکراس نے اس دِل سوز اشعار کوپڑھنا شروع کیا:
اماأن للھجران ان یتصرما وللغصن غصن البان ان یتبسّما
وللعاشق انصب الذی ذاب وانحنی ال یأن ان یبکی علیہ ویرحما
کتبت بماء الشوق بین جوانحی کتاباحکی نقش ِ الوشی المنمنما
کیااس کاموقع نہیں آ یا کہ ہجرکا وقت ختم ہو اورمیری اُمید کی بلند شاخ اوراس کی خوشبو مسکرائے اورکیااس کاوقت نہیں آ یا کہ اس بیقرار عاشق کے لیے جوپگھل کرپانی ہوچکاہے اوراس کی کمرجُھک گئی ہے ، لوگ گریہ کریں اوروہ مرکز رحم قرار پائے جی ہاں شوق کے پانی کی روشنائی سے میں نے اپنے صفحہ دل پرلکھ دیاہے اورایک ایسانامہ ٔ شوق تحریر کیا ہے جوبہت ہی خوبصورت عُمدہ اور جاذب ِ توجہ ہے ۔اس کے بعد اس نے کہامشکل ہے مشکل ہے یہ کہہ کروہ دوبارہ بے ہوش ہوکرزمین پرگِر پڑااِس کوہم نے ہلا کردیکھاتووہ اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کرچکاتھا(۱۱) ۔
۱۔"" یأ ن"" کامادہ "" أنی "" (بروزن امن ) ہے "" انا"" بروزن "" ندا"" کے مادّہ سے اور "" أنائ"" بروزن "" جفائ"" کے مادّہ سے نزدیک ہونے اور کسِی چیز کے حضور کے وقت کے معنوں میں ہے ۔
۲۔"" بحارالانوار"" جلد ٧٨صفحہ ٨٣حدیث ٨٥۔
۳۔"" مجمع البیان "" جلد ٩ ،صفحہ ٢٣٨۔
۴۔روضة الکافی مطابق نقل نورالثقلین ،جلد ٥،صفحہ ٢٤٣۔
۵۔"" کمال الدین"" مطابق نقل "" نورلثقلین "" جلد ٥ صفحہ ٢٤٢۔
۶۔بحا ر جلد ٧٨ صفحہ ٣٠٨۔
۷۔""الْمُصَّدِّقینَ وَ الْمُصَّدِّقاتِ"" ""الْمتُصَّدِّقینَ وَ الْمُصَّدِّقاتِ"" کے معنی میں ہے اور "" أَقْرَضُوا اللَّہ"" کا عطف جوجملہ فعلیہ ہے گزشتہ جملہ اسمیہ پر اسی بناپر ہے کیونکہ یہ جملہ الذین اقر ضوااللہ کے معنی میں ہے ۔
۸۔ بقرہ ۔ ٢٤٥، تغابن ،١٧ ، مزمل ۔ ٢٠ ۔حدید١١۔
۹۔کنزالعرفان ،جلد ٢ ،صفحہ ٥٨۔
۱۰۔اقتباس ازسفینة البحار ،جلد ٢ ،صفحہ ٣٦٩ ۔ اوررُوح البیان ،جلد ٩ ِصفحہ ٣٦٥۔ اورتفسیرقرطبی جلد ٩ صفحہ ٦٤٦١۔
۱۱۔تفسیررُوح المعانی ،جلد ٢٧،صفحہ ١٥٦۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma