اے کاش مجھے موت اٰجاتی

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 24
گذشتہ آ یات میں گفتگو اصحاب الیمین اوران مومنین کے بارے میں تھی کہ جن کانامۂ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں دیاجائے گا .وہ فخر یہ اہل محشر کو پکاریں گے اورانہیں اپنے اعمال کوپڑھنے کی دعوت دیں گے ،اس کے بعدبہشت جاو داں میںپہنچ جائیں گے لیکن زیربحث آ یات ٹھیک ان کے نقطۂ مقابل یعنی اصحابِ شمال کوپیش کرتی ہیں اورایک موازنہ میں ان دونوں کی کیفیّت کو کامل طورپر واضح کردیتی ہیں .پہلے فرماتاہے : لیکن جِس کانامۂ اعمال اس کے بانیں ہاتھ میں دیاجائے گا ،وہ کہے گا : اے کاش میر انامۂ اعمال کبھی بھی مجھے نہ دیاجاتا (وَ أَمَّا مَنْ أُوتِیَ کِتابَہُ بِشِمالِہِ فَیَقُولُ یا لَیْتَنی لَمْ أُوتَ کِتابِیَہْ)(١)۔
اور اے کاش ! میں اپنے حساب کتاب سے ہرگز خبردار نہ ہواہوتا (وَ لَمْ أَدْرِ ما حِسابِیَہْ ) ۔
اور اے کاش مجھے موت آجاتی جومیری اس حسرت ناک زندگی کوختم کردیتی (یا لَیْتَہا کانَتِ الْقاضِیَةَ )(٢) ۔
ہاں !اس عظیم عدالت میں ، اس یوم البروز اور یوم الظہور میں جب اپنے تمام قبیح اعمال کوبرملا دیکھے گا تواس کی فریاد بلند ہوگی .وہ دل سے پے درپے آہِ سوزاں کھینچے گا . ایسی آہ جوحسرت بار ہوگی اورایسا نالہ جو شرر بار ہوگا .وہ یہ آ رزو کرے گا کہ اس کا اپنے ماضی سے کلّی طورپر رابط ختم ہوجائے ،وہ خدا سے موت و نابودی اوراس عظیم رُسوائی سے نجات کی آرزو کرے گا ، جیساکہ سورة نباء کی آ یت ٤٠ میں بھی آ یاہے : (وَ یَقُولُ الْکافِرُ یا لَیْتَنی کُنْتُ تُرابا) کافر اس دن یہ کہے گا ،اے کاش ! میں مٹی ہوتا اور ہرگز انسان نہ بنتا ۔
یا لَیْتَہا کانَتِ الْقاضِیَةَ کے جملہ کی اورتفاسیر بھی بیان کی گئی ہیں . منجملہ ان کے یہ ہے کہ قاضیة سے مراد پہلی موت ہے ،یعنی اے کاش ! جب ہم دنیامیں مرہی گئے تھے توپھروہ دوبارہ زندہ نہ ہوتے .یہ اس حالت میں ہے کہ دنیامیں کوئی چیز اس کی نظر میں موت سے زیادہ ناخوش آئند نہیں تھی ،لیکن قیامت میں آ رزوو کرے گا ،اے کاش وہ موت ہی بر قرار رہتی ۔
بعض نے اسے صُور کے پہلے نفخہ کے بارے میں سمجھاہے ،جسے قارعة سے بھی تعبیر کیاگیا ہے .یعنی اے کاش! دوسرا نفخہ واقع ہی نہ ہوتا ۔
لیکن وہ تفسیر جوہم نے ابتداء میں بیان کی ہے سب سے زیادہ مناسب ہے ۔
اس کے بعد مزید کہتاہے : یہ گنہگار مجرم اورعتراف کرتے ہُوئے کہے گا:میرے مال و دولت نے مجھے ہرگز بے نیاز نہیں کیا ، اور آج کی مصیبت میںجو میر ی بیچار گی کادن ہے ، میر ے کچھ کام نہ آیا (ما أَغْنی عَنِّی مالِیَہْ) ۔
نہ صرف میرے مال ودولت نے مجھے بے نیاز نہیں کیا اور میری کسِی مُشکل کو حل نہیں کیا ، بلکہ میر ی قدرت و سلطنت بھی نابود ہوگئی اورہاتھ سے چلی گئی (ہَلَکَ عَنِّی سُلْطانِیَہْ ) ۔
خلاصہ یہ ہے کہ نہ تومال ہی کام آ یااور نہ ہی مقام ومنصب ،آج خالی ہاتھ ،انتہائی ذلّت و شر مساری کے ساتھ داد گاہِ عدلِ الہٰی میں حاضر ہوں ،نجات کے تمام اسباب منقطع ہوگئے ہیں، میری طاقت و قدرت برباد ہوگئی ہے اورمیری اُمید ہرجگہ سے ختم ہوچکی ہے ۔
بعض نے یہاں سلطان کودلیل وبُرہان کے معنی میں سمجھاہے جوانسان کی کامیابی کاسبب ہوتاہے .یعنی آج میر ے پاس کوئی ایسی دلیل اور حجّت نہیں ہے جس کے ذ ریعے میں بارگاہِ خدامیں اپنے اعمال کی تو جیہہ کرسکوں۔
بعض مفسّرین نے یہ بھی کہا ہے یہاں سلطان سے مُراد سلط وحکومت نہیں ہے ،کیونکہ وہ سب لوگ جودوزخ میں وارد ہوں گے کسِی مُلک کے بادشاہ یاکچھ شہروں کے امیر تونہیں تھے بلکہ اس سے مُراد انسان کااپنے نفس اوراپنی زندگی پر تسلّط ہے . لیکن اس بات کی طرف توجّہ کرتے ہُوئے کہ بہت سے دوزخی اس جہان میں تسلّط و نفوذ رکھتے تھے یاوہ سردار اور امیر کبیر لوگ تھے،لہٰذا یہ صحیح نظر آ تاہے ۔
١۔کتابیہ اوراسی طرح حسابیہ و ما لیہ وسلطا نیہ میں ھا جوبعد میں آ یات میں آئے گا ھاء سکت،استراحت ہے . نیز جیساکہ ہم بیان کرچکے ہیں آس طرح کاکوئی خاص معنی نہیں ہے بلکہ یہ اس قسم کے کلمات میں ایک خوبصورت وقف شمار ہوتاہے .یہ ان اشخا ص کے حالات اور نفس کی کیفیّت کے ساتھ ایک قسم کی مناسبت رکھتاہے ،جویہ بات کریں گے ۔
٢۔ کانَتِ الْقاضِیَة کے جملہ میں ایک محذوف ہے اور تقدیر میں اس طرح ہے ( کانت ھذہ الحالة القاضیہ)۔
١۔کتابیہ اوراسی طرح حسابیہ و ما لیہ وسلطا نیہ میں "" ھا"" جوبعد میں آ یات میں آئے گا ھاء سکت،استراحت ہے . نیز جیساکہ ہم بیان کرچکے ہیں آس طرح کاکوئی خاص معنی نہیں ہے بلکہ یہ اس قسم کے کلمات میں ایک خوبصورت وقف شمار ہوتاہے .یہ ان اشخا ص کے حالات اور نفس کی کیفیّت کے ساتھ ایک قسم کی مناسبت رکھتاہے ،جویہ بات کریں گے ۔
٢۔ "" کانَتِ الْقاضِیَة"" کے جملہ میں ایک محذوف ہے اور "" تقدیر "" میں اس طرح ہے ( کانت ھذہ الحالة القاضیہ)۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma