اس دن سجدہ کرنا چاہیں گے لیکن قادر نہ ہو سکیں گے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 24
گزشتہ آیات کے بعد جن میں مشر کوں اور مجر موں سے سخت بازپُر س کی گئی تھی ،زیر بحث آ یات میں قیامت میںان کی سرنوشت کے ایک گوشہ کی نشان دہی کررہاہے ، تاکہ واضح ہوجائے کہ یہ خود خواہ اور بڑ ے بڑے دعوے کرنے والا گروہ ،کِس قدر ذلیل وخوار ہوگا ۔
فرماتاہے : اس دن کو یاد کرو جس دن پنڈ لیاں خوف ووحشت سے برہنہ ہوجائیں گی اور انہیں سجدہ کی دعوةدی جائے گی لیکن وہ اس پر قادر نہیں ہوں گے (یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ ساقٍ وَ یُدْعَوْنَ ِلَی السُّجُودِ فَلا یَسْتَطیعُونَ)(١)۔
یُکْشَفُ عَنْ ساق ا( پنڈ لیاں برہنہ ہوجائیں گی )کاجملہ مفسرین کی ایک جماعت کے قول کے مطابق ہول ووحشت کی شدّت اور معاملہ کی سنگینی سے کنا یہ ہے .کیونکہ عربوں کے درمیان یہ معمول تھاکہ جب کوئی کسی مشکل کام سے دوچار ہوتاتھا تووہ اپنا د امن کمر پر ڈال دیتا اور پنڈ لیاں برہنہ کردیتاتھا .اِسی لیے جب مشہور مفسر ابن عباس سے اس آ یت کی تفسیر کے بارے میںپوچھا گیاتوانہوں نے اس کے جواب میں کہا:جب تمہیںقرآن مین سے ہوئی بات مخفی دکھائی دے تواشعار میں عربوں کی تعبیرات کی طرف رجوع کرو ، کیاتم نے سنانہیں کہ ایک شاعر کہتاہے :
وقامت الحرب بنا علی ساق
جنگ نے ہمیںپائوں کی پنڈلی پر لاکھڑا کیا۔
جوجنگ کے بحران کی شدت سے کنایہ ہے ۔
بعض نے یہ بھی کہاہے کہ ساقکسِی چیز کی اصل اوربنیاد کے معنی میں ہے جیسے درخت کاتنا.اس بناء پر یُکْشَفُ عَنْ ساق یعنی اس دن ہرچیز کی جڑ یں اور ریشے آشکار ہوجائیں گے لیکن پہلا معنی زیادہ مناسب اور صحیح ہے ۔
ہاں !اس دن سب کو پر وردگار کے سامنے سجدہ اورخضوع کی دعوت دی جائے گی .مومنین توسجد ے میں گر پڑیں گے لیکن مجرموںمیں سجدہ کی قدرت نہ ہوگی .کیونکہ وہ غلط جذبات و نظر یات جو دنیامیںان کے وجود میں راسخ ہوچکے ہوں گے وہ اس دن ظاہر ہوجائیں گے اوراس بات سے مانع ہوں گے کہ وہ خدا کی پاک ذات کے سامنے کمر کوخم کریں ف۔
یہاں ایک سوال سامنے آ تاہے کہ قیامت کادن تکلیف اور ذمّہ داریوں کادن نہیں ہے تو پھر سجدہ کی دعوت کِس بناء پر ہوگی ؟
اس سوال کاجواب اس تعبیر سے حاصِل کیا جاسکتاہے جواحادیث میںآ ئی ہے .ایک حدیث میں آ یا ہے :
قیامت میں نو رالہٰی سے حجاب اٹھا دیا جائے گااور مومتین اس کی عظمت کی بناء پر سجدہ میں گر پڑیں گے .لیکن منافقین کی پشت ایسی سخت ہوجائے گی کہ ان میں سجدہ کرنے کی قدرت نہ رہے گی (٢)۔
دوسرے لفظوں میں اس دن خدا کی عظمت آ شکار ہوجائے گی . یہ عظمت مومنین کوسجدہ کی دعوت دے گی اور وہ سجدہ میں گر پڑ یں گے .لیکن کفّاراس سعادت سے محروم رہ جائیں گے ۔
بعد والی آیت کہتی ہے : حالت یہ ہوگی کہ ان کی آنکھیںشدّتِ ندامت و شر مساری سے نیچے کی طرف جھکی ہوئی ہوں گی اور ذلّت وخواری نے ان کے تمام وجود کوگھیر رکھاہوگا (خاشِعَةً أَبْصارُہُمْ تَرْہَقُہُمْ ذِلَّة)( ٣)۔
مجرم افراد کے خلاف جب کسِی عدالت میں فیصلہ ہوجاتاہے توعام طورپر وہ اپنا سرنیچے کرلیتے ہیں اورذلّت و خواری ان کے سارے وجود کوگھیر لیتی ہے ۔
اس کے بعد مزید کہتاہے :انہیں اس سے پہلے دار دنیامیں جبکہ وہ صحیح وسالم تھے سجدہ کی دعوت دی جاتی تھی (وَ قَدْ کانُوا یُدْعَوْنَ ِلَی السُّجُودِ وَ ہُمْ سالِمُونَ )۔
لیکن انہوں نے بالکل سجدہ نہ کیا اوراستکبار ،سرکشی اوررُو گردانی کی روح کواپنے ساتھ ہی میدان قیامت تک لے آ ئے ،اس حالت میں ان سجدہ کرنے کی قدرت کیسے ہوگی ۔
واضح ہے کہ دنیا میں سجدہ کی دعوت نماز کے موقع پر اذان دینے والوں کے پیام کے ذ ریعہ اور نماز جماعت کے اجتما عات میں اورقرآن کی آ یات ، پیغمبر اور آ ئمہ معصو مین علیہم السلام کی احادیث کے ذ ریعہ بھی صورت پذیر ہوتی تھی .لہٰذا یہ دعوة ایک وسیع و عریض مفہوم رکھتی ہے جوان سب کوشامل ہے ۔
اس کے بعد روئے سخن پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی طرف کرتے ہُوئے کہتاہے : مجھے اس بات (یعنی قرآن )کی تکذیب کرنے والوں کے لیے رہنے دے .میں ان سب کاحساب کتاب چکالوں گا (فَذَرْنی وَ مَنْ یُکَذِّبُ بِہذَا الْحَدیثِ )۔
یہ خدا وند قادر وقہار کی طرف سے ایک شدید اور سخت تہدید ہے کہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے کہتاہے تمہیں دخل دینے کی ضرورت نہیں ہے.،ان ہت دھرم،سرکش اور جھٹلا نے والوں کے لیے دمجھے ہی رہنے دے تاکہ وہ جس چیزکے مستحق ہیں میں وہ انہیں دے دوں۔
ہمیںیہ بات نہیںبھولنی چاہیئے کہ یہ بات وہ خدا کہہ رہاہے جوہر چیز پر قادر ہے ۔
یہ تعبیر ضمنی طورپر دشمنوں کی کار شکینوںاور ساز شوں کے مقابلہ میں پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)اور مو منین کی ولداری اورقوتِ قلب کاسبب ہے ۔
اِس کے بعد مزیدکہتاہے : ہم عنقریب انہیں ایسی جگہ سے جسے وہ نہیں جانتے تدریجاً عذاب کی طرف لے جائیں گے (سَنَسْتَدْرِجُہُمْ مِنْ حَیْثُ لا یَعْلَمُونَ )۔
اور میں انہیں مہلت دیتا رہوں گا اوران کے عذاب میں جلد ی نہ کروں گا .کیونکہ میرے منصوبے مستحکم اور دقیق ہیں اور میرا عذاب شدید ہے (وَ أُمْلی لَہُمْ ِنَّ کَیْدی مَتین )۔
ایک حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے آ یاہے :
اذ ااحدث العبد ذنباً جد د لہ نعمة ، فیدع الا ستغفار فھوالاستد راج ۔
بعض اوقات جب سرکش بندے گناہ کرتے ہیں توخدا انہیں نعمت دیتا ہے اوروہ اپنے گناہ سے غافل ہوجاتے اور توبہ کو بھول جاتے ہیں . یہی استد راج اور تدریجی بلا وعذاب ہے (٤)۔
یہ حدیث اور بعض دوسری احادیث جواس سلسلہ میں واردہُوئی ہیں،ان سے معلوم ہوتاہے کہ خدا بعض اوقات معانداور ہٹ دھرم بندوں کی سزا اور عذاب کے لیے ان گناہوں کے مقابلہ میں جنہیں وہ انجام دیتے ہیں، انہیں نعمت عطاکرتاہے تووہ یہ خیال کرنے لگتے ہیں کہ یہ لطفِ الہٰی ہے جوان کی شائستگی اور لیاقت کی بناء پران کے شامل حال ہُوا ہے .لہٰذا وہ غرور اور غفلت میں غرق ہوجاتے ہیں لیکن پھر اچانک خدا ان کی گرفت کر لیتاہے اور نا زو نعمت سے نکال کرانہیں عذاب وبلا کے مُنّہ میں دھکیل دیتاہے . یہ عذاب کی دردناک ترین شکل ہے ۔
البتّہ یہ ان لوگوں کے بارے میں ہے جوطغیان وسرکشی کواس کی آخری حد تک پہنچا دیتے ہیںلیکن وہ افراد جوابھی اس حد تک نہیں پہنچے ، خداان گناہوں کے مقابلہ میں ان کی گوشمالی اور تنبیہ کرتاہے .پھر یہی چیزان کی بیداری اور توبہ کاسبب بن جاتی ہے اور یہ ان کے حق میں لطفِ خداہے ۔
دُوسرے لفظوںمیں جب انسان گناہ کرتاہے تووہ متین حالتوں سے باہر نہیں ہوتا ،یالو وہ خودہی متوجہ ہوجاتا ہے اورواپس پلٹ آ تاہے ،یاخدا اسے ابتلا،کا تاز یانہ لگاتا ہے تاکہ وہ بیدارہوجائے ،یاوہ اس میں ان دونوں کے لیے کسِی میں بھی شائستگی نہیں ہوتی اورخدا ابلاء ومصیبت کی بجائے اس نعمت بخشتاہے . پس یہ وہی عذابِ استدراج ہے جس کی طرف آیاتِ قرآنی میں اس تعبیر کے ساتھ یاددوسری تعبیروں کے ساتھ اشارہ ہواہے ۔
لہٰذاانسان کوچاہیے کہ خدائی نعمتوں کی فر اوانی کے موقع پریہ دیکھے کہ کہیںامر جو ظاہر میں نعمت ہے ، عذاب ِ استدراج ہی نہ ہو .اسی وجہ سے بیدارمغز مسلمان ایسے مو قعوںپرسوچ میںپڑ جاتے ہیں اوراپنے اعمالکی دیکھ بھال کرتے ہیں ،جیساکہ ایک حدیث میںآ یا ہے کہ امام صادق علیہ السلام کے اصحاب میں سے ایک نے عرض کیا:میں نے خداسے مال طلب کیاتو اس نے مجھے مال عطاکیا .میں نے اس سے اولاد طلب کی تواس نے مجھے اولا د بخشی میں نے اس سے گھر طلب کیاتواس نے مجھے گھر مرحمت فر مایا:میں اس سے ڈرتا ہوں کہ کہیںیہ اِستدراج ہو ،امام علیہ السلام نے فرمایا:
اگر یہ سب کچھ حمدو شکرِ الہٰی کے ساتھ ہوتوپھر یہ استد راج نہیں ہے ( نعمت ہے )( ٥)۔
املی لھم( میں انہیں مہلت دیتا رہوں گا )کی تعبیر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خداظالموں کی سزا میںعجلت اور جلد بازی سے کام نہیں لے گا .کیونکہ جلد بازی تووہ کرتاہے جسے فرصت کے ہاتھ سے نکل جانے کاخوف ہولیکن خدا وند قادر متعال جس وقت اور جوبھی ارادہ کرے وہ صورت پذیر ہوجاتاہے .اس کے ہاتھ سے فرصت کے نکِلجانے کاکوئی سوال ہی نہیں ہے .بہرحال یہ تمام ظالموں اور سرکشوں کوایک تنبیہ ہے کہ سلامتی نعمت اورامن وامان ہر گز انہیں مغرورنہ کرنے پائے اوروہ ہرگز گھڑی و ہر لمحہ خُداکے شدید عذاب کے منتظر رہیں ( ٦)۔
١۔"" یوم "" ظرف ہے اور ایک مظروف سے متعلق ہے اور تقدیر میں اذ کروایوم ... ہے بعض نے یہ احتمال بھی دیاہے کہ یہ فلیأ تواسے متعلق ہے جوگزشتہ آ یت میں آ یاہے ،لیکن یہ معنی بعید نظر آ تاہے ۔
٢۔نورالثقلین ،جلد ٥،صفحہ ٣٩٥ حدیث ٤٩۔
٣۔"" تر ھقھم"" "" رھق""( بر وزن شفق "")کے مادّہ سے چھپا نے اور گھیر لینے کے معنی میں ہے ۔
٤۔مجمع البیان ،جلد ١٠ ،صفحہ ٣٤٠۔
٥۔اصول کافی بہ نقل نورالثقلین ، جلد ٥،صفحہ ٣٩٧۔
٦۔عذاب"" استدارج ""کے سلسلہ میںہم نے تفسیر نمونہ جلد ٨ ( سورۂ اعراف کی آ یت ١٨٢ کے ذیل میں اور سورۂ آل ِ عمران کی آ یہ ١٧٨ کے ذیل میں بالتفصیل بیان کیاہے ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma