وہ تجھے نابود کرنا چاہتے ہیں لیکن نہیں کرسکتے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 24
اوپر والی دونوںآ یات جو سورہ ٔ قلم کی آخری آ یات ہیں حقیقت میں اسی چیزکوبیان کررہی ہیں جواس سورہ کے آغاز میں دشمنوں کی طرف سے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لے لیے جنون کے نسبت کے سلسلہ میں آ ئی تھی ۔
پہلے فرماتاہے : قریب ہے کہ کفّار آیات ِ قرآن کوسُن کر تجھے اپنی آنکھوں سے ہلاک کردیں اور کہتے ہیں کہ وہ تودیوار نہ ہے (وَ اِنْ یَکادُ الَّذینَ کَفَرُوا لَیُزْلِقُونَکَ بِأَبْصارِہِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّکْرَ وَ یَقُولُونَ ِنَّہُ لَمَجْنُون)۔
لیز لقونک زلق کے مادہ سے پھسلنے اور زمین پرگرنے کے معنی میں ہے اورہلاکت و نابودی سے کنایہ ہے . اس آ یت کی تفسیر میں گونا گوں نظر یات پیش کیے گئے ہیں ۔
١: بہت سے مفسر ین نے کہاہے ،اس سے مراد یہ ہے کہ جب دشمن قرآن کی باعظمت آ یات کوتجھ سے سنتے ہیں تووہ خشمگین اور پریشاں ہوجاتے ہیں اور دشمنی کے ساتھ تیری طرف دیکھتے ہیں گویا چاہتے ہیں کہ تجھے اپنی آنکھوں سے زمین پرگرائیں اور نابود کردیں ۔
اس معنی کی وضاحت میں ایک گروہ نے یہ اضافہ کیاہے کہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ تجھے نظر ِ بد کے ذ ریعہ ، جس کابہُت سے لوگ عقیدہ رکھتے ہیں اوروہ کہتے ہیں کہ بعض آنکھوںمیں ایک مرموز اثر چھپا ہوا ہوتاہے ، وہ ایک مخصوص نگاہ کے ساتھ طرفِ مقابِل کو بیمار یا ہلاک کر سکتے ہیں،ہلاک ونابود کردیں ۔
٢:بعض نے کہاہے یہ بہت زیادہ غضب آلود نگاہوں سے کنایہ ہے ، جیساکہ ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص نے اِس طرح بُری نگاہ سے میری طرف دیکھا کہ گویا چاہتاتھا کہ مجھے اپنی نگاہ سے کھاجائے یاما رڈالے ۔
٣:اس آ یت کی ایک اور تفسیر نظر آ تی ہے جوشاید اوپر والی تفاسیر سے زیادہ نزدیک ہو. وہ یہ ہے کہ قرآن چاہتاہے اِس عجیب تضاد کوجو دشمنانِ اسلام کی باتوںمیں پایا جاتاہے ، اس بیان کے ذ ریعہ ظاہر کر دے اوروہ یہ ہے :وہ جس وقت قرآنی آیات کوسنتے ہیں تو اس قدر مجذوب ہوجاتے ہیںاوراس پر تعجّب کرتے ہیںڈالنے والے ہوتے ہیں ) لیکن اس کے باوجودکہتے ہیں کہ تودیوانہ ہے .یہ واقعاً ف بڑی تعجّب خیز بات ہے .دیوانہ اور پر اگندہ باتیں کہاں اوریہ حیرت انگیز ، جاذب اورپُراثر آیات کہاں ؟
یہ دماغ کے ہلکے نہیں جانتے کہ کیا کہہ رہے ہیں اورکیسی کیسی متضاد و نقیض نسبتیںتیری طرف دے رہے ہیں ۔
بہرحال اس بارے میں کہ اِسلامی نظریہ کے مطابق اور موجودہ زمانہ کے علُوم کے لحاظ سے نظر بد میں کچھ حقیقت ہے یانہیں ؟ انشاء اللہ نکات کی بحث میں گفتگو کریں گے ۔
انجام ِ کار آخری آ یت میں مزید کہتاہے : یہ قرآن عالمین کے لیے بیداری کا ذ ریعہ ہونے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے (وَ ما ہُوَ ِلاَّ ذِکْر لِلْعالَمینَ) ۔
اس کے معارف روشنی بخشنے والے ، اس کے انذار آگاہ کرنے والے ، اس کی مثالیں پُر معنی ،اس کی نشو یقیں اور بشارتیں رُوح پرور ، سوئے ہُوئے لوگوں کے لیے بیداری کاسبب اور غا فلوں کے لیے یاد آوری کامُوجب، ان حالات میں اس کے لانے والے کی طرف جنون کی نسبت کیسے دی جاسکتی ہے ؟
اس تفسیر کے مُطابق یہاں ذکر (بروزن فکر)یاد آ وری کے معنی میں ہے .لیکن بعض مفسّرین نے اس کی تفسیر شرف کے معنی کے ساتھ کی اور کہا ہے کہ یہ قرآن تمام عالمین کے لیے ایک شرافت وبزرگی ہے ، جیساکہ سورة زخرف کی آ یہ ٔ ٤٤ میں فرماتاہے :
وانہ لذکرلک و لقو مک :قرآن تیرے اور تیرے قوم کے لیے شرف اور آبرُو کاموجب ہے
لیکن جیساکہ ہم نے مذکورہ آیت کے ذیل میں بھی کہاہے کہ ذکر وہاں بھی یاد آوری اور آگاہی بخشنے کے معنی میںہے . نیز اصولی طور پرقرآن مجید کے ناموںمیں سے ایک نام ذکر ہے اس بناء پر پہلی تفسیر زیادہ صحیح نظر آ تی ہے ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma