عذاب کاتقاضاکرنے میں جلدی نہ کرو

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 24
وہی با زپرس جوگزشتہ آیات میں مشرکین اورمجرموں سے ہُوئی تھی اسے جاری رکھتے ہُوئے ان آ یات میں دو اورسوالوں کااضافہ کرتاہے . پہلے کہتاہے : یاتُوان سے کچھ اجرت مانگتاہے کہ جس کااداکرنا ان کے لیے سنگین ہے ؟ (أَمْ تَسْئَلُہُمْ أَجْراً فَہُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُون)۔
اگران کابہانہ یہ ہے کہ تیری دعوت کوسننے کے لیے مال کی ضرورت ہے ،انہیں اس کے مقابلہ میںبہت اجرت دیناپڑے گی اوران میں اتنی طاقت نہیں ہے ، تویہ بات بالکل جھوٹ ہے اورتُوان سے بالکل کسِی اجرت کامطالبہ نہیں کرتا اورنہ ہی خداکے پیغمبروں میں سے کسِی اور پیغمبرنے کسِی اجرت کامُطالبہ کیاہے ۔
مغرم غرامت کے مادّہ سے اس ضرر کے معنی میں ہے جوانسان کوکسِی جُرم یاخیانت کے بغیرپہنچتا ہے اورمثقل ثقل کے مادّہ سے سنگین اور بوجھ کے معنی میں ہے .اِس طرح سے نہانہ جُوئی کرنے والے لوگوں کے ہاتھ سے ایک اور بہانہ چھین لیتاہے ۔
اوپر والی اور اس کے بعد والی آ یت بعینہ سورۂ طور ( کی آ یہ ٤٠ ، ٤١ ) میں آئی ہے ۔
اس کے بعد سی گفتگو کوجاری رکھتے ہُوئے مزید کہتاہے : یاان کے پاس غیب کے اسرار ہیں کہ جنہیںوہ لکھتے رہتے ہیں اورایک دوسرے کی طرف منتقِل کرتے رہتے ہیں .گو یاان اسرار میں آ یاہے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ یکساں ہیں ( أَمْ عِنْدَہُمُ الْغَیْبُ فَہُمْ یَکْتُبُونَ )۔
یہ حقیقت میں بہت بعید احتمالات میں سے ایک احتما ل ہے اور ممکِن ہے کہ کفّار اس بات سے متمسک ہوں .لہٰذاقرآن نے اسے بھی فرو گزاشت نہیں کیا . یعنی کفّار یہ دعوٰی کرنے لگیں کہ وہ کاہنوں کے ذ ریعہ عالم ِغیب کے ساتھ مربوط ہیں ،اس ذ ریعہ سے اسرارِغیب معلُوم کرتے ہیںاورانہیں لکھ لیتے ہیں،پھر وہ ایک دوسرے کو دیتے رہتے ہیں. یعنی اس طریقہ سے انہوں نے مسلمانوںپر اپنی برتری کم از کم ان کے ساتھ اپنی مسادات اور بر ابری کو معلوم کرلیاہے ۔
یقیناان کے پاس اس قسم کے دعوے پر یہ بھی کوئی دلیل نہیں تھی اور یہ جملہ استفہام انکاری کے معنی دیتاہے .بعض نے جو یہ احتمال دیاہے کہ غیب سے مُراد لوح محفوظ ہے اورلکھنے سے مُراد تقدیر وقضا ہے تویہ بہت بعید نظر آ تا ہے کیونکہ ان کاہر گزیہ دعوٰی نہیں تھا کہ قضاء اورلوح ِ محفوظ کا معاملہ ان کے ہاتھ میں ہے ۔
چونکہ مشرکین اور دشمنان اسلام کی سختی اور بے عقلی بعض اوقات پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل کوایسادکھ پہنچاتی تھی کہ ممکن تھا آپ ان کے لیے بد د عا اور نفرین کردیں لہٰذا خدانے بعد و الی آ یت میں اپنے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کوتسلی دی اورانہیں صبرو شکیبائی کاحکم دیاہے .جیسے فرماتاہے : صبرکرو اوراپنے پروردگار کے حکم کے منتظر رہو (فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ )۔
منتظر رہو یہاں تک کہ خداتیری اورتیرے اصحاب کی کامیابی اور تیر ے دشمنوں کی شکست کے اسباب فراہم کر دے . تم ان کے عذاب کے لیے ہر گز جلدی نہ کرنا . فجان لوکہ یہ مہلت جوانہیں دی جارہی ہے ایک قسم کاعذابِ اِستد راج ہے ۔
اس بناء پر حکم ربّکسے مراد مسلمانوں کی کامیابی کے بارے میںخدا کاآخر ی فرمان ہے ،لیکن بعض نے کہاہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ تم پر وردگار کے احکام کی تبلیغ کی راہ میں صبر و استقامت سے کام لو ۔
یہ احتمال بھی موجود ہے کہ اس سے مراد یہ ہوکہ تمہارے پر وردگارنے حکم دیاہے لہٰذا تم صبر کرو ( ١)۔
لیکن پہلی تفسیرسب سے مُناسب ہے ۔
اس کے بعد مزید کہتاہے : اور مچھلی والے ( یونس ) علیہ السلام کی طرح نہ ہوجائو کہ جس نے اپنی قوم کے عذاب کے لیے جلدی کی اورترکِ اولیٰ سزا میں گرفتار ہوگیاتھا ف ( وَ لا تَکُنْ کَصاحِبِ الْحُوت) ۔
جب اس نے مچھلی کے پیٹ کے اندر سے خدا کوپکارا اوروہ محبوس تھا اور اس کاسینہ غم واندوہ سے بھرا ہواتھا ( ِاذْ نادی وَ ہُوَ مَکْظُوم )۔
ندا سے مراد وہی ہے جوسورۂ انبیاء کی آ یت ٨٧ میںآ یا ہے : (فَنادی فِی الظُّلُماتِ أَنْ لا اِلہَ اِلاَّ أَنْتَ سُبْحانَکَ ِنِّی کُنْتُ مِنَ الظَّالِمینَ ) اس نے تاریکیوں کے درمیان سے پکار اکہ تیر ے سوااور کوئی معبُود نہیںہے . تو منزّہ ہے بیشک ستمگاروں میں سے تھا .اس طرح اپنے ترکِ اولیٰ کااعتراف کیا اور خدا سے عفودبخشش کاتقاضا کیا۔
یہ احتمال بھی ہے کہ ندا سے مُراد وہی نفرین و بد دعا ہوجواپنی قوم کے لیے کی تھی جبکہ وہ غیظ وغضب میں بھر ے ہوئے تھے .لیکن مفسرین نے پہلی تفسیر کواختیار کیاہے .اس کی وجہ سے یہ ہے کہ اس آیت میں نادٰی کی تعبیر اس تعبیر کے ساتھ ہم آہنگ ہے جو سورہ انبیاء کی آ یت ٨٧ میں آ ئی ہے .وہ یقینااس زمانہ کے ساتھ مربُوط ہے جب یونس علیہ السلام شِکم ماہی میں محبوس تھے ۔
بہرحال مکظوم کظم ( بر وزن ہضم )کے مادہ سے حلق کے معنی میں ہے اور کظم سقائ مشک کے بھر جانے پر اس کے منہ کھباند ھنے کے معنی میںہے .اس مناسبت سے وہ لوگ جوبہت خشمگین یاغمناک ہوتے ہیں اورخود کوقا بو میں رکھتے ہیں کاظم کہاجاتاہے .پھر اسی مناسبت سے یہ لفظ جس کے معنی میںبھی استعمال ہواہے .اس بناء پر اوپر والی آ یت میں مکظوم کے دو معنی ہوسکتے ہیں،غصّے اور غم و اند وہ میںبھرے ہوئے ہونا ، یاشکمِ ماہی میں محبوس ہونا،لیکن پہلا معنی جیساکہ ہم نے بیان کیاہے ، زیادہ مناسب ہے ۔
بعد والی آیت میںمزید کہتاہے : اگر اس کے پر وردگار کی نعمت اوررحمت اس کی مدد کے لیے آ گے نہ بڑھتی تووہ مچھلی کے پیٹ سے اس حال میںباہر پھینکاجاتاکہ وہ قابلِ مذمّت ہوتا (لَوْ لا أَنْ تَدارَکَہُ نِعْمَة مِنْ رَبِّہِ لَنُبِذَ بِالْعَراء ِ وَ ہُوَ مَذْمُوم) (٢)۔
جیساکہ ہم جانتے ہیں کہ آخر کار یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے ایک خشک بیاباں میں ڈالے گئے جسے قرآن عراء سے تعبیر کرتاہے لیکن یہ اس حالت میںہُواکہ خدا دنے ان کی توبہ کوقبول کر لیا اوراپنی رحمت کامشمول قراردے دیا تھا. وہ ہرگز لائقِ مذمّت نہیں تھے ۔
سورہ ٔدصافات کی آ یت ١٤٥، ١٤٦ میں بھی یہ آ یاہے :(فَنَبَذْناہُ بِالْعَراء ِ وَ ہُوَ سَقیم ،وَ أَنْبَتْنا عَلَیْہِ شَجَرَةً مِنْ یَقْطینٍ ) ہم نے اسے خشک اورخالی سرزمین میں پھینک دیاجبکہ وہ بیمار تھااور کدّ و کی بیل اس کے اُو پر اگادی ( تاکہ وہ اس کے لمبے اور مر طوب پتّوں کے سائے میں آرام کرلے)اور ظاہر اً اوپر والی آیت میں نعمت سے مراد وہی توبہ کی توفیق اوررحمت الہٰی کامشمول ہوناہے ۔
یہاں دو سوال سامنے آ تے ہیں : پہلایہ کہ سورة صافات کی آ یت ١٤٣ ، ١٤٤ میں آ یاہے (فَلَوْ لا أَنَّہُ کانَ مِنَ الْمُسَبِّحینَ ،لَلَبِثَ فی بَطْنِہِ ِلی یَوْمِ یُبْعَثُونَ ) اگروہ تسبیح کر نے والوں میں سے نہ ہوتا توقیامت کے دن تک مچھلی کے پیٹ میں ہی رہتا یہ بیان اس چیزکے ساتھ منافات رکھتاہے جوزیربحث آ یت میں آ ئی ہے ۔
اِس سوال کے جواب میں یہ کہا جاسکتاہے کہ وہ دو مختلف سزائیں ،ایک زیادہ شدید اور دوسری زیادہ خفیف ، یونس علیہ السلام کے انتظار میں تھیں.پہلی یہ کہ وہ دنیاکے ختم ہونے تک مچھلی کے پیٹ میں رہیں.لیکن یہ تسبیح اورحمد الہٰی کی برکت سے برطرف ہوگئی .دوسری یہ کہ جب وہ شکمِ ماہی سے باہر آئے تو مذموم اور لطفِ خدا سے دور ہوتے . تووہ سزا بھی پر وردگار کی نعمت اور اس رحمت ِخاص کی برکت سے بر طرف ہوگئی ۔
دوسراسوال یہ کہ سورۂ صافات کی آ یت ١٤٢ میں آیا ہے : فا لتقمہ الحوت وھو ملیم : ایک بہت بڑی مچھلی نے اُسے نگل لیا جبکہ وہ قابل ِ ملامت تھا، لیکن زیربحث آیت سے معلوم ہوتاہے کہ اس پرکوئی مذمّت اور ملا مت نہیں تھی ۔
اس سوال کاجواب بھی ایک نکتہ کی طرف توجّہ کرنے سے واضح ہو جاتاہے کہ یہ ملا مت اس زمانہ کے ساتھ مربُوط ہے جبکہ وہ نئے نئے مچھلی کے پیٹ میں پہنچے تھے .لیکن مذمّت کی برطرفی اس زمانہ کے ساتھ مربُوط ہے جب انہوں نے تو بہ کرلی اور خدانے ان کی توبہ کو قبول کرلیا اورانہوں نے مچھلی کے پیٹ سے نجات پائی ۔
اِسی لیے بعد والی آیت میں فرماتاہے : اس کے پر وردگار نے اُسے چُن لیاوراُسے صالحین میں سے قرار دیا (فَاجْتَباہُ رَبُّہُ فَجَعَلَہُ مِنَ الصَّالِحینَ) ۔
اس کے بعد انہیں نئے سرسے سے اپنی قوم کی ہدایت کے لیے مامور کیا. وہ ان کی طرف آ ئے وہ سب ایمان لے آ ئے اورخدا نے بہت زیادہ مدّت تک انہیں زندگی کی نعمتوں سے بہرہ مند کیا۔
ہم نے یونس اور ان کی قوم کے قصّے اوراسی طر ح ان کے ترکِ اولیٰ سے مربُوط دوسرے مسائل یعنی ان کامچھلی کے پیٹ میں جانا اور مختلف سوالات جو اس سلسلہ میں درپیش ہیں تفصیل کے ساتھ تفسیر نمونہ جلد ١٩ (سورہ ٔ صافات کی آ یت ١٣٩ تا ١٤٨ کے ذیل میں )اوراسی طرح تفسیر نمونہ جلد١٣ (سورہ انبیاء کی آ یت ٨٧ ، ٨٨ کے ذیل میں بیان کیے ہیں )۔
١۔اس صورت میں "" لحکم ربک ""کالام تعلیل کالام ہے ۔
٢۔ نعمت کے مُؤ نث ہونے کے باوجوداس کا فعل ( تدارکہ) مذ کّر کی صورت میں آ یاہے .اِس کی وجہ یہ ہے کہ فاعل مُؤ نث لفظی دہے اورفعل و فاعل کے درمیا ن ضمیرمفعُولی میں فاصلہ ہوگیاہے (غور کیجئے )۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma