ابراہیم (ع) کے مہمان

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 22
ان آ یات سے آگے گزشتہ مطالب کی تاکید وتائید کے لیے ، گزشتہ انبیاء اور گزشتہ اقوام کی سر گزشت کاایک گوشہ پیش کیا جارہاہے اور اس کاپہلاحِصّہ ان فرشتوں کی سرگزشت ہے، جو قوم لُوط کوعذاب کرنے کے لیے آدمیوں کی شکل میں ابراہیم علیہ السلام پرظاہر ہوئے اورایک بیٹے کے تولد کی بشارت دی ،جبکہ ابراہیم علیہ السلام بھی بڑھاپے کے سن کوپہنچے ہُوئے تھے اوران کی بیوی بھی سن رسیدہ اور بانجھ تھی۔
اس باعزت بیٹے کااس سن وسال میں ، بوڑھے ماں باپ کوعطا کرنا، ایک طرف تو، اس چیز کے لیے، جوہرقسم کی روزیوں کے مقدر ہے ہونے کے سلسلہ میں گزشتہ آ یات میں آئی تھی ، ایک تاکیدہے ۔
اور دوسری طرف حق کی قدرت وتوانائی پرایک اورخدا شناسی کی آ یات میں سے ایک آ یت ہے ، جس کے بارے میں گذشتہ آ یات میں بحث ہوئی ہے ۔
اور تیسری طرف صاحب ایمان اقوام کے لیے جوحمایت حق کے مستموں ہیں ایک بشارت ہے ، جیساکہ بعد والی آ یات جوقوم لُوط کے ہولناک عذاب کی بات کرتی ہیں،بے ایمان مجرموں کے لیے ایک تہدید اور تنبیہ ہے ۔
پہلے رُوئے سخن پیغمبرکی طرف کرتے ہُوئے فرماتاہے: کیاابراہیم کے محترم مہمانوں کی خبرتجھ تک پہنچی ہے (ہَلْ أَتاکَ حَدیثُ ضَیْفِ ِبْراہیمَ الْمُکْرَمین)(١) ۔
مکرمین (اکرام کئے گئے ) کی تعبیر یاتواس بناء پر ہے کہ یہ فرشتے حق تعالیٰ کے مامور تھے ، اور سُورہ انبیاء کی آ یہ ٢٦ میں بھی فرشتوں کے بارے میںیہ آ یاہے : بل عباد مکرمسون وہ مکرم ومحترم بندے ہیں یاان احترامات کی وجہ سے ہے جو ابراہیم ان کے لیے بجا لائے اور یا دونوں جہات سے ۔
اس کے بعد ان کے حالات کی تشریح کرتے ہُوئے کہتاہے : جس وقت وہ ابراہیم پروارد ہُوئے اور کہا:تجھ پر سلام! تو اس نے کہا:تم پر بھی سلام ہو: تمہیں پہچانا نہیں (اذْ دَخَلُوا عَلَیْہِ فَقالُوا سَلاماً قالَ سَلام قَوْم مُنْکَرُونَ)(٢) ۔
بعض نے کہا کہ براہیم علیہ السلام نے ان کے ناشناختہ ہونے کی بات اپنے دل میں کی نہ کہ آشکار اصُورت میں (کیونکہ یہ بات مہمان کے مسئلہ احترام کے ساتھ سازگار نہیں ہے )۔
لیکن یہ بات معمول کے مطابق ہے، کہ بعض اوقات میزبان مہمان کے احترام کے باوجود کہتاہے:معلوم نہیں میں نے آپ کوکہاں دیکھاہے؟اور میں آپ کواچھی طرح پہچانتا ہوں،اس بناء پر ظاہر آ یہ کومحفوظ رکھاجاسکتاہے،کہ ابراہیم نے یہ بات ان کے سامنے ہی کی ہو،اگرچہ پہلا احتمال بھی بعید بھی نظر آتا، خاص طورسے جبکہ مہمانوں کی طرف سے اپنے تعارف کے سلسلے میں یہاں کوئی جواب بھی نظر نہیں آ تا،اوراگرابراہیم نے اس قسم کی کوئی بات آشکار ا کی تھی،توضرور وہ اس کاجواب دیتے ۔
بہرحال ابراہیم علیہ السلام جیسے مہمان نواز اور سخی نے اپنے مہمانوں کی پذ یرائی کے لیے فوراً کام شروع کردیا، پوشیدہ طورپر اپنے گھر والوں کی طرف گئے اورایک موٹا تازہ بُھنا ہوا بچھڑا ان کے لیے لے آ ئے (فَراغَ ِلی أَہْلِہِ فَجاء َ بِعِجْلٍ سَمین)۔
راغ جیساکہ راغب مفرادت میں کہتاہے ووغ (بروزن شوق)ایک پوشیدہ منصوبے کے ساتھ چلنے کے معنی میں ہے ۔
ابراہیم علیہ السلام نے ایساکیوں کیا؟کیونکہ ممکن تھا، کہ اگرمہمان متوجہ ہوجائیں ،تواس قسم کی پُرخرچ میز بانی سے منع کردیں ۔
لیکن ابراہیم نے معدودے چند مہمانوں کے لیے ،جوبعض کے قول کے مطابق تین افراد اور زیادہ سے زیادہ بارہ افراد تھے (٣) اتنافراواں اور با فراغت کھانا کیوں تیار کیا، اس کی وجہ یہ تھی کہ عام طورپر سخی افراد ایسے ہوتے ہیں کہ اگر ان کے پاس کوئی مہمان آجائے تووہ صرف مہمانوں کے انداز کے مطابق کھاناتیار نہیں کرتے ، بلکہ وہ اتنی غذا تیار کرتے ہیں کہ مہمانوں کے علاوہ وہ تمام لوگ جوان کے لیے کام کرتے ہیں اس میںشریک ہوجائیں،یہاں تک کہ وہ ہمسا یوں قرابت داروں اور دوسرے گردوپیش کے لوگوں کو بھی نظر میں رکھتے ہیں .اس بناء پرہرگز اس قسم کی اضافی غذااسراف اور فضُول خرچی میں شمار نہیں ہوتی ، اور یہ چیزموجودہ زمانہ میں بہت سے قبیلوں، اور ان لوگوں میں جوسابقہ طورطریقوں کے مطابق زندگی بسرکرتے ہیں،نظر آتی ہے ۔
عجل (بروزن طفل )بچھڑے کے معنی میں ہے ( اور یہ جوبعض نے کہاہے کہ گو سفند کے معنی میں ہے وہ متونِ لغت کے مطابق نہیں ہے )یہ لفظ اصل میں عجلہ کے مادہ سے لیاگیاہے.کیونکہ یہ جانور اس سن وسال میںعجو لا نہ حرکات کرتاہے اور جب بڑا ہوجاتاہے توانہیں کلی طورپرچھوڑ دیتاہے ۔
سمین موٹے تازے کے معنی میں ہے اوراس قسم کے بچھڑے کاانتخاب مہمانوں کے احترام اورآس پاس کے اشخاص کے زیادہ سے زیادہ استفادہ کے لیے تھا ۔
سُورئہ ہود کی آ یت ٦٩ میں آ یاہے کہ یہ بچھڑابھُنا ہواتھا: بعجل حنید)اگرچہ زیربحث آ یت اس بارے میں کوئی بات نہیں کرتی ، لیکن اس کے منافی بھی نہیں ہے ۔
ابراہیم علیہ السلام خود یہ کھانا مہمانوں کے لیے لے کر آ ئے ، اورا ن کے نزدیک رکھ دیا (فَقَرَّبَہُ ِلَیْہِمْ) ۔
لیکن انتہائی تعجب کے ساتھ مشاہدہ کیاکہ وہ کھانے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتے تو ابراہیم علیہ السلام نے کہا: کیاتم کھانانہیں کھاتے ؟(قالَ أَ لا تَأْکُلُون) ۔
ابراہیم علیہ السلام خیال کرتے تھے کہ وہ جنس بشر میں سے ہیں ۔: جب انہوں نے دیکھا کہ وہ کھانے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتے تودل میں وحشت محسُوس کی (فَأَوْجَسَ مِنْہُمْ خیفَةً) ۔
کیونکہ اس زمانہ میں ،اوراس زمانہ میں بھی بہت سی اقوام ہیں جو سنتی اخلاق کے پابند ہیں،جب کوئی کسی کے دستر خوان پر کھاناکھالیتا تھاتوپھر اس کوتکلیف وآزار نہیں پہنچاتاتھا، اور کوئی خیانت نہیں کرتاتھا، اورجہاں تمک کھاتے ہیں وہاں نمک دان کو نہیں توڑتے (نمک حرامی نہیں کرتے )لہٰذا اگر مہمان غذا کے لیے ہاتھ نہیں بڑھاتا، تو یہ گمان پیداہوتاہے کہ وہ کسی خطرناک کام کے لیے آ یاہے ، یہ ضرب المثل بھی عربوں میں مشہور ہے کہ وہ کہتے ہیں: من لم یاکل طعا مک لم یحفظ ذمامک :
جوشخص تیر اکھانا نہیں کھاتا وہ تیرے عہدو پیمان کی وفانہیں کرے گا۔
ایجاس وجس(بروزن مکث )کے مادہ سے اصل میں مخفی آ واز کے معنی میں ہے ، اسی بناء پر ایجاسپنہانی اوراندرونی احساس کے معنی میں آ یاہے، گو یا انسان اپنے اندر سے آواز سنتاہے ، اور جب خیفة کے ہمراہ ہو ، تو احساس خوف کے معنی میں ہے ۔
یہاں پرمہمانوں کے ۔جیساکہ سُورئہ ہُود کی آ یت ٧٠ میں آ یاہے اس سے کہا کہ ڈرو نہیں اورا س کو تسلی دی ،:(قالوالاتخف) ۔
اس کے بعدمزید کہتاہے:انہوں نے اُسے ایک دانا اورعالم بیٹے کی بشارت دی (وَ بَشَّرُوہُ بِغُلامٍ عَلیمٍ) ۔
واضح رہے کہ بیٹا تولد کے وقت تو عالم نہیں ہے لیکن یہ ممکن ہے ہے کہ اس میں استعداد ہو کہ وہ آئندہ عالم اورعظیم دانشمند بنے اور یہاں یہی مراد ہے ۔
اس بارے میں کہ یہ بیٹا اسمعیل تھا یا اسحاق ؟مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ،اگرچہ مشہور یہی ہے کہ وہ حضرت اسحق تھے ۔
لیکن یہ احتمال کہ اسماعیل تھا، سُورہ ہود کی آ یہ ٧١ کی طرف توجہ کرتے ہوئے ، جوکہتی ہے ،ْفَبَشَّرْناہا بِِسْحاقَ : درست نظر نہیں آ تا اس بناء پر کوئی شک نہیں ہے کہ وہ عورت جس کے بارے میں بعد کی آ یات میں گفتگو آ ئی ہے، وہ ابراہیم کی بیوی سارہ ہے اور یہ بیٹا اسحق ہے ۔
اس وقت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی آگے آئی ، درحالیکہ وہ خوشی اور تعجب سے بلند آواز میں بول رہی تھی .اس نے اپنے چہرے پرہاتھ مارا اورکہا:کیامیرے فرزندہوگا؟ حالانکہ میں ایک بانجھ بڑھیاہوں (فَأَقْبَلَتِ امْرَأَتُہُ فی صَرَّةٍ فَصَکَّتْ وَجْہَہا وَ قالَتْ عَجُوز عَقیم ) ۔
سورئہ ہود کی آ یت ٧٢ میں بھی یہ آیاہے : قالَتْ یا وَیْلَتی أَ أَلِدُ وَ أَنَا عَجُوز وَ ہذا بَعْلی شَیْخاً اس نے کہا: وائے ہو مُجھ پر کیامیں اب بچہ جنوگی ، جب کہ میں بانجھ بڑھیاں ہوں، اوریہ میراشوہر بھی بوڑھا ہے یہ تو واقعاً ایک عجیب چیزہے ۔
اس بناء پراس کاچیخناتعجب اور خوشی کی وجہ سے چیخناتھا، (یعنی بلند آواز میں اظہار مسرت وحیرت) ۔
لفظ صرة صر (بروزن شر)کے مادہ سے دراصل باندھنے اور وابستگی کے معنی میں ہے، اور شدّت سے چیخنے اور اسی طرح پے درپے جمعیت پربھی بولا جاتاہے، چونکہ اس میں شدت اور ایک دوسرے سے پیوسگی ہوتی ہے ، شدید اور سرد ہو اؤں کوبھی صرصر کہتے ہیں .کیونکہ وہ انسانوں کولپیٹ کررکھ دیتی ہے ، اور صرورة اس عورت یامرد کوکہتے ہیں.جس نے ابھی تک حج نہ کیاہو،یاشادی کرنے کا ارادہ نہ رکھتاہو، کیونکہ ان میں ایک قسم کی بستگی اورامتناع ہے اور زیربحث آ یت میں اسی شدت کے ساتھ چلّا نے کے معنی میں ہے ۔
صکت صلب(بروزن شک)کے مادہ سے شدت سے مارنے یاچہرے پرمارنے کے معنی میں ہے ، اور یہاں اس سے مراد یہ ہے کہ ابراہیم کی بیوی نے جس وقت بیٹے کے تولد کی بشارت سنی ... تو جیساکہ عور توں کی عادت ،شدت تعجب اورشرم وحیاسے اپنے ہاتھ اپنے منہ پر مارے ۔
بعض نے مفسرین کے قول کے مطابق اور اسی تورات کے سفر تکوین کے مطابق، ابراہیم کی بیوی نوّے سال یااس سے زیادہ عمرکی تھی، اورخود ابراہیم تقریباً سوسال یااس سے زیادہ تھے ۔
لیکن قرآن بعد والی آ یت میں ،فر شتوں کے جواب کو، جو انہوں نے اُسے دیا، نقل کرتاہے: انہوں نے کہاکہ تیرے پر وردگار نے اسی طرح کہاہے ، اور وہ حکیم وداناہے(قالُوا کَذلِکَ قالَ رَبُّکِ ِانَّہُ ہُوَ الْحَکیمُ الْعَلیمُ) ۔
اگرچہ تو بڑ ھیاہے اور تیراشوہربھی اس طرح ہے، لیکن جب تیرے پروردگارکافر مان صادر ہواوراس کااراد ہ کسی چیزسے متعلق ہوجائے تو بلاشک وشبہ وہ پورا ہوجاتاہے ۔
یہاں تک کہ اسی جہان جیساکہ اور عظیم جہان امر کن(ہوجا)کے ساتھ پیدا کردینا اس کے لیے سہل اور آسان ہے ، حکیماور علیم کی تعبیراس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ تواپنے بڑھاپے اوربانجھ ہونے اوراپنے شوہر کے کہن سال ہونے کی خبر دے ، خداا ن سب باتوں کوجانتاہے اور اگر ابھی تک اس نے تمہیں بیٹا نہیں دیااور اب آخر عمر میں مرحمت کررہاہے تواس میں بھی حکمت ہے ۔
قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ سُورئہ ہودکی آ یت ٧٣ میں یہ آ یاہے کہ فرشتوں نے اس سے کہا:(قالُوا أَ تَعْجَبینَ مِنْ أَمْرِ اللَّہِ رَحْمَتُ اللَّہِ وَ بَرَکاتُہُ عَلَیْکُمْ أَہْلَ الْبَیْتِ ِنَّہُ حَمید مَجید) کیاتو خدا کے حکم پرتعجب کررہی ہے، یہ خدا کی رحمت اور اس کی برکات تمہارے گھرانے پر ہیں اوروہ حمید ومجید ہے۔
ان دونوں تعبیروں کافرق اس بناء پر ہے ، کہ فر شتوں نے یہ سب باتیں سارہ سے کہی تھیں، فرق یہ ہے کہ سورئہ ہود میں اس کے ایک حصہ کی طرف اشارہ اور یہاں دوسرے حصّہ کی طرف اشارہ ہواہے،وہاں خداکی رحمت اوربرکات کی گفتگو ہے اوروہ حمید ومجید ہونے کے ساتھ مناسبت رکھتی ہے ۔( وہ ذات جس کی نعمتوں کے مقابلہ میں اس کی حمد وتمجیدکرتے ہیں) ۔
لیکن یہاں ان دونوں بیوی کے بچّہ جننے کے لیے عدم آمادگی کی نسبت خداکی آگاہی ، اوراس خاتون کے ظاہری اسباب کی بناپر عقیم ہو نے کے سلسلہ میں گفتگو ہے ،لہٰذا مناسب یہ ہے کہ کہاجائے ، خداا ن سب چیزوں سے آگاہ ہے، اوراگر یہ سوال ہو کہ جوانی میں یہ نعمت انہیں کیوں نہیں دی ؟تو کہا جائے گا:اس میں کوئی حکمت ہوگی، کیونکہ وہ حکیم ہے ۔
١۔""ضیف"" وصفی معنی رکھتاہے، اور مفرد وجمع دونوں پراس کااطلاق ہوتاہے،لہٰذا "" مکرین ""کے ساتھ جوجمع ہے اس کی توصیف ہوئی ہے ، اور یہ جوبعض نے کہاہے کہ وہ مصدر ہے اور اس کا تثنیہ اور جمع نہیں ہے ٹھیک نظر نہیں ا تا .لیکن "" کشاف"" میں "" زمخشری ""کے قول کے مطابق چونکہ اصل میںوہ مصدر تھا، جب اس نے اپنے آپ میںوصفی نہیں معنی لے لیاتو مفرد وجمع دونوں استعمال ہونے لگا ۔
٢۔"" سلاماً "" ایک فعل محذوف کی وجہ سے منصوب ہے ، اور تقدیر میں اس طرح ہے ،:"" نسلم علیکم سلاماً ""اور سلامبتداء ہے ، اور اس کی خبرمحذوف ہے اوراصل میں "" علیکم سلام"" یا(سلام علیکم ) تھا ،گویا ابراہیم چاہتے تھے کہ ان کے سلام سے بالا تر سلام اور تحیت کہیں، کیونکہ "" جُملہ اسمیہ"" اثبات و دوام پردلالت کرتاہے(تفسیر کشاف ،جلد٤،صفحہ ٤٠١) ۔
٣۔اقتباس از "" روح البیان"" اور "" حاشیہ تفسیرصافی "" زیربحث آ یات کے ذیل میں ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma