چند اهم نکات

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 22

١۔ یتساء لون سؤال کے مادہ سے ،ایک دوسرے سے سوال کرنے کے معنی میں ہے،جواس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اہل جنت میں سے تمام اپنے دوستوں سے سوال کریں گے ، اوران کے ماضی کے حالات ان سے دریافت کریں گے ،کیونکہ ان مسائل کویاد کرنا، اور ان تمام مصائب وآلام سے نجات پانا، اوران تمام نعمتوں کاحصول ،خود بھی ایک لذت ہے،ٹھیک اسی طرح سے کہ جب انسان کسی خطر ناک سفر سے لوٹتاہے ، اور امن وامان کے ماحول میں بیٹھتا ہے ، تواپنے ساتھیوں سے ان کے گذ رے ہوئے حالات کے بارے میں گفتگو کرتاہے ،اوران کے نجات پانے سے اظہار خوشی کرتاہے ۔
٢۔ مشفقین اشفاق کے مادہ سے ،جیساکہ راغب مفردات میں کہتاہے ، خوف سے ملی ہوئی توجہ کے معنی میں ہے اور جب وہ من کے لفظ سے متعدی ہوجائے تو خوف کامفہوم میں زیادہ ظاہر ہوتاہے ،اورجس وقت فی کے لفظ سے متعدی ہو تو ، تو جہ اور عنایت کامفہوم اس میں زیادہ ظاہر ہوگا۔
یہ لفظ اصل میں شفق کے مادہ سے لیاگیاہے یہ وہی روشنی ہے جوتاریکی کے ساتھ ملی ہوئی ہوتی ہے ۔
اب یہ دیکھناپڑ ے گا کہ وہ دنیامیںکس چیز کاخوف رکھتے تھے ،اور کس چیز کی طرف توجہ اورعنایت رکھتے تھے ۔
یہاں تین احتمال ہیں، جن کو ہم نے آیت کی تفسیر میں جمع کردیاہے ،کیونکہ ان کے درمیان اختلاف نہیں ہے (خدا کاخوف اوراپنی نجات کی طرف توجہ ، گھروالوں کے انحراف کاخوف اوران کی تربیت کے معاملہ پرتوجہ ، دشمنوں کاخوف اوران کے مقابلہ میں اپنی حفاظت کی طرف توجہ)اگرچہ بعد والی آ یات کی طرف توجہ خصوصاً جملہ فَمَنَّ اللَّہُ عَلَیْنا وَ وَقانا عَذابَ السَّمُومِ خدا نے ہم پراحسان کیا، اور مارڈالنے والے عذاب سے ہمیں بچالیا، سے پہلا معنی زیادہ مناسب نظر آتاہے ۔
٣۔ فی اھلنا کی تعبیر یہاں ایک وسیع معنی رکھتی ہے ،اور سب اولاد وازواج اوراحباب کوشامل ہے جواس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انسان اصولی طورپر اس قسم کی جمعیت کے درمیان ہرجگہ سے زیادہ امنیت کااحساس کرتاہے ،جب انہی کے درمیان خوف زدہ اوربیمناک ہو ، تودوسرے حالات میں تواسی کی وضع وکیفیت معلوم ہے ۔
یہ احتمال بھی ہے کہ یہ تعبیر ایسے لوگوں کی طرف اشارہ ہے ،جوغیرمومن گھر انوں میں گرفتار تھے ، یہاں تک کہ وہ خودان سے ڈرتے تھے ،لیکن اس کے باوجود ڈٹے رہے، اور لطف الہٰی پر پھروسہ کرتے ہوئے استقلال دکھایا اوران جیسے نہ بنے ۔
٤۔ سموم اس حرارت کے معنی میں ہے جو مسام بدن (وہ چھوٹے چھوٹے سوارخ جوجلد کی سطح پرہوتے ہیں) میں داخل ہوجاتی ہے ،اورانسان کوتکلیف پہنچاتی ہے یااسے ہلاک کردیتی ہے ،اور باد سموم بھی ایسی ہی ہوا کوکہتے ہیں، اور عذاب سموم بھی اسی قسم کاعذاب ہے ،سم کے لفظ کاہلاک کرنے والے مواد پراطلاق بھی ،تمام بدن میں ان کے نفوذ کی بناپر ہے ۔
٥۔ بر جیساکہ راغب مفردات میں کہتاہے کہ اصل میںخشکی کے معنی میں ہے (سمندر اور دریا کے مقابلہ میں )اس کے بعدان افراد پرجن کے نیک اعمال بہت زیادہ اوروسیع ہوں اس کااطلاق ہواہے ،اوراس پاک نام کے لیے زیادہ شائستہ اورلائق خداکی پاک ذات ہے ،جس کی نیکی اوراحسان نے تمام جہان والوں کوگھیررکھا ہے ۔
٦۔ آ یات کی جمع بندی :ہم بیان کرچکے ہیں کہ ان آیات میں اور گذشتہ آ یات میں حقیقت میں جنت کی نعمتوں کے چودہ حصّے بیان کئے گئے ہیں ۔
جنت کے باغات (جنات) اس کی گوناں گوں نعمتیں (نعیم)سروردشادمانی عذاب جہنم سے امن وامان بہشت کے ماکولات و مشروبات میں سے گواراطورپر کھاناپینا ایک دوسرے سے ملے ہوئے تختوں پر تکیہ لگاکر بیٹھنا ،حورالعین میں سے بیویاں ، مومن اولاد کاان کے ساتھ ملحق ہونا، انواع واقسام کے لذت بخش پھل انواع واقسام کے گوشت، جو کچھ وہ چائیں گے شراب طہور سے پرجام، مروارید جیسے خدمت گذار اور آخرمیں مجلس انس برپا کرکے ماضی کویاد کرنااورموجودہ حالت سے لذ ت حاصل کرنا!
ان نعمتوں کاایک حصہ تومادی پہلو رکھتاہے ،اور دوسرے حصہ میں معنوی پہلو غالب ہے ،ان سب چیزوں کے باوجود بھی جنت کی مادی اورمعنوی نعمتیں انہیں میں منحصر نہیں ہیں، بلکہ جو کچھ بیان ہوا ہے وہ صرف ان کاایک گوشہ ہے ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma