ہرشخص اپنے اعمال کے بدلہ میں گروی ہے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 22
ان مباحث کے بعد جوگزشتہ آ یات میں مجرموں کی سزاؤں اوران کے دردناک عذاب کے بارے میں گزرے ہیں ۔زیربحث آیات میں ان کے نقطہ مقابل یعنی فراواں نعمتوں اور بیکراں صلوں کے لیے جو مومنین اورپروردگار کو عطا کئے جائیں گے اشارہ کرتاہے ،تاکہ ایک واضح موازنہ میں ہرایک کی حیثیت واضح ہوجائے۔
پہلے کہتاہے ،: پرہیزگار جنت کے باغات میں فراواں نعمتوں میں مقیم ہوںگے (انَّ الْمُتَّقینَ فی جَنَّاتٍ وَ نَعیمٍ)۔
مؤ منین کی بجائے متقین کی تعبیراس لیے ہے کہ یہ لفظ ایمان کوبھی اپنے اندر لئے ہوئے ہے ،اور عمل صالح کے پہلوؤ ں کوبھی ، جیساکہ قرآن سورئہ بقرہ کی آ یت ٢ میں کہتاہے : ذلِکَ الْکِتابُ لا رَیْبَ فیہِ ہُدیً لِلْمُتَّقین اس آسمانی کتاب میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے ،اور یہ پرہیزگاروں کے لیے سبب ہدایت ہے ۔
کیونکہ اگر انسان ذمہ داری قبول کرنے ،احساس مسئو لیت اور روح حق جوئی وحق طلبی کو حامل نہ ہو، جو تقویٰ کاایک مرحلہ ہے ،تووہ کبھی بھی دین حق کی تحقیق کی کوشش نہیں کرتا ، اورقرآنی ہدایت کوقبول نہیں کرتا۔
جناب اور نعیم صیغہ جمع (باغات اور نعمتیں) کی صورت میں اور وہ بھی نکرہ کی صورت میں ،ان باغات اورنعمتوں کے تنوع اورعظمت کی طرف ا شارہ ہے ۔
اس کے بعد بہشتوں کی روح پران عظیم نعمتوں کے اثرانداز ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتاہے : وہ اس چیز سے جوان کے پروردگار نے انہیں دی ہے شاد ومسرور ہیں، اور سلسلہ میں دلپذیر باتیں کرتے ہیں (فاکِہینَ بِما آتاہُمْ رَبُّہُمْ )(١) ۔
ہاں !وہ خوشی سے اپنے ذمہ میں پھولے نہ سمائیں گے ہمیشہ آ پس میں ایک دوسرے سے مزاح کرتے رہیں گے ، اوران کے دل ہرقسم کے غم واندوہ سے خالی ہوں گے ،اوروہ حد سے زیادہ آرام وسکون محسوس کریں گے ۔
خاص طورسے یہ بات کہ :خدانے انہیں عذاب وسزا کی طرف سے مطمئن کردیاہے ، اوران کے پروردگار نے انہیں دوزخ کے عذاب سے بچالیاہے (وَ وَقاہُمْ رَبُّہُمْ عَذابَ الْجَحیمِ ) ۔
اس جملہ کے دومعانی ہوسکتے ہیں ،پہلا پروردگار کی دوسری نعمتوں کے مقابلہ میں کسی مستقل نعمت کابیان ،دوسرے یہ کہ یہ سابقہ کلام کا پچھلا حصّہ ہو، یعنی جنتی دوچیزوں سے مسرور ہوں گے ،ایک ان نعمتوں کی وجہ سے جوخدانے انہیں دی ہیں، اوردوسرے ان عذابوں کی بناء پر جنہیں ان سے دور کر دیا ہے ۔
ضمنی طورپر ربھم (ان کا پروردگار) کی تعبیر دونوں جملوں میں ،خدا کے انتہائی لطف وکرم کی طرف، اورعالم میں اس کی ربوبیت کے جاری وساری ہونے کی طرف ایک اشارہ ہے ۔
اس اجمالی اور سر بستہ اشارے کے بعد جنت میں پرہیزگاروں کی نعمتوں ،اورسر د رو شاد مانی کی تفصیل بیان کرتے ہوئے اس طرح کہتاہے : انہیں کہاجائے گا ،مزے کے ساتھ کھاؤ اورپیو(کُلُوا وَ اشْرَبُوا ہَنیئاً ) ۔
یہ سب چیز ان اعمال کی وجہ سے ہیںجنہیں تم انجام دیاکرتے تھے (بِما کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ) ۔
ہَنیئاً کی تعبیر اس بات کی طرف اشارہ کہ بہشت کی کھانے اور پینے کی چیزوں سے کسی قسم کے نامطلوب عوارض پیدا نہیں ہوتے ، اوروہ اس جہان کی نعمتوں کے مانند نہیں ہے ،جوبعض اوقات مختصر طورپر کم یازیادہ بیماری اورتکلیف پیدا کردیتی ہیں ۔
علاوہ ازیں ان کے حاصل کرنے کے لیے نہ توکوئی مشقت کرنے کی ضرورت ہے ،اورنہ ہی ان کے ختم ہونے اور تمام ہوجانے کاکوئی خوف ہے ،اوراسی بناپر یہ نعمتیں کامل طورپر گوارا اورمزہ دینے والی ہیں( ٢) ۔
مسلّمہ طورپر بہشت کی نعمتیں اپنے طورپر گوارا پرلطف اورمزید ار ہوں گی ، لیکن یہ بات کہ فرشتے جنتیوں سے یہ کہیں گے ، مزے لو اورلطف اٹھاؤ ، یہ خودایک دوسرالطف اورمزیدار بات ہے ۔
دوسری نعمت یہ ہے کہ وہ قطاروں میں بچھے ہوئے تختوں کے اوپر ایک دوسرے کے ساتھ تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے (مُتَّکِئینَ عَلی سُرُرٍ مَصْفُوفَةٍ) ۔
اوروہ دوسرے دوستوں اومومنوں کے انس کی لذت سے بہت زیادہ بہرہ ورہوں گے ،کیونکہ یہ ایک معنوی لذت ہے جوبہت سی لذتوں سے ماقوق ہے ۔
سرر جمع ہے سریر کی سرور کے مادہ سے اصل میں ان تختوں کوکہاجاتاہے جنہیں انس و سرور کی محافل کے لیے ترتیب دیتے ہیں،اوران پر تکیہ لگاکربیٹھتے ہیں ۔
مصفوفة صف کے مادہ سے اس معنی میں ہے کہ یہ تخت ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے بچھائے گئے ہیںاورایک عظیم محفلِ انس برپاکرتے ہیں ۔
قرآن کی متعدد آیات میں یہ آ یاہے کہ بہشتی تختوں کے اوپر ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھیں گے علی سرر متقا بلین (حجر ٤٧۔ صافات ۔ ٤٤) ۔
یہ تعبیر اس چیز سے برعکس نہیں جوزیربحث آیت میں آ ئی ہے، کیونکہ مجالس انس وسرور ،جن میں کوئی فرق وامتیاز نہیں ہوتا، وہاں کرسیاں ایک دوسری کے ساتھ ساتھ بھی رکھتے ہیں اورمجلس کے گرد اگر د بھی ،جوایک دوسری سے پیوستہ صفوں میں بھی ہوتی ہیں اورایک دوسری کے آمنے سامنے بھی ۔
اس کے بعد مزید کہتاہے :گوری گوری، سفید رخ، خوبصورت اورموٹی موٹی آنکھوں والی عورتوں سے ہم ان کی تزویج کریں گے(وَ زَوَّجْناہُمْ بِحُورٍ عین)(٣) ۔
یہ سب کچھ بہشتیوں کی مادی اور معنوی نعمتوں کا ایک حصہ ہیں، لیکن خداصرف انہیں پراکتفا نہیں کرے گا ،بلکہ معنوی اور مادی نعمتوں کے ایک اوردوسرے حصہ کابھی اس پراضافہ کرے گا،: جو لوگ ایمان لائے ہیں ،اوران کی اولاد نے ان کی پیروی میں ایمان اختیار کیاہے ،ہم ان کی اولاد کو بھی جنت میں ان کے ساتھ ملحق کردیںگے اور ہم ان کے عمل میں بھی کسی چیز کی کمی نہیں کریں گے (وَ الَّذینَ آمَنُوا وَ اتَّبَعَتْہُمْ ذُرِّیَّتُہُمْ بِیمانٍ أَلْحَقْنا بِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَ ما أَلَتْناہُمْ مِنْ عَمَلِہِمْ مِنْ شَیْء ٍ ) ۔
یہ بھی ایک بہت بڑی نعمت ہے کہ انسان اپنی صاحب ِ ایمان اولاد اور اپنے متعلق کوجنت میں اپنے پاس دیکھے ،اوران انس کی بناپر اُن سے لذت حاصل کر ے ،اوران کے اعمال میں سے بھی کسی چیزکی کمی نہ کی جائے ۔
آیت کی تعبیروں سے معلوم ہوتاہے کہ اس سے مراد وہ بالغ اولاد ہے جوماں باپ کے راستے میں قدم اٹھاتی ہے اورایما ن میں ان کی پیروی کرتی ہے اور دین ومذہب کے لحاظ سے ان سے ملحق ہو تی ہے ۔
ایسے افراد اگرعمل کے لحاظ سے کچھ کوتاہی اورتقصیرات بھی رکھتے ہوں تو خداان کے صالح آ باؤ اجداد کے احترام میں انہیں اوران کے مقام کو بلند کرے گا، اور انہیں بھی ان کے درجہ تک پہنچادے گا ،اوریہ والدین اور اولاد کے لیے ایک عظیم نعمت ہے (٤) ۔
لیکن مفسرین کی ایک جماعت نے یہاں ذ ریہ کوایک عام معنی میں تفسیر کیا ہے ،اس طرح سے یہ خوردسال بچوں کوبھی شامل ہے حالانکہ یہ تفسیر ظاہر آ یت کے ساتھ مطا بقت نہیں رکھتی ، کیونکہ ایمان میں پیروی بلوغ کے مرحلہ تک یااس کے نزدیک پہنچنے کی دلیل ہے ۔
مگر اس صورت میں کہ یہ کہاجائے کہ خوردسال بچے قیامت میں مرحلۂ بلوغ کوپہنچ جائیں گے ،اوران کی آزمائش ہوگی ،جب وہ اس آزمائش میں کامیاب ہوجائیں گے تووہ اسے والدین سے ملحق ہوجائیں گے ،جیساکہ کتاب کافی میں یہ معنی ایک حدیث میں منقول ہواہے کہ لوگوں نے امام علیہ السلام سے مؤ منین کے اطفال کے بارے میں سوال کیاتوآپ علیہ السلام نے فرمایا:
جب قیامت کادن ہوگاتوخداان سب کوجمع کرے گاایک آگ روشن کرے گا، اورانہیں حکم دے گا کہ وہ اپنے آپ کو آگ میں گردایں، جواس حکم پرعمل کریں گے آگ ان کے لیے سرد اور سالم ہوجائے گی ،اور وہ سعادت مند ہیں ،اور جورو گردانی کریں گے تووہ لطف خداسے محروم ہوجائیں گے (٥) ۔
لیکن یہ حدیث علاوہ اس کے کہ سند کے لحاظ سے ضعیف ہے دوسرے اعتراضات بھی اس کے متن پروارد ہوتے ہیںجن کی تشریح کی یہاں گنجائش نہیں ہے ۔
البتہ اس میں کوئی بات مانع نہیں ہے کہ چھوٹے بچے بھی والدین کے احترام میں جنت میں جائیں اوران کے پاس قرار پائیں ، گفتگو اس پر ہے کہ اوپر والی آ یت اس مطلب کی طرف ناظر ہے یانہیں؟ ہم بیان کرچکے ہیں کہ ایمان میں والدین کی پیروی کی تعبیر اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اس سے مراد بالغ اولاد ہے ۔
بہرحال چونکہ اس اولاد کا ارتقاء والدین کے درجہ تک ممکن ہے ،تواس سے یہ خیال ہوتاتھا کہ ماں باپ کے اعمال اولاد کودے دیئے جائیں گے ،لہٰذا اس کے بعد یہ بیان ہواہے کہ :وَ ما أَلَتْناہُمْ مِنْ عَمَلِہِمْ مِنْ شَیْء ہم ان کے عمل میں سے کسی چیز کی کوئی کمی نہیں کریں گے۔
ابن عباس پیغمبر گرامی اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کرتے ہیں آ پ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا:
اذا دخل الرجل الجنة سأ ل عن ابویہ وزوجتہ وولدہ فیقال لہ انھم لم یبلغوادر جتک وعملک ،فیقول رب قد عملت لی ولھم فیؤ مر بالحاقھم بہ:
جس وقت انسان جنت میں داخل ہوگا ،تووہ اپنے ماں باپ بیوی ، اور اولاد کے بارے میں پوچھ گچھ کرے گا، تواسے کہیں گے کہ :وہ تیرے درجہ ومقام اورعمل تک نہیں پہنچے ہیں، تووہ عرض کرے گا، پروردگارا!میں نے اپنے لیے بھی اوران کے لیے بھی عمل کیا تھا، تواس وقت حکم دیا جائے گاکہ انہیں بھی اس کے ساتھ ملحق کردو(٦)(٧) ۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ :آ یت کے آخر میں مزید کہتاہے : ہرشخص اپنے اعمال میں گروی اوران کے ہمراہ ہے ( کُلُّ امْرِئٍ بِما کَسَبَ رَہین ) ۔
اس بناء پر کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ پرہیزگاروں کے اعمال اوران کے صلوں میں سے کسی چیز کی کمی نہ کی جائے ،کیونکہ یہ اعمال ہر گز انسان کے ساتھ ہوں گے اور اگر خدا متقین کی اولاد کے بارے میں کوئی لطف اورمہر کرے گا ،اورانہیں جنت میں پرہیزگاروں کے ساتھ ملحق کرے گا، تو اس کایہ معنی نہیں ہے کہ ان کے اعمال کے بدلے سے کسی چیز کی کمی کرلی جائے گی ۔
بعض مفسرین نے یہاں رھین کومطلق طورپر گروی رکھے ہوئے افراد کے معنی میں لیاہے ،اوران کانظر یہ یہ ہے کہ آ یت کامفہوم یہ ہے کہ ہرانسان اپنے اعمال کے بدلے گروی رکھا ہواہے،چاہے اچھے ہوں یابُرے اوران کے مطابق ہی جزا وسزا پائے گا۔
لیکن اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ یہ تعبیرنیک اعمال کے بارے میں چنداں مناسبت نہیں رکھتی ،بعض مفسرین نے یہاں کل نفس کوصرف بدکاروں کی طرف اشارہ سمجھاہے ،اوروہ یہ کہتے ہیں کہ: ہرانسان اپنے غلط اور شرک آلود اعمال کے بدلے میں گردی ہے اورحقیقت میں ان کااسیر اورمحبوس ہے ۔
اوربعض اوقات سورئہ مدثر کی آیہ ٣٨،٣٩ سے بھی استد لال کیاہے ۔
کل نفس بماکسبت رھینة الّا اصحاب الیمین:
ہرشخص ان اعمال کے بدلے گر وی ہے جواس نے انجام دیئے تھے سوائے اصحاب یمین کے۔
(وہ لوگ جن کانامہ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں دیاجائے گا اوروہ اہل نجات ہیں) ۔
لیکن یہ تفسیر بھی اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے ،کہ قبل و بعد کی سب آیتیں متقین اورپر ہیزگاروں کے بارے میں ہیں، اور ان میں شرک ،مشرکین اورمجرموں کے بارے میں گفتگو موجود ہی نہیں ہے ،مناسب نظر نہیں آتی ۔
ان دونوں تفاسیر کے مقابلہ میں جن میں سے ہرایک کسی نہ کسی جہت سے نامناسب ہے ،ایک تیسری تفسیر بھی ہے ،جوصدر آیت کے ساتھ بھی اورماقبل ومابعد کی آ یات سے بھی مکمل طورپر مطابقت رکھتی ہے اوروہ یہ ہے کہ رھن کے معانی میں سے ایک معنی ،لغت میں کسی چیز کی ملازمت اوراس کے ہمراہ ہونابھی ہے ،اگرچہ رھن کامشہورمعنی وثیقہ ہی ہے جوقرض کے مقابلہ میں ہوتاہے ،لیکن اصل لغت کے کلمات سے اس طرح معلوم ہوتاہے کہ اس کے معانی میں سے ایک ہمیشگی اورخدمت گزاری بھی ہے( ٨) ۔
بلکہ ان میں سے بعض تواس کا اصلی معنی صراحت کے ساتھ وہی دوام وثبوت سمجھتے ہیں ،اورانہوںنے ،رھن بمعنی وثیقہ کوفقہا کی اصطلاحات میں سے شمار کیاہے لہذا جب یہ کہاجاتاہے کہ نعمة راھنة تواس کامعنی پائیدار اور برقرار نعمت ہے(٩) ۔
امیرالمومنین علی علیہ السلام گزشتہ اقوام کے بارے میں فرماتے ہیں:
ھاھم رھائن القبور ومضامین اللحود
وہ قبروں کے رہین اورلحدوں میں سونے والے ہیں (١٠) ۔
اس طرح سے کُلُّ امْرِئٍ بِما کَسَبَ رَہین کے جملے کامفہوم یہ ہے کہ ہرشخص کے اعمال اس کے ساتھ اورہمراہ ہوں گے ،اور کبھی بھی اس سے جدانہیں ہوں گے ،چاہے نیک عمل ہوں یابد؟اوراسی بناپر متقین جنت میں اپنے اعمال کے ساتھ ہیں ، اور اگران کی اولاد ان کے پاس قرار پائے گی تواس کایہ معنی نہیںہے کہ ان کے اعمال میں سے کچھ کمی کرلی جائے گی ۔
سورہ مدثر کی آیت کے بارے میں جس نے اصحاب الیمین کواس معنی سے استثناء کیاہے ممکن ہے اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ وہ ایسے الطاف کے مشمول ہیں جوبے حساب ہے ، اس طرح سے ان کے اعمال ان الطاف الہٰی کے مقابلہ میں کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتے ۔(١١)۔
بہرحال یہ جملہ اس واقعیت کی تاکید ہے کہ انسان کے اعمال کبھی بھی اس سے جدانہیں ہوں گے ،اورہمیشہ تمام مراحل اورمواقف میں اس کے ہمراہ ہوں گے ۔
١۔ "" فاکھین"" " "فکہ "" (بروزن نظر ) کے مادہ سے اور "" فکاھہ"" (بروزن شباھہ) مسرو را ور ہنسی خوشی رہنے اوردوسروں کوشیر یں باتوں اورمزاح سے مرور کرنے کے معنی میں ہے، "" راغب"""" مفردات"" میں کہتاہے "" فاکھہ"" ہرقسم کے پھل کے معنی میں ہے اور"" فکاھت"" صاحبان انس کی باتوں کے معنی میں ہے ،بعض نے اوپر والی آ یت میں یہ احتمال دیاہے کہ "" فاکِہینَ بِما آتاہُمْ رَبُّہُمْ "" کاجملہ انواع واقسام کے پھل کھانے کی طرف اشارہ ہے ،لیکن یہ بعید نظر آتاہے ۔
٢۔"" راغب"" "" مفردات"" میں کہتاہے ، الھنی ء کل مالا یلحق فیہ المشقة ولایعقبہ وخامة : ھنی ء ایسی چیز ہے جس کے پیچھے مشقت اور دشواری نہ ہو۔
٣۔""حور"" جمع"" حورائ"" و"" احور"" سے کہاجاتاہے جس کی آنکھ کی سیاہی کامل طورپر مشکی اوراس کی سفیدی پورے طورپر شفاف ہو۔ یا یہ کلی طورسے جمال اورخوبصورتی سے کنایہ ہے نہ کیونکہ خوبصورتی ہرچیزسے زیادہ آنکھوں میںتجلی کرتی ہے اور"" عین "" جمع"" اعین"" اور"" عینائ"" کی موٹی آنکھ کے معنی میں ہے اوراس طرح سے لفظ "" حور"" اور"" عین"" کامذکرومؤنث دونوں پراطلاق ہوتاہے ،اوراس کاایک وسیع مفہوم ہے ،جوجنت کی تمام بیویوں کوشامل ہے ،باایمان مردوں کی ازواج اوربیویاں اورمومن عورتوں کے ازواج اور شوہر۔(غورکیجئے)
٤۔ ظاہر یہ ہے کہ "" والذین اٰمنوا..."" کا جملہ ایک مستقل جملہ ہے اور "" واؤ"" استیناف کے لیے ہے ،مفسرین کی ایک جماعت (مثلاً علامہ طباطبائی ،مراغی ، اورمؤلف فی ظلال ) نے یہی معنی اختیارکیا ہے ۔لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ زمخشری نے "" کشاف"" میں "" حورالعین"" پراس کاعطف سمجھاہے ،حالانکہ یہ کوئی ایسامناسب معنی نہیں رکھتا جوقرآن کی فصاحت وبلاغت کے ساتھ ،مطابقت رکھتاہو۔
٥۔ نورلثقلین ،جلد ٥،صفحہ ١٣٩(تلخیص کے ساتھ) ۔
٦۔تفسیر مراغی ،جلد ٢٧،صفحہ ٢٦۔
٧۔"" التناھم"" "" الت"" (بروزن شرط) کے مادہ سے کم کرنے کے معنی میں ہے ۔
٨۔ "" نسان العرب"" مادہ "" رھن""۔
٩۔"" مجمع البحرین"" مادہ رھن۔
١٠۔"" نہج البلاغہ"" خط ٤٥۔
١١۔سورئہ مدثر میں"" اصحاب الیمین"" کے استثناء کے بارے میں دوسری تفاسیر بھی موجود ہیں جو انشاء اللہ اسی آ یت کے ذیل میں آئے گی ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma