وہ دن جس میں وہ عظیم واقعہ رو نما ہوگا

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 24
اس سورة کی ابتدائی آیات کوجاری رکھتے ہُوئے جومعا د اورقیامت کے مسئلہ کوبیان کرتی تھیں ،زیربحث آ یات اس عظیم قیامت کے حوادث کے مباحث کوپیش کرتی ہیں . ایسی ہلادینے والی اور بیدار کرنے والی تعبیروں کے ساتھ جوانسان کوان وقائع عظمت سے آشنا کرتی ہیں جواسے درپیش ہوں گے ۔
پہلے فرماتاہے : جب ایک دفعہ صورت میں پھونکا جائے گا (فَِذا نُفِخَ فِی الصُّورِ نَفْخَة واحِدَة ) ۔
جیساکہ ہم نے اپہلے بھی اشارہ کیاہے ، قرآن مجیدسے معلوم ہوتاہے کہ اس جہا ن کے اختتام اور دُوسرے جہان کے آغاز میں ناگہاں اوراچانک ایک عظیم صدا پیداہوگی ،جسے نفخۂ صُور ( ناقوس میں پھونکنے سے) تعبیر کیاگیاہے ۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ زمانہ میں اور آج بھی لشکر کواکٹھا اور تیّار کرنے کے لیے یااُسے آرام گاہ یاچھائونی کی طرف بھیجنے کے لیے بگل سے فائدہ اُٹھا یاجاتاہے . جب آ رام کرنے اورسونے کابگل بجایا جاتا ہے تو سب سپاہی آرامگاہ میں چلے جاتے ہیں اور جب جمع کرنے اور تیّار ی کرنے کے لیے بجا یاجاتاہے توتمام کرسپاہی اپنی جگہ سے چل پڑتے ہیں اوراپنی صفوں کومنظم کرتے ہیں .گویاخدا یہ کہنا چاہتا ہے کہ اس جہان کے ختم کرنے اور دوسرے جہان کے آغاز کامسئلہ میری قُدرت کے مقابلہ میں ایک بگل میں پُھونکنے جتنا آسان ہے .ایک ہی فرمان سے ایک لمحہ کے اندر اندر تمام اہل آسمان اورسب اہل زمین مرجائیں گے .پھر ایک دوسرے فرمان کے ساتھ سب کے سب زندہ ہوجائیں گے اور حساب کے لیے تیّار ہوجائیں گے ۔
صُور کی خصوصیات اوراس میں نفع کی کیفیّت پھونکنے کی مقدار اوران کے درمیان فاصلہ کے بارے میں بہت سے مطالب ہیں ، وہ ہم نے تفسیر نمونہ جلد ١٩ سورہ زمر کی آ یت ٦٨ کی تفسیر میں بیان کردیئے ہیں . یہاں ان کے تکرار کی ضر ورت نہیں ہے ۔
ایک چیز کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ نفخہ صُور : جیسا کہ اوپر بھی اشارہ ہُوا ہے وہ نفخے ہیں ، موت کانفخہ اور حیات ِ جدید کانفخہ اِس بارے میں کہ زیر بحث آیت میں جو نفخہ آیا ہے پہلا نفخہ ہے یادوسرا ،مفسّرین کااس سلسلہ میں کوئی ایک نظر یہ نہیں ہے کیونکہ جو آ یات بعد میں آ ئی ہیں ان میں سے بعض موت کے نفخہ سے اور بعض حیات ومعاد اورقبروں کے اُٹھنے کے نفخہ سے مناسبت ر کھتی ہیں ، لیکن مجموعی طورپر یہ آ یات پہلے نفخہ کے ساتھ زیادہ مناسبت رکھتی ہیں اوروہ اِختتامِ جہاں کانفخہ ہے ۔
اِس کے بعد مزید کہتاہے : اور جب زمین اور پہاڑ اپنی جگہ سے اٹھا لیے جائیں گے اور ایک ہی ضرب کے ساتھ درہم برہم اورریزہ ریزہ ہوجائیں گے (وَ حُمِلَتِ الْأَرْضُ وَ الْجِبالُ فَدُکَّتا دَکَّةً واحِدَةً ) ۔
دک جیساکہ راغب ،مفردات میں کہتاہے : اصل میں صاف اورنرم زمین کے معنی میں ہے چونکہ ایک ناہموار زمین کو صاف کرنے کے لیے اسے کو ٹنا پیٹنا پڑتا ہے .لہٰذابہت سے موارد میں یہ لفظ شدّت سے کوٹنے کے معنی میں استعمال ہوتاہے ۔
لیکن بعض منابع لغت سے معلوم ہوتاہے کہ دک کااصل معنی کو کوٹنا اور ویران کرناہے .چونکہ کوٹنے اور ویران کرنے کالازمہ صاف اورہوار کرناہے لہٰذا یہ لفظ اس معنی میں بھی استعمال ہوتاہے (١) ۔
بہرحال زیربحث آ یت میں یہ لفظ پہاڑوں آورناہموار زمینوں کے ایک دوسرے سے ٹکرانے اورکوٹے جانے کے معنی میں ہے ،اِس طرح کہ ایک ہی دفعہ میںریزہ ریزہ ہو کرہموار ہوجائیں ۔
اس کے بعد مزید کہتاہے :اس دن جہان میں واقعۂ عظیم رُونما ہوگا اورقیامت برپا ہوگی (فَیَوْمَئِذٍ وَقَعَتِ الْواقِعَة) ۔
نہ صرف زمین اور پہاڑ بکھر کرپراگندہ ہوجائیں گے بلکہ آسمانوں آور زمینوںمیں بھی شگاف پڑ جائیں گے اور وہ کمزوراورغیر محکم ہو جائیں گے (وَ انْشَقَّتِ السَّماء ُ فَہِیَ یَوْمَئِذٍ واہِیَة ) ۔
عظیم آسمانی کرّ ے بھی اس ہولناک اوروحشتناک حادثہ سے بچ کرنہیں رہ سکتے ، وہ بھی شگافتہ اور پر ا گندہ ہوکر بکھر جائیں گے اور اپنی مضبوطی اوراستحکام کے باوجود وہ اس قدر کمزور ہو جائیں گے کہ سورہ الرحمن کی آ یت ٣٧ میں قرآن کے قول کے مطابق آسمان پھٹ کر پگھلے ہُوئے روغن کی طرح سُرخ ہوجائیں گے (فَِذَا انْشَقَّتِ السَّماء ُ فَکانَتْ وَرْدَةً کَالدِّہانِ) ۔
یا دوسرے لفظوںمیں موجود ہ زمین وآسمان ویران ہو جائیںگے اوران کے ویرانوں اور کھنڈ رات پر ایک نیا جہان برپا ہوگا جو موجودہ جہاں سے برتر ، بالا تر اورکامل ترہوگا ۔
اور فرشتے آسمانوں کی طرفوں آورکناروں پر ہوں گے (وَ الْمَلَکُ عَلی أَرْجائِہا ) ۔
ارجاء رجا کی جمع ہے جوکسِی چیز کے اطراف وجوانِب کے معنی میںہ ے ملک اگرچہ یہاں صیغہ ٔمُفرد میں آ یا ہے .لیکن اِس سے مراد جنس وجمع ہے ۔
گو یا فرشتے اس دن ما مورین کی طرح، جو کسِی میدان کے اطراف میں کھڑے ہوں اورکام انجام دینے کے لیے فرمان کے منتظر ہوں ،آسمان کے گرد اگروصف باندھے ہُوئے ہوں گے اورحق تعالےٰ کے فرمان کے منتظر ہوں گے۔
اس کے بعد فرماتاہے : اوراس دن آٹھ فرشتے اپنے پروردگارکاعرش اٹھائے ہوئے ہوںگے (وَ یَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّکَ فَوْقَہُمْ یَوْمَئِذٍ ثَمانِیَة) ۔
یہ حا ملین عرش اگرچہ صراحت کے ساتھ اس آیت میں مُعیّن نہیں ہُو ئے ہیں کہ وہ فرشتوں میں سے ہوں گے یا ان کے علاوہ کوئی اور ہوں گے لیکن پُوری آیت کی تعبیریں اس بات کی نشا ندہی کرتی ہیں کہ وہ فرشتوں میں سے ہوںگے ،لیکن یہ مشخّص نہیںہے کہ وہ آٹھ فرشتے ہوں گے یاوہ فرشتوں کے آٹھ چھوٹے یابڑے گروہ ہوں گے ۔
البتّہ اِسلامی روایات میں آ یاہے کہ اس وقت بھی حاملین عرش چار نفرہیں ، لیکن قیامت میں وہ دُگنے ہو جائیں گے .جیساکہ پیغمبرگرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے ایک حدیث میں آ یاہے ۔
انھم الیوم اربعة فاذا کان یو م القیامة اید ھم بار بعة اٰخرین ،فیکونون ثمانیة ۔
وہ اس وقت چار افرادہیں اورقیامت کے دن دُوسرے چارافراد سے ان کو تقو یت دے گا او ر وہ آٹھ ہو جائیں گے (٢) ۔
لیکن عرش کیاہے ؟اور یہ فرشتے کون ہیں ؟مسلّمہ طورپر عرش سے مراد ایک جسمانی تختِ سلطنت نہیںہے ، بلکہ جیساکہ ہم نے پہلے بھی لفظ عرش کی تفسیر میں بیان کیاہے جہان ہستی کے مجموعہ کے معنی میں ہے جوخدا کی حکومت کاعرش ہے . پس ان فرشتوں کے ذ ریعہ ، جوخدا کے حکم و فرمان کوجاری کرتے ہیں ،اس کا ارادہ و تد بیر کی جاتی ہے ۔
قابلِ توجّہ بات یہ ہے کہ ایک روایت میں آ یاہے قیامت میں عرش خدا کے اٹھا نے والے چار افراداوّلین میں سے اور چار آ خرین میں سے ہوں گے .اوّلین میں سے تو نوح علیہ السلام، ابراہیم علیہ السلام ، موسیٰ علیہ السلام عیسیٰ علیہ السلام ہوں گے اور آخر ین میں سے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)علی علیہ السلام، حسن علیہ السلام اورحسین علیہ السلام ہوںگے ( ٣) ۔
یہ تعبیر ممکِن ہے ان حضرات کے اوّلین وآخرین میں مقامِ شفاعت کی طرف اشارہ ہو ،لیکن یہ شفاعت ایسے افرادکے بارے میںہوگی جوشفاعت کے لائق.بہرحال یہ تعبیر عرش کے مفہوم کی وسعت کو بتاتی ہے ۔
البتّہ اگرعرش کے اٹھا نے والے آٹھ گروہ ہوں تو پھر ممکِن ہے کہ کچھ گروہ توفرشتوں کے ہوں اورکچھ گروہ انبیاء اور اولیاء کے ہوں کہ جواس اہم مقام کے عہدہ دار انبیاء واولیاء ہوں گے .لیکن یہ سب حکمِ خُدا کے ساتھ ہوگا ۔
اِس بار ے میں فوقھم (ان کے اوپر )میں ھم کی ضمیر انسانوں کی طرف لوٹتی ہے یافرشتوں کی طرف ،کئی اِحتمال دیئے گئے ہیں. چونکہ اِس سے قبل کے جُملہ میں گفتگو فرشتوں کے بارے میںہے لہٰذا ظاہر یہ ہے کہ یہ ضمیرانہیں کی طرف لوٹتی ہے .اِس طر ح سے فرشتے سارے جہان کوہرطرف سے گھیر لیں گے . اور (مقام کے لحاظ سے ) ان کے اوپر آٹھ فرشتے خُدا کے عرش کواٹھا نے والے ہوں گے ۔
یہ احتمال بھی ہےکہ خداکے عرش کواٹھانے والے ایسے افراد ہیںجوفرشتوںسے بر تر و بالاہیں .اِس صورت میں یہ بیان گذ شتہ حدیث جو خدا کے عرش کواٹھانے والے انبیاء و اولیاء میں سے آٹھ افراد کوشمار کرتی ہے کے مطابق ہوگا۔
اس میں شک نہیں کہ اس دن عرش کواٹھانے والوں کاتوکہناہی کیا قیامت سے مربُوط حوادث بھی اس قسم کی چیز نہیں ہیںجوہم اس محدُود تاریک جہان کے رہنے والوں کے لیے دقیق طورپر واضح وروشن ہوں،جو کچھ ہم کہتے ہیں وہ ایک شبح (سایہ یاہیو لاسا)ہے جسے ہم آ یات ِ الہٰی کے سائے میں بہُت دُور سے دیکھتے ہیں، ورنہ ان کی حقیقت تو ہمیں وہاں جانے کے بعد ہی نظر آ ئے گی ( ٤) ۔
اِس نکتہ کی یاد دہانی بھی ضر وری ہے کہ پہلے نفخۂ صُور میں آسمانوں اور زمین کے تمام ذی رُوح مرجائیں گے .اس بناء پر عرش کے اٹھا نے والوں کے بارے میں جوبحث ہے وہ نفخۂ دوم کے ساتھ مربُوط ہے جس میں سب زندہ ہوجائیں گے ، اگرچہ آیت میں دوسرے نفخہ کے بارے میں گفتگو نہیں ہے .لیکن قرائن سے واضح ہوتاہے .کہ جن مطالب کوہم بعد والی آ یات میں پڑھتے ہیں وہ بھی اسی نفخہ دوم کے ساتھ ہی مربُوط ہیں ( 5) ۔
١۔اقرب الوارد مادہ "" وک""۔
٢۔تفسیر علی بن ابراہیم جلد ،٢،صفحہ ٢٨٤۔
٣۔ مجمع البیان ،جلد ١٠ ،صفحہ ٣٤٦۔
٤۔"" لغت "" اور "" قرآن مجید کے لحاظ سے عرش کے معانی کے بارے میںہم نے تفسیر نمونہ میں کسی مرتبہ بحث کی ہے .منجملہ ان کے جلد ٦سورۂ اعراف آ یت ٥٤ کے ذیل میںگفتگو کی گئی ہے ۔
5۔حقیقت میں آ یت میں ایک محذوف ہے اورتقدیر میں اس طرح ہے "" ثم نفخ فیہ اخرٰی ""( پھر اس میں ، دوبارہ پھونکا جائے گا) ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma