اگروہ ہم پر جھوٹ باند ھتا تو ہم اسے مہلت نہ دیتے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 24
قرآن سے مربُوط مُباحث کوجاری رکھتے ہُوئے ان آ یات میں اس کی اصالت پرایک واضح دلیل پیش کرتے ہُوئے فرماتاہے :اگروہ ہم پرجھوٹ باندھتاہے :(وَ لَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنا بَعْضَ الْأَقاویلِ ) ۔
تو ہم پوری قدرت کے ساتھ اس کوپکڑ لیتے (لَأَخَذْنا مِنْہُ بِالْیَمینِ) ۔
پھر ہم اس کے دل کی رگ کوکاٹ دیتے (ثُمَّ لَقَطَعْنا مِنْہُ الْوَتین) ۔
اور تم میں سے کوئی بھی اس کام میں مانع نہ ہوتا اور نہ ہی اِس کی حمایت کرتا (فَما مِنْکُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْہُ حاجِزینَ)(١) ۔
اقاویل جمع ہے اقوال کی او راقوال اپنی نوبت میں جمع ہے قول کی ، تواس بناء پر اقا ویل جمع ہے اور یہاں اس سے مراد جھوٹی باتیں ہیں ۔
تقوّل تقوّل (بروزن تکلّف )کے مادہ سے ان باتوں کے معنی میں ہے جنہیں انسان خود اپنی طرف سے گھڑے اوران کی کوئی حقیقت نہ ہو ۔
لَأَخَذْنا مِنْہُ بِالْیَمین (ہم اسے دائیں ہاتھ سے پکڑ لیتے اورسزادیتے .کیونکہ انسان بہت سے کاموں کودائیں ہاتھ سے انجام دیتاہے . اِس لیے کہ اس میں زیادہ قدرت ہوتی ہے ،اس طرح یمین قدرت سے کنایہ ہے (٢) ۔
بعض مفسّر ین نے اس آ یت کی تفسیر میں اوراحتمالات بھی دیئے ہیں، چونکہ وہ غیر مانوس اور غیر موزوں تھے لہٰذا ہم نے ان سے صرف ِ نظر کیاہے ۔
وتین  دل کی رگ کے معنی میں ہے ،یعنی شہ رگ جوتمام اعضاء میں خون پہنچاتی ہے .اگروہ کٹ جائے توانسان کوفورً ا اورایک لمحہ کی تاخیر کے بغیر موت آجاتی ہے ،یہ وہ سریع ترین سزاہے جوکسِی شخص کے بارے میں آنجام پاسکتی ہے ۔
بعض نے اس کی تفسیر اس رنگ سے کی جس کے ساتھ دل آ ویزاں ہوتاہے یااس رگ سے جوجگرکو خون پُہنچاتی ہے ،یارگِ نخاعِ جو مہروں کے ستون کے وسط میں ہوتی ہے ، لیکن پہلی تفسیر سب سے صحیح نظر آ تی ہے ۔
حاجز ین حاجز کی جمع ہے جومانع اوررکاوٹ کے معنی میں ہے ۔
یہاں ایک سوال سامنے آ تاہے کہ اگر کوئی شخص خداپر جُھوٹ بولے اورخدا فوراً اس کوسزا دے اور اسے ہلاک کردے توپھر نبوّت کاجُھوٹا دعوٰی کرنے والوں کوتیزی کے ساتھ نابود ہوجانا چاہیے ، حالانکہ ایساہرگز نہیں ہے ، اوران میں بہت سے سالہا سال زندہ رہے ہیں، یہاں تک کہ ان کاباطل مذہب ان کے بعد بھی باقی رہاہے ۔
اس سوال کاجواب ایک نکتہ کی طرف توجّہ کرنے سے واضح ہوجاتاہے ،وہ یہ ہے کہ قرآن یہ نہیں کہتاہے کہ ہر مدعی بلکہ یہ کہتاہے کہ اگرپیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)اس طرح کاکام کرے ،یعنی وہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جسے خدانے معجزہ دیا ،اورحقانیّت کے دلائل نے اس کی تائید کی ہے ، اگروہ طریقِ حق سے منحرف ہوجائے توایک لمحہ کے لیے بھی اُسے مہلت نہیں دی جائے گی ، کیونکہ یہ چیز لوگوں کی گمراہی اورضلالت کاسبب بنے گی ( ٣) ۔
لیکن جوشخص باطل دعوٰی کرتاہے اورکوئی معجزہ یاواضح دلیل اپنی حقانیّت پر نہیں رکھتا توکوئی ضرور ت نہی ہے کہ خدااُسے فوراً ہلا ک کرے . کیونکہ اس کی باتوں کابطلان ہر اس شخص کے لیے جوحق کاطالب ہے واضح اور روشن ہے .مشکل وہاں آ پڑتی ہے جہاں نبوّت کامدّعی دلائل و معجزات کے ہمراہ ہو اور وہ حق کی راہ سے منحرف ہوجائے ۔
اِس سے واضح ہوجا تاہے کہ یہ جوبعض گمراہ فرقے اپنے پیشوائوں کے دعوے کے اثبات کے لیے اس آ یت سے تمسّک کرتے ہیں وہ بالکل غلط ہے ، ورنہ مسیلمہ کذّاب جیسے افراد او ر دوسرے جھُوٹے مدعی بھی اس آ یت سے اپنی حقانیّت پر استد لال کرسکتے ہیں ۔
بعد والی آ یت میں تاکید اور یاد آواری کے لیے فرماتاہے :یہ قر آن یقینی طورپر پرہیز گاروں کے لیے ایک نصیحت ہے (وَ ِانَّہُ لَتَذْکِرَة لِلْمُتَّقین) ۔
ان کے لیے جو اپنے آپ کوگناہ سے پاک کرنے کے لیے تیّار ہوں ،راہ ِ حق کوطے کرنے پر آمادہ ہوں ، ان کے لیے جوجستجومیںلگے رہتے ہیں ،حقیقت کے طالب ہیں،قرآن ان کے لیے ذکر اورنصیحت ہے ،لیکن جولوگ تقوٰی کی یہ حدنہیں رکھتے وہ یقیناقرآنی تعلیمات سے فائدہ نہیں آٹھا سکتے ۔
اِس لحاظ سے قرآن جوگہری عمیق اورحد سے زیادہ تاثیر رکھتا ہے وہ اس کی حقانیت کی ایک اور دلیل ہے ۔
اس کے بعد کہتاہے : اور ہم جانتے ہیں کہ تم میں سے ایک گروہ اس کی تکذیب کرتاہے (وَ ِانَّا لَنَعْلَمُ أَنَّ مِنْکُمْ مُکَذِّبینَ ) ۔
لیکن ہٹ دھرم جُھٹلا نے والوں کاوجود ان کے حق پر نہ ہونے کی دلیل میں رُکاوٹ نہیں بن سکتاہے ،کیونکہ پرہیزگاراورحقیقت کے طالب ہی اس سے متذ کرہوتے ہیں . وہ اس میں حق کی نشانیاں دیکھتے ہیں اورراہِ خدا میں قدم رکھ دیتے ہیں ۔
اِس بناء پر جس طرح ایک روشن چراغ سے فایدہ اٹھانے کے لیے کم ازکم یہ ضر وری ہے کہ انسان اپنی آنکھ کوکھلا رکھے اسی طرح نورِ قرآن سے فائدہ اٹھانے کے لیے بھی دل کی آنکھ اس کے اوپر کُھلی رکھنی چاہیے ۔
بعد والی آیت میں مزید کہتاہے : اور یہ قرآن کافروں کے لیے حسرت کاباعث ہے (وَا ِنَّہُ لَحَسْرَة عَلَی الْکافِرین) ۔
آج یہ اس تکذیب کر رہے ہیں لیکن کل جو یوم الظہور اور یوم البروز ہونے کے ساتھ ساتھ یوم الحسرت بھی ہے و ہ سمجھ لیں گے کہ نہوں نے ہٹ دھرمی اورعناد کی وجہ سے کتنی عظیم نعمت کوہاتھ سے دے دیاہے اور کیسے کیسے دردناک عذاب اپنے لینے خرید لیے ہیں . وہ دن جس میں وہ مومنین کی بلندیاں اور پستیاں دیکھیں گے اوران کاآپس میں موازنہ کریں گے توحسرت کے ساتھ انگلی منہ میںداب لیںگے اور غصّہ کی شدّت سے اپنے ہاتھ دانتوں سے کاٹیں گے وَ یَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلی یَدَیْہِ یَقُولُ یا لَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبیلاً اس دن کو یاد کرو جب ظالم اپنے دونوں ہاتھوں کوشدّتِ حسرت سے کاٹے گااور کہے گا اے کاش !میں رسُول کے راستے پر چلتا ( فر قان ، ٢٧) ۔
اِس بناء پر کہ کوئی شخص یہ خیال نہ کرے کہ مُنکر ین کاشک و تر دید تاتکذیب ،قرآن کے مفاہیم کے ابہام کی وجہ سے ہے ،لہٰذابعدوالی آ یت میں مزید کہتاہے :یہ قرآن یقین ِ خالص اورحقِ یقین ہے (وَ اِنَّہُ لَحَقُّ الْیَقین) ۔
بعض مفسّرین کے قول کے مُطابق حق الیقین کی تعبیر کسِی چیز کی اپنی ذات کی طرف نسبت کی قبیل سے ہے کیونکہ حق عین یقین ہے اوریقین عین حق ہے ،جیساکہ ہم کہتے ہیں مسجد الجامعاور یوم الخمیساور یہ اضافت اصطلاح کے مطابق اضافتِ بیانیہ ہے ۔
لیکن بہتر ہے یہ کہاجائے کہ یہ موصوف کی صفت کی طرف اضافت کے قبیل سے ہے ، یعنی قرآن ایک خالص یقین ہے ،یادوسرے لفظوںمیں یقین کے کئی مراحل ہوتے ہیں ۔
کبھی وہ دلیل ِعقلی سے حاصل ہوتاہے جیساکہ ہم دھوئیں کودور سے دیکھتے ہیں تواس سے آگ کے وجُودکا یقین حاصل ہوجاتاہے حالانکہ ہم نے آگ کونہیں دیکھا ، اس کو علم الیقین کہتے ہیں ۔
بعض اوقات ہم اور نزدیک جاکر آگ کے شعلوں کواپنی آنکھ سے دیکھ لیتے ہیں .اِ س سے یقین اور زیادہ محکم ہوجاتاہے اوراس کو عین یقین کانام دیتے ہیں ۔
بعض اوقات ہم اس سے بھی زیادہ نزدیک چلے جاتے ہیں ،آگ کے پاس یا آگ کے اندرداخل ہوجاتے ہیں اور اس کی سوزش کواپنے ہاتھ سے لمس کرتے ہیں .یقینا یہ یقین کابالا ترمرحلہ ہے اور اس کوحق الیقین کہتے ہیں ۔
اوپر والی آ یت کہتی ہے کہ قرآن یقین کے اس قسم کے مرحلہ میں ہے .لیکن اس کے باوجود دل کے اندھے اس کاانکار کرتے ہیں ۔
پھر آ خر ی زیر بحث آ یت جوسورۂ حاقہ کی آ خری آ یت ہے ،اس میں فرماتاہے : اب جبکہ ایساہے ،تو اپنے عظیم پروردگارکی تسبیح کر اوراس کوہرقسم کے عیب ونقص سے منزّہ شمار کر( فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظیمِ ) ۔
قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ اس آیت اوراس سے پہلے والی آ یت کامضمون تھوڑ ے سے اختلاف کے ساتھ سورة واقعہ کے آخر میں بھی آ یاہے ،فرق صرف یہ ہے کہ یہاں گفتگو قرآن مجید کے بارے میں ہے اوراس کی توصیف حق الیقین کے ساتھ ہُوئی ہے ،لیکن سورة واقعہ کے آخر میںقیامت میں نیکو کاروں کے مختلف گروہوں کے بارے میں گفتگو ہے ۔
١۔"" من احد"" میں "" من "" زائدہ اور تاکید کے لیے ہے ۔
٢۔اوپر والے جُملہ میں "" من "" زائدہ اورتاکید کے لیے ہے اور تقدیر میں اِس طرھ ہے "" لاخذ ناہ بالیمین "" ۔
٣۔یہ وہی چیزہے جو علمِ کلام کی کتب میں جھوٹے کے ہاتھ میںمعجزہ قرار دینے کے عنوان سے پیش ہوتی ہے اوراس کو قبیح قرار دیاجاتاہے ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma