ہمیں اپنے نُورسے اِستفادہ کرنے دو

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 23
چونکہ گزشتہ آ یتوں میں سے آخری آ یت میں خدانے انفاق کرنے والوں کواَجر ِ کریم کی خوش خبری دی تھی ، زیربحث آ یت میں وہ یہ معیّن کرتاہے کہ یہ اجرِ کریم کِس دن دیاجائے گا ۔فرماتاہے: یہ اس دن پر مقرر ہے کہ جس دن ایماندار مرد اورعورتوں کوتو دیکھے گا کہ ان کانُور ان کے آگے آگے اور دائیں طرف تیزی سے چل رہا ہوگا (یَوْمَ تَرَی الْمُؤْمِنینَ وَ الْمُؤْمِناتِ یَسْعی نُورُہُمْ بَیْنَ أَیْدیہِمْ وَ بِأَیْمانِہِمْ) ۔اگرچہ یہاں مخاطب پیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)ہیں لیکن مسلّم ہے کہ دوسرے لوگ بھی اس منظر کودیکھیںگے لیکن چونکہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ آلہ وسلم)کی مومنین سے شناسائی ضروری ہے تاکہ وہ ان پرخصوصی نظررکھیں تواس نشانی سے آپ ا نہیں اچھی طرح پہنچان لیں گے ۔ اگرچہ مفسّرین نے اس نور کے سلسلہ میںبہت سے احتمال تجویز کیے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ اس سے مراد نورِ ایمان کامجسّم ہوناہے ۔چونکہ نورھم (صاحب ِ ایمان مردوں اورعورتوں کانور)کے الفاظ آ ئے ہیں، اورتعجب کی بات بھی نہیں ہے ،کیونکہ اس دن انسانوں کے عقائد واعمال کی تجسم ہوگی ، ایمان جو نورِ ہدایت ہے ،ظاہری نور اور روشنی کی شکل میں مجسّم ہوگا اورکُفر کہ جو تاریکی مطلق ہے ظاہری تاریکی کی صُورت میں مجسّم ہوگااسی لیے سُورہ تحریم کی آ یت ٨میں ہے (یَوْمَ لا یُخْزِی اللَّہُ النَّبِیَّ وَ الَّذینَ آمَنُوا مَعَہُ نُورُہُمْ یَسْعی بَیْنَ أَیْدیہِمْ)اوراس دن اللہ اپنے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)اوران لوگوں کوجو ایمان لاچکے ہیںرسوا نہیں کرے گااوران کانوران کے آگے چلے گا ،قرآن کی دوسری آیتوں میںبھی آ یاہے کہ خدا مومنین کوظلمت کی طرف سے نور کی طرف ہدایت کرتاہے ۔ یسعیٰسعی کے مادّہ سے ہے جس کے معنی تیز حرکت اورچلنے کے ہیں ۔ یہ لفظ اس امر کی دلیل ہے کہ بروز محشر خود مومنین بھی وہ راہ ِ بہشت سعادت ِ جاودانی کامرکز ہے تیزی سے طے کریں گے کیونکہ ان کے نورکی سریع حرکت ان کی اپنی سریع حرکت سے علیحدہ نہیں ہے ۔ قابل ِ توجہ یہ ہے کہ گفتگو صِرف دوقسم کے انور کے بارے میںدرمیان آ ئی میں ہے ۔(ایک وہ نوجومومنین کے آگے چل رہاہے ۔دوسرے وہ نورجوان کے دائیں جانب ہے)ہوسکتاہے کہ یہ تعبیر مومنین کے دوگروہوں کے بارے میںہو۔ ایک تو مقربین کاگروہ ہے جن کی صُورت نورانی ہے اوران کانور ان کے آگے آگے چلتاہے ۔دوسرے اصحاب ِ یمین جن کانوران کے دائیں جانب ہے ، اس لیے کہ ان کانامہ ٔ اعمال ان ک دائیں ہاتھ میں دیاجائے گا اوراس میں سے نُورپھوٹے گا ۔ یہ احتمال بھی ہے کہ دونوں اشارے ایک ہی گروہ کی طرف ہوں اورنورِ یمین کنایہ ہو۔ اس نورکا جوان کے نیک اعمال سے نکلے گااوران کے تمام اطراف کوگھیر لے گااورروشن کرے گا ، بہرحال یہ نور بہشت بریں تک ان کی رہنمائی کرے گا اوراس کے سائے میں وہ جنّت کی راہ تیزی سے طے کریں گے ۔چونکہ یہ نور بلاشک وشبہ ان کے ایمان اورعمل ِ صالح سے نکلے گاتوایمان اورعمل ِ صالح کے اختلاف ِ مراتب کی وجہ سے لوگ بھی مختلف ہوں گے ۔ ایک وہ جن کاایمان بہت زیادہ قوی ہوگاان کانورزیادہ فاصلہ کو روشن کرے گااوروہ لوگ جن کاایمان کافی کمزورہے ، انہیں کمتر درجہ کا نورحاصل ہوگایہاں تک کہ ان کے پاؤں کی اُنگلیوں کی نوکوں کوروشن کرے گاجیساکہ تفسیرعلی ابن ابراہیم میں آ یہ زیربحث کے ذیل میں اشارہ ہواہے کہ یقسم النّور بین النّاس یوم القیامة علی قدر ایمانھمقیامت کے دِن نورلوگوں کے درمیان ان کے ایمان کی مقدار کے مطابق تقسیم ہوگا( ١) ۔
یہ وہ مقام ہے جہاں ان کے احترام کی وجہ سے ملائکہ کی طرف سے ایک آواز آئے گی : تمہارے لیے آج کے د ن جنّت کے باغات کی بشارت ہوجن کے درختوں کے نیچے نہریںجاری ہیں (بُشْراکُمُ الْیَوْمَ جَنَّات تَجْری مِنْ تَحْتِہَا الْأَنْہارُ) ۔ اس میں تم ہمیشہ رہوگے اوریہ ایک عظیم کامیابی ورستگاری ہے (خالِدینَ فیہا ذلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظیمُ) ۔
باقی رہے وہ منافقین جوکفرونفاق اورگناہ کی وحشت ناک تاریکی میں مقیم ہوں گے تو اس موقع پروہ فریاد کریں گے ،وہ مومنین سے نورحاصل کرنے کی التجا کریں گے لیکن سوائے انکار کے انہیں کچھ حاصل نہ ہوگا جیساکہ بعدوالی آ یت میں پروردگار ِ عالم فرماتاہے :(یَوْمَ یَقُولُ الْمُنافِقُونَ وَ الْمُنافِقاتُ لِلَّذینَ آمَنُوا انْظُرُونا نَقْتَبِسْ مِنْ نُورِکُمْ)(٢) ۔
وہ دن جس میں منافق مرد اور عورتیں مومنین سے کہیں گے ہماری طرف دیکھو تاکہ ہم تمہارے نورسے روشنی حاصل کریں۔
اقتباس کامادّہ قبس ہے جس کے معنی ہیں آگ کا شعلہ لینا۔ اس کے علاوہ نمونوں کے اِنتخاب کے لیے بھی استعمال ہواہے ۔ انظرونا کے لفظ سے یہ مُراد ہے کہ ہماری طرف نگاہ کروتاکہ تمہارے چہرہ کے نور سے ہم فائدہ اُٹھائیں اوراپنا راستہ دیکھ لیں ،یاہم پرلُطف ومحبت کی نگاہ ڈالو اوراپنے نور کاایک حصّہ ہمیں بھی دو، یہ احتمال بھی ہے کہ انظرونا سے مراد انتظار کرناہویعنی ہمیں مہلت دو تاکہ ہم بھی تم تک پہنچ جائیں اورتمہارے نور کے زیرسایہ اپنی راہ تلاش کریں۔ لیکن بہرحال جوجواب انہیں دیاجائے گا وہ یہ ہے کہ اپنے پیچھے کی طرف پلٹ جاؤ اورکسب ِنورکرو۔( قیلَ ارْجِعُوا وَراء َکُمْ فَالْتَمِسُوا نُوراً) ۔ یہ نورحاصل کرنے کی جگہ نہیں ہے ۔تمہیںچاہیئے تھا کہ یہ نور اس دنیامیں جسے تم پیچھے چھوڑ آئے ہو، ایمان اورعمل ِ صالح کے ذ ریعے حاصل کرتے ۔اَب وقت گزرچکاہے اوردیر ہوچکی ہے ۔اس وقت اچانک ان کے گرد ایک دیوار کھڑی کردی جائے گی جس میں دروازہ ہوگا ( فَضُرِبَ بَیْنَہُمْ بِسُورٍ لَہُ باب) ۔ لیکن اس عظیم دیوار کے دونوں اطراف میں یااس دروازہ کے دونوں اطراف میں بڑافرق ہوگا ۔ اس کے اندررحمت اورباہر عذاب ہے ۔ ( باطِنُہُ فیہِ الرَّحْمَةُ وَ ظاہِرُہُ مِنْ قِبَلِہِ الْعَذاب) سور کے معنی از روئے لغت دیوار کے ہیں جوگزشتہ زمانے میں شہروں کے گردکھینچے تھے جسے فصیل کہتے ہیں اورفارسی میں بارود کہتے ہیں ۔اس فصیل میں مختلف فاصلوںپرمحافظوں اورنگہبانوں کے لیے برج ہوتے تھے ، لہٰذا مجموعی حیثیت سے اُسے برج وبارود کہتے ہیں ۔ قابل ِتو یہ ہے کہ پروردگار ِ عالم فرماتاہے: اُنہوں نے اندررحمت ہے اور باہر عذاب ہے ۔یعنی مومنین ساکنین ِ شہر کی طرح اس باغ کے اندر ہیں اورمنافقین بیگانوں اوراجنبیوں کی طرح صحرائی حصّہ میں ہیں ۔اس سے پہلے وہ ایک ہی معاشرہ میں اورایک دوسرے کے ساتھ زندگی بسرکرتے تھے لیکن مختلف عقائد و اعمال کی ایک عظیم دیوارانہیں ایک دوسرے سے جُدا کیے ہوئے تھی ۔قیامت میں یہی معنی مجسّم ہوجائیں گے ۔رہی یہ بات کہ یہ دروازہ کِس لیے ہے ، ممکن ہے اس لیے ہوکہ منافقین اس دروازہ سے جنّت کی نعمتوں کودیکھیں اورحسرت وافسوس سے دوچار ہوں ۔ یایہ کہ وہ افراد جن کے گناہ کم ہیں وہ اصلاح کے بعد وہاں سے گُزر جائیں اورمومنین کے پاس آ جائیں لیکن یہ دیوار اس طرح کی نہیںہے کہ جس پر سے آواز نہ گُزر سکے ۔اس لیے بعد والی آ یت میں مزید فرماتاہے : انہیں پُکار کر کہیں گے کیاہم تمہارے ساتھ ہی تھے (یُنادُونَہُمْ أَ لَمْ نَکُنْ مَعَکُم) ۔ہم دُنیا میں بھی تمہارے ساتھ ایک ہی معاشرہ میں زندگی بسرکرتے تھے اوریہاں بھی تمہارے ساتھ ہی تھے ۔ کیا ہوا کہ تم اچانک ہم سے الگ ہوگئے اور جو ارِ رحمت الہٰی میں پہنچ گئے اور ہمیں عذاب کے چنگل میں چھوڑ گئے ۔تو وہ جوب میں کہیں گے کہ ہاں ہم اکھٹے ہی تھے ۔( قالُوا بَلیٰ)ہرجگہ اکھٹے تھے ،کوچہ وبازار میں ،سفرو حضر میں ، کچھ ایک دوسرے کے ہمسائے تھے یہاں تک کہ کبھی ایک ہی گھرمیں رہتے تھے لیکن عقیدہ و عمل کے اعتبار سے جُدا بنالیاتھا اوراصول وفروع میں تم حق سے بیگانہ تھے ۔اس کے بعدمزید فرماتاہے ۔
تم بڑی بڑی خطاؤں میںگرفتار تھے منجملہ دیگرخطاؤں کے:
١۔ تم نے راہ ِ کفر کے عبور کرنے کی وجہ سے اپنے آپ کوفریب دیااورہلاک ہوئے (ْوَ لکِنَّکُمْ فَتَنْتُمْ أَنْفُسَکُم) ۔
٢۔ تم پیغمبر کی موت ، مسلمانوں کی فنا اوردین ِ اسلام کی بساط اُلٹنے کے انتظار میں تھے ( ْ وَ تَرَبَّصْتُمْ ) ۔ا س کے علاوہ ہرمثبت کام کے انجام دینے اورہر حرکتِ صحیح کے موقع پرصبر اوانتظار کی حالت میں رہتے تھے اوراس کی وجوہات بیان کرتے تھے ۔
٣۔ ہمیشہ قیامت ،پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی دعوت ِ اسلام اورقرآن کی حقانیت کے بارے میں شک وشبہ میں مبتلا رہتے تھے (وَ ارْتَبْتُم) ۔
٤۔تم ہمیشہ لمبی چوڑی آرزوؤں میں اسیر رہتے ، ایسی آرزوئیں جنہوں نے کبھی تمہارا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ،یہاں تک کہ خداکی طرف سے تمہاری موتک کا فرمان آن پہنچا ۔(ْ وَ غَرَّتْکُمُ الْأَمانِیُّ حَتَّی جاء َ أَمْرُ اللَّہ) ۔ہاں ان آرزوؤں نے تمہیں ایک لمحے کے لیے بھی صحیح غوروفکر کی مہلت نہیں دی، تم خواب وخیال کی حالت میں میں مستغرق تھے اور توہمارت کے عالم میں زندگی بسرکررہے تھے اورمادّی مقاصد اورشہوات کے حصول کی آرزوتم پرغالب تھی ۔
٥۔ ان تمام چیزوں سے قطع نظر، شیطان فریب کار جس نے تمہارے وجود میں اپناٹھکانہ مضبُوط طورپر بنارکھاتھا ، اس نے تم کودھوکہ دیا۔(ِ وَ غَرَّکُمْ بِاللَّہِ الْغَرُورُ) ۔اس نے وسوسوں کے ذریعے تمہیں مغرور کیا۔کبھی دنیا کوتمہارے سامنے جاودانی بناکر پیش کیااور قیامت کوایک بُھولی ہوئی چیز ، بتایا ، کبھی تمہیں رحمت ِ خُدا کے سلسلہ میں مغرور کیا ،کبھی وجود ِ پروردگار کومشکوک بنایا ، یہ پانچ عوامل تھے جنہوں نے باہم مِل کرتمہاری راہ فکر وعمل کوہماری راہ فکر وعمل سے بالکل جُداکردیا(فتنتم )کامادّہ فتنہ ہے ۔اس کے مختلف معانی ہیں آزمائش وامتحان ، فریب وہی ،بلاوعذاب ،ضلالت وگمراہی او رشِرک وبُت پرستی ،یہاں اخری دومعانی زیادہ مناسب ہیں تربصتمکامادّہ تربصہے ۔اس کے معنی میں انتظار کرناچاہے نعمت کاانتظار ہویامصیبت کی فراوانی کا۔یہاں زیادہ ترپیغمبر کی موت اوراسلام کے خاتمہ کاانتظار مراد ہے ۔گناہ سے توبہ اورہرقسم کے کارِ خیر کے انجام دینے کے بارے میں مختلف بہانے بنانے کے معنی میں بھی ہے (وارتبتم)ریب کے مادّہ سے ہرایسے شک اور تردّد کے معنی میں ہے جس کے چہرہ سے بعد میں پردہ اُٹھ جائے ۔یہاں زیادہ تر قیامت اورقرآن کی حقانیت کے بارے میں شک کرنے کے معنی میں ہے ۔اگرچہ آ یت میں استعمال ہونے والے الفاظ کامفہوم وسیع ہے لیکن عنوانات کی ترتیب اس طرح ہے ۔مسئلہ شرک ،اسلام اورپیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی عمر اختتام ، پھرقیامت میں شک ، اس کے بعد آرزوؤں اور شیطان کے دیے ہوئے فریب کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بداعمالیاں اس بناپر یہ پہلے تین قسم کے جملے اصول ِدین میں سے اوّل تین اصولوں کے بارے میں ہیں اورآخری دو فروغ ِ دین سے متعلق ہیں،آخرکار مؤ منین ایک صُورت ِ حال میں منافقین کومخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں: آج کے دن تم سے کوئی تاوان یاجرمانہ وصول نہیں کیاجائے گا کہ تم عذاب ِ الہٰی سے نجات پاؤ (فَالْیَوْمَ لا یُؤْخَذُ مِنْکُمْ فِدْیَة) ۔ اور یہ کفّار ہی سے ( وَ لا مِنَ الَّذینَ کَفَرُوا ) ۔اس طرح کفّار کی قسمت بھی منافقوں جیسی ہے ،یہ سب کے سب اپنے گناہوں اور بداعمالیوں میں اوران کی نجات کاکوئی امکان نہیںہے ، پھرفرماتاہے : تمہاری جگہ آگ ہے (مَأْواکُمُ النَّارُ) ۔ اورتمہارامولا سرپرست بھی وہی جہنم ہے (ہِیَ مَوْلاکُمْ)(٣) ۔
اورکیا ہی بُری جگہ ہے ( وَ بِئْسَ الْمَصیر) ۔ دنیا میں انسان عام طورپر سزاؤں سے بچنے کے لیے یا تو مالی نقصان برداشت کرتاہے یاپھر کسی مددگاراورسفارش کرنے والے سے اعانت کاطلب گارہوتاہے لیکن آخرت میں کفّاراورمنافقین کے لیے ان دونوں میں سے کچھ نہیں ہے ۔قیامت اصولی طورپر وہ تمام مادّی وسائل واسباب بیکارہوجائیں گے جواس دنیامیں حصول ِ مقاصد کے لیے کارآمد ہوتے ہیں۔ وہاں رشتے منقطع ہوجائیں گے جیساکہ سورہ بقرکی آ یت ١٦٦ میں ہم پڑھتے ہیں ( وَ تَقَطَّعَتْ بِہِمُ الْأَسْبابُ)اس دن نہ لین دین ہیاورنہ دوستی کارابط (یَوْم لا بَیْع فیہِ وَ لا خُلَّة) (بقرہ ۔٢٥٤) نہ کوئی عوض لیاجائے گا ( وَ لا یُؤْخَذُ مِنْہا عَدْل) (بقرہ ۔ ٤٨) اور نہ کوئی شخص اپنے دوست کی فریاد کوپہنچے گا (یَوْمَ لا یُغْنی مَوْلًی عَنْ مَوْلًی شَیْئاً)(دخان۔ ٤١) نہ منصوربے اور بہانے کام آئیں گے (یَوْمَ لا یُغْنی عَنْہُمْ کَیْدُہُمْ شَیْئاً )(طور۔ ٤٥) نہ نسب اور رشتہ داری کارابط کسی کام آئے گا (فَلا أَنْسابَ بَیْنَہُمْ یَوْمَئِذٍ)(مومنون۔١٠١) ۔ خلاصہ یہ ہے کہ تمام لوگ اپنے اعمال میں گرفتار اوراپنے افعال میں گروی ہیں (کُلُّ نَفْسٍ بِما کَسَبَتْ رَہینَة)(مدثر۔ ٣٨) ۔اس طرح قرآن واضح کرتاہے کہ اس دن نجات کاواحد ذ ریعہ ایمان اورعمل ِ صالح ہے ،یہاں تک کہ شفاعت کادائرہ بھی مُدود ہے ۔شفاعت صرف ان کے لیے ہے جومذکورہ دونوں صفتوں میں سے کچھ حصّہ اپنے پاس رکھتے ہوں نہ کہ وہ لوگ جو ایمان و عمل صالح سے بالکل بیگانہ ہیں اورجنہوں نے خدااوراس کے اولیاسے اپنا رشتہ بالکل منقطع کررکھاہے ۔
١۔تفسیر نورلثقلین،جلد ٥،صفحہ ٢٤١،حدیث ٦٠۔
٢۔""انظرونا"" کامادہ نظر ہے جس کے معنی ہیں سوچ بچار کرنا،کسی شے کامشاہدہ کرنایاا دراک کرنا، کبھی تامّل یاجستجو کے معنی میں بھی آ تاہے ۔ جب الیٰ کے ساتھ متعدی ہو توکسی چیز پرنظر ڈالنے کے معنی میں ہے ۔اورجب فی کے ساتھ متعدی ہوتو تامّل وتدبر کرنے کے معنی میں ہے اور جب حرف جر کے بغیر متعدی ہو اور ہم کہیں کہ نظرتہ والنظرتہ وانتظرتہ توتاخیر کرنے یا انتظار کرنے کے معنی میں ہے ۔
٣۔مو لی یہاں ہوسکتاہے کہ ولی وسرپرست کے معنی میں ہو یااس چیزاور شخص کے معنی میں ہو جوانسان کے لیے اہمیّت رکھتی ہو۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma