ہرشخص اپنے اعمال کاذمہ دار ہے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 22
گزشتہ آ یات میں اس سلسلہ میں گفتگو تھی کہ خدابد کاروں کوان کے برے کاموں کے بدلے میں سزا اور عذاب کرے گا اورنیکوکاروںکواجردے گا،چونکہ ممکن ہے بعض یہ تصور کرلیں کہ کسی کوکسی دوسرے کے بدلے میں بھی سزاہوجاتی ہے ،یاکوئی دوسرے کے گناہ اپنی گردن پر لے لیتاہو ،تویہ آ یات اس توہم کی نفی میںآ ئی ہیں، اوراس اہم اسلامی اصل کی کہ ہرشخص کے اعمال کانتیجہ صرف اسی کی طرف لوٹتاہے تشریح کرتی ہیں ۔
پہلے فرماتاہے: کیا تونے اس شخص کودیکھاہے جس نے اسلام( یاانفاق) سے منہ پھیر لیاہے (أَ فَرَأَیْتَ الَّذی تَوَلَّی) ۔
اورتھوڑاسامال اورانفاق (یامزیدمال دینے سے ) ہاتھ روک لیا (اس گمان سے کہ دوسرااس کے گناہ کے بوجھ کواپنے کندھے پراٹھاسکتاہے)(وَ أَعْطی قَلیلاً وَ أَکْدی)(١) ۔
کیاوہ علم غیب رکھتاہے اوروہ یہ جانتاہے کہ دوسرے اس کے گناہوں کواپنے کندھے پرلے سکتے ہیں (أَ عِنْدَہُ عِلْمُ الْغَیْبِ فَہُوَ یَری) ۔
قیامت کے دن سے پلٹ کرکون آ یاہے اوران کے لیے یہ خبرلایاہے کہ لوگ رشوت لے کر دوسروں کے گناہ اپنی گردن پرلے سکتے ہیں؟یاکون شخص خداکی طرف سے آ یاہے اورانہیں یہ خبر دی ہے کہ خدا اس معاملہ پرراضی ہے ؟ کیا اس کے سوا بھی کوئی اور بات ہے کہ انہوںنے کچھ ادھام دل سے گھڑ لیے ہیں، اوراپنی ذمہ داریوں سے فرار کرنے کے لیے انہوں نے خود کوان اوہام کے تانے بانے میں پھنادیاہے؟
اس شدید اعتراض کے بعد، قرآن ایک اصل کلی کوجو باقی آسمانی دینوں میں بھی آ ئی ہے پیش کرتے ہوئے اس طرح کہتاہے :کیاوہ شخص جس نے ان خیالی وعدوں پر انفاق(یاایمان) سے ہاتھ اٹھالیاہے ،اور وہ یہ چاہتا ہے کہ مختصر سامال ہے ادا کرکے خود کوخدا ئی عذاب سے رہائی دلالے : کیاوہ اس سے جو موسیٰ کی کتابوں میں نازل ہوا ہے باخبرنہیں ہواہے ؟ (أَمْ لَمْ یُنَبَّأْ بِما فی صُحُفِ مُوسی) ۔
اواسی طرح جوکچھ ابراہیم کی کتاب میں نازل ہواہے وہی ابراہیم جس نے اپنی ذمہ دار ی کومکمل طورپر پورا کیا ہے (وَ ِبْراہیمَ الَّذی وَفَّی)(٢) ۔
وہی عظیم پیغمبرجس نے خدا کے تمام عہد اور پیمانوں کوپوراکیا، اس کے حق رسالت کو اداکیا، اوراس کے دین کی تبلیغ کے سلسلہ میںکسی مشکل،تہدید اورآ زار سے ہراساں نہیں ہوا، وہی شخص جو کئی امتحانات سے گزر ا ،یہاں تک کہ اپنے بیٹے کو خداکے حکم سے قربانگاہ میں لے گیا اوراس کے گلے پرچھری رکھ دی ، اوران تمام امتحانوں سے سربلند اور سر فراز ہو کرباہر آ یا، اور خدانے اسے مخلوق کی رہبری و امامت کابلند مقام عطافر مایاجیساکہ سورئہ بقرہ کی آ یت ٢٤ میں آ یاہے : وَ اِذِ ابْتَلی ِبْراہیمَ رَبُّہُ بِکَلِماتٍ فَأَتَمَّہُنَّ قالَ اِنِّی جاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِماما:اس وقت کویاد کرو جب خدانے ابراہیم کوچند احکام کے ذریعہ آزمایا ،اوروہ ان تمام امتحانات سے عہدہ برآ ہوئے اورانہیں مکمل کردیا توخدانے اُن سے فرمایا کہ میں تجھے لوگوں کاامام و پیشوا قرار دیا۔
بعض مفسرین نے اس آ یت کی وضاحت میں یہ کہا ہے :بذل نفسہ للنیران ،وقلبہ للرحمن ،وولدہ للقربان ومالہ اللا خوان: براہیم نے راہ خدا میں اپنانفس آگ کے حوالے کردیا، اور اپنادل خدائے رحمن کے لیے اوراپنا بیٹا قربانی کے لیے اور اپنا مال بھائیوں اور دوستوں کے لیے خرچ کیا(٣) ۔

کیا اسے یہ خبر نہیں دی گئی کہ ان تمام کتب آسمانی میں یہ حکم نازل ہواہے کہ کوئی شخص دوسرے کے گناہ کابوجھ اپنے دوش پرنہیں لیتا ؟(أَلاَّ تَزِرُ وازِرَة وِزْرَ أُخْری) ۔
وزر سے مراد وہ انسان ہے جوگناہ کے بوجھ کواٹھاتا ہے (٤) ۔
اس کے بعد مزید توضیح کے لیے کہتاہے: کیا اسے اس بات کی خبرنہیں ہے کہ ان آسمانی کتابوں میں یہ آ یاہے کہ انسان کے لیے اس کی سعی اورکوشش کے علاوہ کوئی حصہ نہیں ہے (وَ أَنْ لَیْسَ لِلِْنْسانِ ِلاَّ ما سَعی)(٥) ۔
سعیٰ اصل میں تیزی کے ساتھ راستہ چلنے کے معنی میں ہے ،جودوڑ نے کے مرحلہ تک نہ پہنچا ہو، لیکن عام طورپر یہ لفظ سعی وکوشش کے معنی میں استعمال ہوتاہے ،کیونکہ کاموں میں سعی و کوشش کے معنی میں استعمال ہوتاہے ،کیونکہ کاموں میں سعی و کوشش کے وقت انسان تیزحرکات انجام دیتاہے ،چاہے وہ نیک کام ہویابُرا ۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ وہ یہ نہیں فرماتا، کہ انسان کے حصہ میں وہ کام ہے جواس نے انجام دیاہے ،بلکہ فرماتاہے،کہ وہ سعی وکوشش جواس نے کی ہے ،یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اہم چیزسعی وکوشش ہے ،چاہے انسان وقتی طورسے اپنے مقصد اورمقصود تک نہ پہنچے ،کیونکہ اگراس کی نیت نیک ہے توخدااس کواچھا اجر دے گا ،کیونکہ وہ تو نیتوں اور ارادوں کاخریدارہے ،نہ کہ صرف انجام شدہ کاموں کا ۔
اورکیا اسے اس بات کی خبرنہیں ہے کہ اس کی سعی وکوشش عنقریب دیکھی جائے گی ؟(وَ أَنَّ سَعْیَہُ سَوْفَ یُری) ۔
نہ صرف اس سعی وکوشش کے نتائج ،چاہے وہ خیر کی راہ میں ہوں یاشرکی راہ میں ،بلکہ خود اس کے اعمال اس دن اس کے سامنے آشکار ہوں گے ،جیساکہ ایک دوسری جگہ فرماتاہے ،:یَوْمَ تَجِدُ کُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَیْرٍ مُحْضَرا: وہ دن جس میں ہرشخص ان نیک اعمال کوجنہیں اس نے انجام دیا ہے حاضر پائے گا (آل عمران،٣٠) ۔
اور قیامت میں نیک وبداعمال کے مشاہدہ کے بارے میں بھی سورئہ زلزال کی آ یت ٧، ٨ میں آ یاہے ۔(فَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ خَیْراً یَرَہُ،وَ مَنْ یَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَرَہ) جس شخص نے ذرہ برابر بھی خیرو نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھے گا، اور جس نے ذرہ برابر بُراکام کیا تووہ اسے بھی دیکھے گا۔
اس کے بعداس کے عمل کے لیے اسے پوری پوری جزا دی جائے گی (ثُمَّ یُجْزاہُ الْجَزاء َ الْأَوْفی)(٦) ۔
جزاء اوفیٰ سے مراد وہ جزا ہے جوٹھیک ٹھیک عمل کے عین مطابق ہو، البتہ یہ بات نیک اعمال کے سلسلہ میں تفضل الہٰی کے ساتھ دس گنا یاگئی ہزار گنا سے اختلاف نہیں رکھتی ، اوریہ جو بعض مفسرین نے جزاء اوفیٰ کوحسنات کے بارے میں زیادہ اجر کے معنی میں لیاہے ،صحیح نظر نہیں آ تا ،کیونکہ یہ آ یت گناہوں کوبھی شامل ہے ،بلکہ آ یت کی اصلی گفتگو ہی وزر اورگناہ کے بارے میں ہے (غورکیجئے ) ۔
۱۔"" اکدٰی"" اصل میں"" کدیہ"" (بروزن حجرہ)زمین کی سختی اور صلابت کے معنی میں ہے اس کے بعد ممسک اوربخیل لوگوں کے لیے استعمال ہونے لگا ۔
٢۔"" وفی "" "" توفیہ"" کے مادہ سے ،بذل اورمکمل ادائیگی کے معنی میں ہے ۔
٣۔ "" روح البیان"" جلد ٩ ،صفحہ٢٤٦۔
٤۔"" وازرة "" کامؤ نث ہونااس بناپر ہے کہ یہ نفس کی صفت ہے جومحذوف ہواہے ،اوراسی طرح اخرٰی کامؤ نث ہونابھی ۔
٥۔""ماسعیٰ""میں ""ما""مصدر یہ ہے ۔
٦۔"" یجزی"" کانائب فاعل ایک ضمیر ہے جو"" انسان "" کی طرف لوٹتی ہے اوراس سے متصل ضمیر"" عمل "" کی طرف لوٹتی ہے حرف جرکے حذف کے ساتھ اورتقدیر میں اس طرح تھا: ثُمَّ یُجْزی الانسان بعملہ (اوعلی عملہ) الْجَزاء َ الْأَوْفی:""زمخشری"" "" کشاف""میں کہتا ہے ،ممکن ہے کہ تقدیر میں حرف جرنہ ہو، کیونکہ "" یجزی العبد سعید"" کہا جاتاہے (لیکن وجہ رکھنی چاہیے کہ عام طورپر "" جزاہ اللہ علی عملہ "" کہاجاتاہے "" جزاہ اللہ عملہ"" صحیح نہیں ہے)اور"" الجزاء اولافی "" کی تعبیرہوسکتاہے کہ"" تجزی"" کاایک اور دوسرامفعول ہویا مفعول مطلق ہو ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma