تفسیر

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 22

قابل توجہ بات یہ ہے کہ گزشتہ سورہ ( طورئہ طور) النجم (ستا روں) کے لفظ پرختم ہوئی تھی اوریہ سورہ النجم (ستارہ) کے لفظ سے شروع ہورہی ہے ،جس کی خدا نے قسم کھائی ہے ،فرماتاہے ،: قسم ہے ستارے کی جس وقت وہ غروب کرتاہے (وَ النَّجْمِ ِاذہَوی) ۔
اس بارے میں کہ یہاں النجم سے کیا مراد ہے ؟ مفسر ین نے بہت سے آراد یئے ہیں، اورہرایک نے ایک الگ تفسیر پیش کی ہے ۔
ایک جماعت اسے قرآن مجید کی طرف اشارہ سمجھتی ہے ،چونکہ یہ بعدوالی آ یت کے مناسب ہے جووحی کے بارے میں ہیں، اور نجم کی تعبیر اس بناپر ہے کہ عرب اس چیزکو جوتد ریجاً اورمختلف وقفے سے انجام پائے ،نجوماً سے تعبیر کرتے ہیں(قرضوں کی اقساط اوراس قسم کے دوسرے امور میں نجوماً کی تعبیر بہت زیادہ استعمال ہوتی ہے) اور چونکہ قرآن ٢٣ سال کے عرصہ میں اورمختلف ٹکڑوں اورحصوں میں پیغمبراسلام(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پرنازل ہواہے ،لہذا نجم کے عنوان سے اس کاذکر ہواہے ،اور اذاھویٰ سے مراد اس کا رسول خدا کے قلب پاک پرنزول ہے ۔
ایک دوسری جماعت نے اسے آسمان کے ایک ستارہ مثلاً ثریا (١)یا شعری(٢) کی طرف اشارہ سمجھا ہے ،کیونکہ یہ ستارے خاص اہمیت کے حامل ہیں ۔
بعض نے یہ بھی کہاہے کہ النجم سے مراد وہ شہاب ہیں جن کے ذ ریعہ شیاطین کوآسمان کے منظر سے بھگا یاجاتاہے ،اور عرب ان شہابوں کو نجم کہتے ہیں ۔
لیکن ان چاروں تفسیروں میں سے کوئی ایک بھی واضح دلیل نہیں رکھتی ہے ،بلکہ آیت کا ظاہر ، جیساکہ لفظ النجم کے اطلاق کاتقاضا ہے ،آسمان کے تمام ستاروں کی قسم ہے، جو خدا کی عظمت کی ظاہر و آشکارا نشانیوں میں سے ہیں ،اورعالم آفرینش کے عظیم اسرارمیں سے ہیں، اور پروردگار کی حد سے زیادہ عظیم مخلو قات میں سے ہیں ۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ قرآن جہانِ خلقت کے عظیم موجودات کی قسم کھارہاہے ،دوسری آ یات میں بھی سورج چاند اور اس قسم کی چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے ۔
ان کے غروب پرتکیہ کرنا، حالانکہ کاطلوع زیادہ پرکشش ہوتاہے ۔اس بناپر ہے کہ ستاروں کاغروب ان کے حدوث کی دلیل ہے ،اور ستارہ پرستوں کے عقیدہ کی نفی کی دلیل بھی ہے ۔جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام کی داستان میں آ یاہے :فَلَمَّا جَنَّ عَلَیْہِ اللَّیْلُ رَأی کَوْکَباً قالَ ہذا رَبِّی فَلَمَّا أَفَلَ قالَ لا أُحِبُّ الْآفِلینَ جس وقت ارت کی تاریکی نے اسے چھپا لیاتو اس نے ایک ستارہ دیکھا اورکہا: کیا یہ میراخدا ہے؟لیکن جب اس نے غروب کیاتوکہا، میںغروب کرنے والوں کودوست نہیں رکھتا(سورہ انعام۔٧٦) ۔
یہ معنی بھی قابل توجہ ہے کہ مسئلہ طلوع نجم کے لفظ کے مادہ میں موجودہے،کیونکہ مفرداتمیں راغب کے قول کے مطابق اصل نجم وہی طلوع کرنے والا ستارہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ زمین میں گیاہ کے اُگنے ،اورمنہ میں دانت کے نکلنے ،اور ذہن میں کسی نظر یہ کے پیداہونے کو نجم سے تعبیر کیاجاتاہے ۔
اس طرح سے خدانے ستاروں کے طلوع ہونے کی بھی قسم کھائی ہے ،اوران کے غروب کی بھی ،کیونکہ یہ ان کے حدوث اور قوانین ِ خلقت کے پابند ہونے کی دلیل ہے(3) ۔
لیکن آیئے دیکھتے ہیں کہ یہ قسم کس لیے کھائی گئی ہے ؟بعد والی آ یت اس طرح سے وضاحت کرتی ہے ،: ہرگز تمہارا ساتھی ( اوردوست محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)منحرف نہیں ہوا ہے، اوراس نے اپنے مقصد کوکھو یانہیں ہے (ما ضَلَّ صاحِبُکُمْ وَ ما غَوی)۔
وہ ہمیشہ حق کی راہ میں قدم اٹھاتا ہے،اوراس کے گفتار وکردار میں معمولی سابھی انحراف نہیں ہے ۔
صاحب کی تعبیرجودوست اور ہمنشین کے معنی میں ہے ،ممکن ہے اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ جوکچھ وہ کہتا ہے تمہاری محبت اوربھلائی کی بناپر ہے ۔
بہت سے مفسرین نے ضل اور غویٰکے درمیان کوئی فرق قرار نہیں دیا، اور وہ انہیںایک دوسرے کی تاکید سمجھتے ہیں،لیکن بعض کاکہنایہ ہے کہ ان دونوں کے درمیان فرق ہے ، ضلا لت یہ ہے کہ انسان کبھی مقصد کی طرف کوئی راہ ہی نہ پائے لیکن غوایبیہ ہے کہ اس کی راہ مستقیم اور غلطی سے خالی نہ ہو، پہلی کفر کی مانند ہے ،اور دوسری فسق وگناہ کی طرح ۔
لیکنراغب مفرداتمیں غی کے معنی میں کہتاہے کہ:وہ ایک ایسی جہالت ہے جو اعتقاد فاسد کے ساتھ ہو۔
اس بناپر ضلالت تومطلق جہالت ،نادانی اور بے خبری ہے لیکن غوایت ایسی جہالت ہے جوباطل عقیدے کے ساتھ ہو ، بہرحال خدایہ چاہتا کہ اس عبارت میں اپنے پیغمبرسے ہرقسم کے انحراف ،جہالت ،گمراہی اورغلطی کی نفی کرے ،اور وہ تہمتیں جو اس سلسلہ میں دشمنوں کی طرف سے آپ پر لگائی جاتی تھیں انہیں بے معنی قرار دے ۔
اس کے بعد اس مطلب کی تاکید کے لیے ،اوراس مطلب کوثابت کرنے کے لیے ،کہ وہ جوکچھ بھی کہتاہے ،خداکی طرف سے کہتاہے ،:وہ ہرگزبھی ہوائے نفس کی بناپر بات نہیں کرتا (وَ ما یَنْطِقُ عَنِ الْہَوی) ۔
یہ تعبیر اسی استد لال سے مشابہ ہے جو گزشتہ آیت میں ضلالت وغوایت کی نفی کے سلسلہ میں بیان ہوئی ہے ،کیونکہ عام طورپر گمراہیوں کاسرچشمہ ہوائے نفس کی پیروی ہی ہے ۔
سورئہ ص کی آیت ٢٦ میں آ یاہے : وَ لا تَتَّبِعِ الْہَوی فَیُضِلَّکَ عَنْ سَبیلِ اللَّہِ ہوائے نفس کی پیروی نہ کرنا کیونکہ وہ تجھے خدا کے راستہ سے بھٹکادے گا ۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اورامیر المومنین علی علیہ السلام کی مشہور حدیث میں بھی آ یاہے کہ:
امااتباع الھویٰ فیصد عن الحق
باقی رہاہوا ئے نفس کی پیروی کر ناتووہ انسان کوراہ حق سے روک دیتی ہے(4) ۔
بعض مفسرین کانظر یہ یہ ہے کہ ماجل صاحبکم کاجملہ پیغمبر سے جنون کی نفی کوظاہر کرتاہے ،اوروماغویٰکاجملہ شاعر ہونے کی نفی کوظاہرکرتاہے ،یاشعر کے ساتھ ہرقسم کے ارتباط سے ،کیونکہ سورئہ شعراء کی آ یت ٢٢٤ میںآ یا ہے کہ :وَ الشُّعَراء ُ یَتَّبِعُہُمُ الْغاوُون شعراو ہی تو ہیں جن کی گمراہ لوگ پیروی کرتے ہیں، (خیال پرواز اور بے مقصد شعرکہنے والے)اور وَ ما یَنْطِقُ عَنِ الْہَوی کاجملہ کہانت کی نسبت کی نفی ہے ،کیونکہ کاہن حرص پرست اورہوس باز لوگ ہوتے ہیں ۔
اس کے بعد پوری صراحت کے ساتھ کہتا ہے: وہ جوکچھ لے کر آیا ہے وہ صرف وحی ہے جوخداکی جانب سے اس کی طرف بھیجی گئی ہے (انْ ہُوَ ِلاَّ وَحْی یُوحی) ۔
وہ اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کرتا، اورقرآن اس کی فکر کانتیجہ نہیں ہے،وہ سب کچھ خدا کی طرف سے ہے ،اوراس دعوے کی دلیل خوداسی میں چھپی ہوئی ہے ،آیات قرآنی کااچھی طرح مطالعہ اس بات کی گواہی دیتاہے ،کہ کوئی بھی انسان ،چاہے وہ کتنا ہی عالم ومفکر ہوکجاوہ انسان جس نے کچھ لکھاپڑھانہ ہو، اوراس نے ایک ایسے ماحول پرورش پائی ہو، جوجہالت وخرافات سے پُر ہوہرگز بھی یہ قدرت نہیں رکھتا کہ وہ ایسی مطالب سے بھرپور باتیں بیان کرے ،جوصدیاں گزرنے کے بعد بھی مفکرین کے دماغ کے لیے الہام بخش ہوں ، اوروہ صالح ، سالم، مومن اورپیش رفت کرنے والے معاشرے کے بنانے کی بنیادیں سکیں ۔
ضمنی طورپر اس با ت پر توجہ رکھنا چاہیئے کہ یہ گفتگو صرف آیات قرآنی کے بارے میں نہیں ہے ، بلکہ گزشتہ آ یات کے قرینہ سے سنت پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)بھی اس میں شامل ہے ،کیونکہ وہ بھی وحی الہٰی کے مطابق ہے ، یہ آ یت صراحت کے ساتھ کہتی ہے کہ وہ ہواد ہوس سے گفتگو نہیں کرتا، وہ جوکچھ بھی کہتاہے وحی سے کہتاہے ۔
ذیل کی جالب حدیث اس مدعا کادوسراشاہد ہے ۔
سیوطی جواہل سنت کے مشہور علماء میں سے ہے ،تفسیر درالمنثورمیں اس طرح نقل کرتاہے؟
ایک دن رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے حکم دیاکہ تمام دروازے جوپیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی مسجد کے اندرکھلتے تھے(علی علیہ السلام کے گھر کے دروازے کے سوا)بندکردیئے جائیں،یہ امر مسلمانوں پرگراں گزرا ،یہاں تک کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا حمزہ نے اس بات کاگلہ کیا،کہ آپ نے اپنے چچا اور ابوبکروعمر وعباس کے گھرکادروازہ کس لیے بندکرا یااوراپنے چچا زاد بھائی کے گھرکا دروازہ کھلا کیوں رکھا،(اوراس کودوسروں پرترجیح کیوں دی)۔
جب پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)اس بات کی طرف متوجہ ہوئے کہ یہ بات ان پرگراں گزری ہے ، توآپ نے لوگوں کومسجد میں آ نے کی دعوت دی اورخدائی تمجید وتوحیدمیں ایک بے نظیر خطبہ ارشاد فرمایا، اس کے بعد مزید فرمایا:
ایھاالناس ماانا سدد تھا ،ولاانا فتحتھا ، ولاانا اخرجتکم واسکنتہ ،ثم قرأ ،وَ النَّجْمِ ِذا ہَوی ما ضَلَّ صاحِبُکُمْ وَ ما غَوی وَ ما یَنْطِقُ عَنِ الْہَوی ِنْ ہُوَ ِلاَّ وَحْی یُوحیٰ:
اے لوگوں نہ تو میں نے دروازوں کوبندکیا ہے ، اورنہ ہی کھولاہے نہ ہی میں نے تمہیں مسجد سے نکالاہے اورنہ ہی میں نے اُسے (علی کو) ساکن کیاہے (جوکچھ ہوا وہ فرمان الہٰی تھا )پھر آپ نے ان آیات کی تلاوت کی وَ النَّجْمِ اِذا ہَوی...انْ ہُوَ ِلاَّ وَحْی یُوحیٰ(٥) ۔
یہ حدیث پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد امیر المؤ منین علی کے تمام امت اسلامی کے درمیان مقام والا کوبیان کرتی ہے اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ نہ صرف پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد ات اوراقوال ہی وحی کے مطابق ہوتے ہیں بلکہ ان کے اعمال وکردار بھی اسی طرح کے ہیں ۔
١۔ "" ثریا"" ایک سات ستاروں کامجموعہ ہے جن میں چھ ظاہر ہیں اورایک بہت ہی کم نورہے ،عام طورپر لوگوں کی نظر کی طاقت جانچنے کے لیے اس کے ذ ریعہ آزمائش کرتے ہیں اس ستارہ کی قسم ہوسکتاہے اس کی ہم سے زیادہ مسافت کی بناپر ہو ۔
٢۔ "" شعری"" آسمان کاایک روشن ترین ستارہ ہے ،جس کے بارے میں ہم انشاء اللہ اسی سورہ کی آ یہ ٤٩ کے ذیل میں مزید تشریح کریں گے اس کی قسم کھانے کی رمز ممکن ہے اس لحاظ سے ہو کہ وہ حد سے زیادہ روشن ،درخشاں اور کئی خصوصیات کاحامل ہے ۔
3۔ اگربعض روایات میں"" نجم"" ذات پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تفسیر ہواہے ، اور ھویٰ ان کے شبِ معراج آسمان سے نزول ہے تووہ حقیقت میں آ یت کے بطون میں سے ایک ہے ، نہ کہ اس کاظاہر۔
4۔نہج البلاغہ کلام ٤٢۔
٥۔ تفسیر درالمنثورجلد ٦،صفحہ ١٢٢ (کچھ تلخیص کے ساتھ ) ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma