کیایہ سب درسِ عبرت کافی نہیں ہیں؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 22

یہ آ یات اسی طرح انہیں مطالب کوجاری رکھے ہوئے ہیں، جوگزشتہ کتب ،صحفہ ابراہیم وموسیٰ سے نقل ہوئی ہیں، گزشتہ آ یات میں دس مطالب دوحصوں میں بیان کیے گئے ہیں ،پہلا حصہ ہرشخص کے اپنے اعمال کے لیے مسئولیت اور ذمہ داری کے بارے میں ہے ،اور دوسراحصہ تمام خطوط کے پروردگارتک منتہی ہونے کے بارے میں گفتگو کرتاہے ،اور زیربحث آیات میں ، جوصرف ایک ہی مطلب کوبیان کررہی ہے وہ گزشتہ چار اقوام میں سے چارقوموں کے عذاب اور درد ناک ہلاکت کی بات کرتی ہے ،وہ ان لوگوں کے لیے ایک تنبیہ ہے جوگزشتہ احکام سے رو گردانی کرتے ہیںاور مبداء ومعاد پرایمان نہیں رکھتے (١) ۔
پہلے فرماتاہے، کیاانسان کواس بات کی خبرنہیں ہے کہ گزشتہ کتب میں یہ آ یاہے ، کہ خدا نے پہلی قوم عاد کوہلاک کردیا ؟(وَ أَنَّہُ أَہْلَکَ عاداً الْأُولی) ۔
قوم عاد کی توصیف الاولیٰ (پہلی) کے ساتھ یاتواس قوم کی قدامت کی بناپر ہے ،جیساکہ عربوں کے درمیان معمول ہے ،کہ ہرقدیم چیزکو عادی کہتے ہیں ۔اور یا اس بناپر ہے کہ تاریخ میں عاد نامی دوقومیں ہوئی ہیں ،اورمشہور قوم جن کے پیغمبر ہود علیہ السلام تھے وہی پہلی عاد ہے (٢) ۔
اس کے بعد مزید کہتاہے : اسی طرح خدا نے قوم ثمود کوان کی سرکشی کی بناپر ہلاک کیااوران میں سے کسی کوباقی نہ چھوڑا(وَ ثَمُودَ فَما أَبْقی) ۔
اس کے بعد قوم نوح کے بارے میں فرماتاہے :اوران سے پہلے قوم نوح کوبھی ہم نے ہلاک کیا (وَ قَوْمَ نُوحٍ مِنْ قَبْلُ) ۔
کیونکہ وہ سب سے زیادہ ظالم ،اور سب زیادہ سرکشی کرنے والے تھے (انَّہُمْ کانُوا ہُمْ أَظْلَمَ وَ أَطْغی) ۔
کیونکہ ان کے پیغمبر نوح نے تمام انبیاء کی نسبت ، بہت طویل مدت تک انہیں تبلیغ کی تھی ، لیکن اس کے باوجود تھوڑی سی تعداد کے سواان کی دعوت کوکسی نے قبول نہ کیا، اور شرک وبت پرستی اور نوح کی تکذیب اور آزار پہنچا نے میں حد سے زیادہ سختی کی ، جیساکہ اس کی تفصیل انشاء اللہ سورئہ نوح کی تفسیر میں آ ئے گی ۔
قوم لوط چھوتھی قوم ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتاہے : خدانے قوم لوط کے زیرو زبرشدہ شہروں کوزمین پردے مارا (وَ الْمُؤْتَفِکَةَ أَہْوی) ۔
ظاہر میں ایک شدید زلزلہ نے ان آ بادیوں کو آسمان کی طرف پھینک دیااور پھر سرنگوں کرنے زمین پرپٹخ دیا، اور روایات کے مطابق جبرئیل نے انہیں خدا داد قوت کے ساتھ زمین سے اکھاڑ کر اوندھے منہ زمین پردے مارا ۔
اس کے بعد انہیں ایک سنگین عذاب کے ساتھ ڈھانپ لیا (فَغَشَّاہا ما غَشَّی)(٣) ۔
ہاں !آسمانی پتھروںکی ایک بارش ان پربرسی اوران سارے ڈولتے ہوئے شہروں کوپتھروں کے ایک ڈھیر کے نیچے دفن کردیا ۔
یہ ٹھیک ہے کہ اس آ یت اوراس سے قبل کی آ یات میں قوم لوط کے نام کی تصریح نہیں ہوئی ، لیکن عام طورپر مفسرین نے یہاں بھی اور سورئہ توبہ کی آیت ٧٠ اور سورئہ حاقہ کی آ یت ٩ میں بھی جہاںمؤ تفکات کی تعبیر ہوئی ہے ،یہی معنی سمجھے ہیں ۔اگرچہ بعض نے یہ احتمال دیاہے کہ یہ تمام بلادیدہ اورمصیبت زدہ درہم برہم شہروں کواپنے اندر لے لیتی ہے ، لیکن قرآن کی دوسری آ یات اس چیز کی جومشہور مفسرین سمجھے ہیں تائید کرتی ہیں ۔
سورئہ ہود کی آ یت ٨٢ میں آ یاہے : فَلَمَّا جاء َ أَمْرُنا جَعَلْنا عالِیَہا سافِلَہا وَ أَمْطَرْنا عَلَیْہا حِجارَةً مِنْ سِجِّیلٍ مَنْضُود: جس وقت ہمارافرمان آپہنچا تواس شہرو دیار کو زیرو زبرکردیا ، اور پتھروں اورپتھریلی مٹی کی جوتہ بہ تہ جمی ہوئی تھی ان پر بارش کردی ۔
تفسیر علی بن ابراہیم میں آیاہے کہ مؤ تفکہ (زیروزبر شدہ شہر) بصرہ کاشہرہے ،کیونکہ ایک روایت میں آیاہے کہ امیر المؤ منین علی علیہ السلام نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے فر مایا:
یااھل البصرة ویااھل المؤ تفکة ویا جند المرأة واتباع البھیمة :
اے ہل بصرہ ،اے زیر وزبر شدہ زمین کے رہنے والو!اے عورت کے لشکر،اے اونٹ کی پیروی کرنے والو!(جنگ جمل کی طرف اشارہ ہے جس کی کماندا ربی بی عائشہ تھیں اور بصرہ کے لوگ ان کے پیچھے چل پڑے تھے )(٤) ۔
لیکن یہ معلوم ہے کہ امیر المومنین علی علیہ السلام کے کلام میں یہ تعبیر ایک قسم کی تطبیق کے عنوان سے ہے نہ کہ تفسیر کے طور پر ، شاید اس زمانے میں اس شہر کے لوگ اخلاق یاخدائی عذاب کے لحاظ سے قوم لوط کے ساتھ مشابہت رکھتے تھے ۔
اس بحث کے آخر میں ان نعمتوں کے بارے میں جوگزشتہ آیات میں بیان ہوئی تھیں اشارہ کرتے ہوئے ایک استفہام انکاری کی صورت میں فرماتاہے : تجھے اپنے پر وردگار کی نعمتوں میں سے کونسی نعمت میں شک ہے (فَبِأَیِّ آلاء ِ رَبِّکَ تَتَماری) ۔
کیانعمت حیات میں ، یا اصل نعمت خلقت میں، یا اس نعمت میں کہ خداکسی کودوسرے کے جرم کی سزانہیں دیتا ،خلاصہ یہ کہ جوکچھ گزشتہ صحیفوں میں آ یاہے ،اورقرآن میں بھی اس پرتاکید ہوئی ہے ا ن میں سے کسی میں تجھے شک ہے ؟
کیاتم اس نعمت میں ، کہ خدانے تمہیں گزشتہ اقوام کے عذابوں سے بچائے رکھاہے ،اوراپنی عفود درگذر اوررحمت کو تمہارے شامل حال کیاہے ،شک کرتے ہو؟
یانزول قرآن کی نعمت اور رسالت وایمان اورہدایت کے مسئلہ میں تمہیں شک ہے؟
یہ ٹھیک ہے کہ اس آ یت میں مخاطب پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات ہے لیکن اس کامفہوم سب کوشامل ہے ،بلکہ ہدف اصلی زیادہ تر دوسرے افراد ہی ہیں ۔
تتمارٰی تماری کے مادہ سے (محاجہ جو شک وتردید سے توأم ہو) کے معنی میں ہے (٥) ۔
الٰائ جمع ألا یاالی (بروزن فعل )نعمت کے معنی میں ہے ،اگرچہ بعض ایسے مطالب ،جوگذشتہ آ یات میں آ ئے ہیں ،جیسے کہ دوسری قوموں کے عذاب اور ہلاکت نعمت کے مصداق نہیں ہیں، لیکن اس لحاظ سے کہ خدانے مسلمانوں کو ،بلکہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کے کفارتک کو بھی ، ان امور سے محفوظ رکھاہے ،ایک عظیم نعمت ہوگی ۔
١۔ اس بات پر توجہ رکھیئے کہ یہ گیارہ مطالب سب کے سب "" ان "" کے ساتھ شروع ہوتے ہیں،جن میں سے پہلا آیت ٣٨ "" أَلاَّ تَزِرُ وازِرَة وِزْرَ أُخْری"" اورآخری ""وَ أَنَّہُ أَہْلَکَ عاداً الْأُولی "" ہے ۔
٢۔""مجمع البیان "" "" روح المعانی ""و"" تفسیر فخر رازی"" ۔
٣۔""ماغشّٰی""میں ""ما""ممکن ہے مفعول ہویافاعل جیسے والسماء ومابناھالیکن پہلا احتمال آ یت کے ظاہر کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ ہے پہلی صورت میں اس جملہ کامعنی وہی ہے جوہم نے اوپر بیان کیااور دوسری صورت میں معنی اس طرح ہے "" وہ خدا جس نے عذاب کا پردہ ان پر بھیجا جس نے انہیں ڈھانپ لیابہر حال یہ تعبیر کسی چیز کی عظمت وشدت کے بیان کے سلسلہ میں ذکر ہوتی ہے ۔
٤۔""تفسیر صافی "" زیربحث آیات کے ذیل میں ۔
٥۔ اگرچہ باب "" تفاعل"" عام طورپر ایسے موقعوں میں استعمال ہوتاہے ،جب کوئی فعل دوافراد سے ایک دوسرے کے مقابلہ میں صادر ہو لیکن یہاں صرف ایک ہی شخص کے فعل کی صورت میں ذکرہواہے جو یاتوتاکید کی بناپر ہے یانعمتوں کے موارد کے تعدد کی بناپر (غورکیجئے) ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma